سسکتا بلکتا، مقتل گاہ ِ کراچی

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ششماہی رپورٹ کے مطابق جنوری تا جون2012ءکراچی میںمختلف نوعیت کے تحت1257 افراد جاںبحق ہوئے۔جس میں غیر سیاسی بنیادوں پر 366افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔جبکہ 135کارکنان مختلف سیاسی جماعتوں کے قتل ہوئے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ 84افراد لیاری گینگ وار کے نتیجے میں جبکہ 160افراد کو اغوا کے بعد،اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر27 افرادہلاک کئے گئے۔جبکہ ڈکیتوں کی مختلف وارداتوں میں 42،سمیت مختلف علاقوں میں39افراد کی لاشیں بھی بازیاب ہوئیں۔

رپورٹ کے مطابق پولیس کی جانب سے مقابلوں میں48افراد ہلاک کئے جبکہ 44پولیس اہلکاروں کو بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔مختلف نوعیت کے واقعات میں64بچے اور 80خواتین بھی ہلاک ہوئیں۔جبکہ21افراد منشیات کے استعمال اور12 افراد ٹرین کی زد میں آکر ہلاک ہوئے۔معاشرے کے چہرے پر بدنما داغ کاروکاری کی زد میں آکر 12جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ماہ اپریل کا مہینہ 260افراد کی ہلاکتوں کے ساتھ سب سے زیادہ تشدد رہا۔

ہمارے معاشر ے میں پر تشدد واقعات میں اضافہ باعث تشویش ہی نہیں بلکہ لمحہ ءفکریہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے فرائض صحیح طور پر سر انجام نہیں دے رہے۔صرف لیاری گینگ وار کی زد میں آکر 84افراد کی ہلاکتیں سیکورٹی اداروں کی کارکردگی کا پول کھول دیتیں ہیں کہ جرائم پر قابو پانے اور ٓاہنی ہاتھوں سے نپٹنے کے دعوے کس قدر کھوکھلے ہیں۔کراچی میں جہاں جرائم پیشہ عناصر ،سیکورٹی اداروں سے صف آرا ہوکر انھیں شکست دئے جا رہے ہیں وہاں معاشرے کا سب سے بھیانک کردار اغوا برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتیں ہیں۔160افراد کو اغوا کے بعد ہلاک کئے جانے کی رپورٹ اس صورت میں ہوئی ہیں کہ ان کے مطالبہ پورا نہ ہونے پر ہلاک کیا گیا ۔ ان افراد کی تو کوئی رپورٹ ہی نہیں ہے جس میں سینکڑوں لوگوں کو بھتہ اور تاوان کی غرض سے اغوا کیا گیا ہو اور تاوان وصول کرنے کے بعد جان سے مارنے کی دہمکی کے بعد خوفزدہ کرکے چھوڑ دیا گیا ہو۔اس ہولناک حقیقت سے تمام ادارے آگاہ لیکن بے بسی کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔

کراچی مختلف النسل قومیتوں پر مشتمل ملک کی معاشی شہ رگ ہے ، ڈھائی کروڑ کی آبادی میں غیر مقامی پولیس ، رینجرز اور ایف سی کی قلیل تعداد کا جرائم پر کنٹرول پانا نا ممکن ہے۔سیاسی مصلحتوں اور عدم برداشت کی پالیسی کی وجہ سے سیکورٹی ادارے عضو معطل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے وارداتوں کے خلاف سینٹ ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بائیکاٹ بھی کیا جاتا رہا اور حکومت پر دباﺅ ڈالنے کی بھی کوشش کی گئی لیکن ایسا لگتا ہے جیسے قائد کے شہر کو قاتلوں کے سفاک ہاتھوں میں جان بوجھ کر سونپ دیا گیا ہو ۔سیکورٹی اداروں کی جانب سے عوام کو تحفظ کی فراہمی میں ناکامی میں سیاسی مصلحت انگیزیوں کا بڑا عمل دخل ہے ۔ تمام دنیا نے دیکھا کہ ایک جانب تو گینگ وار کے ذمے داران کے خلاف سر کی قیمتیں مقرر کیں جاتیں ہیں تو دوسری جانب اسی گروپ کو راضی کرنے کےلئے حکومتی ایوانوں سے سرکاری وفود بھی جاتے ہیں۔جب غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہو تو خیر کی توقع کس سے کی جائے ؟ ۔

کراچی کو ہمہ اقسام کا مقتل گاہ بنا کر شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس اس قدر دوچند کردیا گیا ہے کہ ہلکی سی آہٹ بھی دل کو خوفزدہ کردینے کا سبب بن گئی ہے تو دوسری جانب فرقہ وارانہ ہلاکتوں نے جلتی پر پٹرول کا کام کیا ہوا ہے۔ ان تمام صورتحال میں حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزرات داخلہ کا قلم دان باقاعدہ طور پر کسی وزیر کے پاس چند ماہ سے زیادہ نہیں رہتا اور اب بھی سندھ میں وزارت داخلہ کا قلم دان وزیر اعلی کے پاس ہے۔جب تک ارباب اختیار شہریوں کو امن اور تحفظ فراہم کرنے کےلئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کریں گے اس وقت تک امن کے لئے کی جانے والی کوئی کوشش کامیابی کا زینہ نہیں چڑھ سکتی۔تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔حکومتی اداروں کو محض اپنی کارکردگی تنخواہوں ار مراعات کے حصول کی جانب ہی مرکوز نہیں رکھنی چاہیے بلکہ انھیں عوام کی جان و مال کا تحفظ دینے کےلئے عملی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔اور عملی کردار ادا نہیں کیا گیا تو شہر میں بھڑکتی آگ کے شعلوں تک کو بجھانا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 296453 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.