امریکی دہشت گردی کی سو سال سے
زائد پرانی تاریخ پہلی بار منظر عام پر
دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے اور دہشت گردی چاہے کوئی فرد واحد کرے، چاہے کوئی
تنظیم کرے یا کوئی ریاست کرے وہ قابل مذمت ہے اور اس کے مجرم کو سزا ملنی
چاہیے۔اس وقت دنیا میں بڑا عجیب منظر دکھائی دیتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت
گرد ملک امریکہ اپنی دہشت گردی اور بدمعاشی سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے پوری
دنیا کے سامنے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ناٹک رچا رہا ہے۔امریکہ جس کی تاریخ
ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کے خون سے رنگین ہے وہ پوری دنیا میں
امن اور انسانی حقوق کا چیمپئین بنا ہوا ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے نام
نہاد دانشور صاحبان اور کالم نگار حضرات کہ جن کو اللہ نے لکھنے کی صلاحیت دی
ہے اور ایک وسیع حلقہ تک ان کی رسائی ہے جہاں وہ اپنی بات پہنچا سکتے ہیں وہ
انسانیت کے مجرم امریکہ کی حقیقت بیان کرنے کے بجائے اسی قاتل کی حمایت کا درس
دیتے ہیں اور اس کو زمینی حقائق کا نام دیتے ہیں۔ بہر حال ان کی رسائی ایک بہت
بڑے حلقہ تک ہے اور ہماری رسائی بہت محدود حلقہ تک ہے ہم اسی حلقے تک اپنی بات
پہنچاتے رہیں گے اس یقین کے ساتھ کہ ع بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے -پر
نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے۔
امریکہ اپنے قیام کے وقت سے ہی بےگناہوں خون بہا رہا ہے ۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ
کولمبس نے جب امریکہ دریافت کیا تو اس کے بعد اول یورپ کے مہم جو اور مجرم لوگ
سونے اور ہیرے جواہرت کی تلاش میں یہاں آتے تھے پہلے انہوں نے اس خطہ زمین کے
اصل باشندوں اور وارث ریڈ انڈینز کو بے دردی سے قتل کیا ، ان کی نسل کشی کی اور
اس کے بعد ان کے وطن پر قابض ہوگئے۔آج ریڈ انڈینز وہاں صرف سینکڑوں کی تعداد
میں ہیں۔
مہذب دنیا میں امریکہ کی دہشت گردی کی تاریخ سوا سو سال کے عرصے پر محیط
ہے۔امریکہ نے اپنے مفادات کے لیے ملکوں پر بمباری، میزائل حملے، مختلف ممالک کے
امریکہ مخلاف لیڈرز کو قتل کرنے کے لیے کرائے کے قاتلوں کی خدمات، اور اپنی من
پسند حکومتیں بنانے کے لیے ڈالرز کی برسات سمیت ہر حربہ استعمال کیا ہے۔آج ہم
امریکہ کی اسی دہشت گردی کی تاریخ پیش کریں گے۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکہ نے اپنے مفادات کے لیے بائیس سے زائد
ممالک پر بمباری اور میزائل حملے کیے ہیں اور ان ممالک میں اب پاکستان بھی شامل
ہے دوسری جنگ عظیم اختتام پر تھی اور جاپانی افواج شکست تسلیم کرنے والی تھیں
کہ امریکہ نے بلاجواز جاپانی شہروں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسا کر
لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا اور یہ شہر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔اور اس ایٹم بم
کی تابکاری اثرات کے تحت آج تک وہاں معذور بچے پیدا ہوتے ہیں۔
انیس سو پینتالیس اورچھیالیس میں امریکہ نے چین پر بمباری کی،انیس سو پچاس سے
انیس سو تریپن تک کوریا پر بمباری کی گئی۔ انیس سو اٹھاون میں انڈونیشیا پر
بمباری کی گئی، انیس سو ساٹھ میں کیوبا پر بمباری کی گئی۔ انیسو سو ساٹھ ہی میں
گوئٹے مالا،انیس سو چونسٹھ میں کانگو، انیس سو پنیسٹھ میں پیرو، انیس سو چونسٹھ
سے انیس سو تہتر کے دوران لائوس، انیس سو اکسٹھ سے انیس سو ستر کے دوران
کمبوڈیا پر، انیس سو تراسی میں گرینیڈا پر۔ انیس سو چوