دیتے ہیں دھوکایہ بازیگر کھُلا

مشفق و مہربان سپریم کورٹ نے ایک دفعہ پھر حکمرانوں کو دو ہفتے کی مہلت دے دی ہے ۔جسٹس سعید کھوسہ نے کہا ہے” حکومت اگر چاہے تو کوئی قابلِ قبول حل نکل سکتا ہے “۔لیکن اونچے ایوانوں کے باسیوں کے نزدیک قابلِ قبول حل صرف یہ ہے کہ این آر او عمل در آمد کیس کو ایک ڈراؤنا خواب سمجھ کر بھُلا دیا جائے جب کہ سپریم کورٹ ہنوز خط لکھنے کی تکرار کر رہی ہے ۔وفاق اپنے موقف سے سرِ مو گریز کو تیار نہیں اور اعلیٰ عدلیہ اپنے جاری شُدہ فیصلوں سے آئینی و قانونی طور پر انحراف نہیں کر سکتی ۔کہا جا سکتا ہے کہ کسی قابلِ قبول حل کا کہیں دور دور تک کوئی امکان نہیں۔اس سے قطع نظر کہ عدلیہ اور وفاق کے اس تصادم کا کیا نتیجہ نکلتا ہے ۔قابلِ غور بات تو یہ ہے کہ ہم نے سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے 5 ارب روپوں کے لئے تو ملکی سلامتی تک کو داؤ پہ لگا دیا ہے لیکن جاری اخراجات کے علاوہ سٹیٹ بینک سے گزشتہ چار سالوں میں حاصل کیئے گئے 13 ہزار ارب روپوں کا کچھ پتہ نہیں کہ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا ۔ایمنسٹیانٹر نیشنل نے چار سالوں میں 8500 ارب کی کرپشن کا ذکر کیا تو سارے حکومتی گُرگے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئے لیکن اب ”گھر کے بھیدی“ چیئر مین نیب نے کرپشن کی جو نشاندہی کی ہے اس کے مطابق تو چار سالوں میں کرپشن دس ہزار ارب روپے سے بھی زیادہ بنتی ہے ۔جس کی حکومتی حلقوں کی جانب سے آج تک کوئی تردید بھی نہیں آئی ۔مانا کہ ساٹھ ملین ڈالر ایک خطیر رقم ہے جسے ہر حال میں واپس آنا چاہیے لیکن ایفی ڈرین کیس میں تو 750 ملین ڈالر کی کرپشن ہوئی اور ملزمان عبوری ضمانتیںکروا کر دندناتے پھر رہے ہیں ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں زیرِ التوا ءکرپشن کے دیگر بیشمار کیسز کی طرح یہ کیس بھی فائلوں کی زینت بن جائے گا اور قوم NRO , NRO کھیلتی رہے گی اور ہمارے دانشور یہ دل خوش کُن خبر سناتے رہیں گے کہ معاشرہ تغیر پذیر ہے اور اک جہانِ نو کی آمد آمد ہے ۔معاشرہ کتنا تغیر پذیر ہے ، اس کی ایک جھلک تو ان مہربانوں نے ملتان کے موجودہ ضمنی انتخابات میں یکھ ہی لی ہو گی ۔

پیپلز پارٹی کو ”مردہ گھوڑا“ سمجھنے والے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں برا جمان بزرجمہروں کو بھی ادراک ہو گیا ہو گا کہ عوامی شعور کی بیداری کا ہر گز وہ عالم نہیں جس کا ڈھنڈورا وہ ہر وقت پیٹتے رہتے ہیں ۔ایسا ہر گز نہیں کہ عبد القادر گیلانی کی جیت کا سہرا ”جیالوں “کے سر ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ دائیں اور بائیں کی تفریق صرف شہروں تک محدود ہے اور دور دراز دیہاتوں میں بسنے والوں کے ہاں ایسا کوئی تصور نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ دیہاتوں میں بسنے والے تقریباََ تین چوتھائی اکثریت آج بھی وڈیروں ، جاگیر داروں اور چوہدریوں کے قبصہ قدرت میں ہے اور آٹے میں نمک برابر باغیوں کو نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے ۔شہر میں بسنے والا ایک ”دیہاڑی دار“مزدور تو حقِ رائے دہی کا آزادانہ استعمال کر سکتا ہے لیکن ایک پنجابی کسان یا سندھی ہاری ہر گز نہیں۔اس کے علاوہ ذات برادری کی لعنت بھی اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوتی ہے ۔80 فیصد سے زائد دیہی آبادی پر مشتمل حلقہ 51 گیلانیوں اور بوسنوں کا روایتی حلقہ ہے جس میں کبھی گیلانی جیتتے ہیں تو کبھی بوسن۔شوکت بوسن نے تقریباََ اتنے ہی ووٹ لئے جتنے بوسنوں کو ہمیشہ ملتے آئے ہیں البتہ عبد القادر گیلانی کو اپنے باپ سے تقریباََ پندرہ ہزار ووٹ کم ملے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ نہ تو سابقہ وزیرِ اعظم کی ”سیاسی شہادت “ کسی کام آ سکی اور نہ ہی سرائیکی صوبے کے نعرے نے کوئی اثر دکھایا ۔کہا جا سکتا ہے کہ پندرہ ہزار ووٹ کی کمی گیلانی صاحب کی ”خاندانی کرپشن“ اور عدلیہ سے محاذ آرائی کا نتیجہ ہو سکتی ہے لیکن دیہاتوں میںبسنے والوں کو کرپشن یا عدلیہ محاذ آرائی سے کچھ لینا دینا نہیں انہیں تو بس حکم ملتا ہے جس کی بجا آوری ان کا فرضِ منصبی ٹھہرتا ہے۔میری ناقص رائے میں پندرہ ہزار ووٹوں کی کمی ان 35 فیصد بوگس ووٹوں کا شاخسانہ ہے جو موجودہ ووٹر لسٹوں سے منہا کر دیئے گئے اور گیلانی اس سے مستفید نہ ہو سکے۔

یہ بجا کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر انتہائی دیانتدار ہیں لیکن پھر بھی پاکستانی ”بی بی جمہوریت“ کے ہوتے ملک کا بھلا ہو سکتا ہے نہ قوم کا ۔تلخ ترین حقیقت تو یہی ہے کہ انتخابات میں حصہ لینا کسی عامی کے بس کا روگ نہیں ۔یہ تو کروڑوں ، اربوں میں کھیلنے والے وڈیروں ،جاگیر داروں اور صنعت کاروں کا شغل ہے ۔یہ ”ایلیٹ کلاس “بظاہر تو باہم دست و گریباں نظر آتی ہے لیکن در حقیقت اس کے نہ صرف مفادات ،مشترک ہیں بلکہ یہ قریبی عزیز داری اور رشتے داریوں کے بندھن میں جکڑی ہوئی بھی ہے ۔یہی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ ، بیورو کریسی پرانہی ”گھُس بیٹھیوں“ کا مکمل کنٹرول بھی ہے ۔ اگر دو یا تین چوروں میں سے کسی ایک کا انتخاب ہی اس قو م کا مقدر ٹھہرا تو ایسے میں دیانت دار چیف الیکشن کمشنر کیا کر لیں گے؟۔جب یہ عالم ہو کہ اگر پیپلز پارٹی سے سوال کیا جائے کہ ان کے چمن میں تو کرپشن ”کھمبیوں“ کی طرح اگی ہوئی ہے تو تُرت جواب آتا ہے کہ نواز لیگ کے چشموںکا پانی بھی تو گدلا ہے ۔اگر عدلیہ سے بے جا محاذ آرائی کا ذکر کیا جائے تو فرمان جاری ہوتا ہے کہ نواز لیگ تو عدلیہ پر حملہ آور ہو گئی تھی ہم تو صرف حکم عدولی کر رہے ہیں ۔ البتہ تحریکِ انصاف دھڑلے سے سبھی کو چور قرار دیتی ہے ۔وجہ صرف یہ کہ ان کے ”کپتان“ کی ذات پر ابھی تک کوئی ایسا بڑا الزام نہیں آیا لیکن اگرتحریکِ انصاف کے ماتھے کا جھومر بنی مختلف سیاسی جماعتوں سے نکلے یا نکالے گئے چوروں کی ”منڈلی“ کے بارے میںسوال کیا جائے تو جواب آتا ہے کہ اگر سربراہ دیانت دار ہو تو باقی سب خود بخود درست ہو جاتے ہیں ۔سوال مگر یہ ہے کہ مفاد پرستوں کا یہ ٹولہ کیونکر ٹھیک ہو سکتا ہے جو آیا ہی اس سونامی کے پانی سے اپنے مفادات کی آبیاری کے لئے ہے ؟۔اگر انہیں اپنے مفادات عزیز نہ ہوتے تو یہ اس وقت تحریکِ انصاف میں شامل ہوتے جب عمران خاں کی نہ صرف یہ کہ پُکار سننے والا کوئی نہیں تھا بلکہ گلی گلی میں ان کا مذاق بھی اڑایا جاتا تھا ۔ان کا مینارِ پاکستان پر ایک کامیاب شو کیا ہوا کہ ڈال ڈال گھومنے والے سبھی پنچھی تحریکِ انصاف کے ابھرتے پیڑ پہ آ بیٹھے ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر خاں صاحب کس برتے پر انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں ؟۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643346 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More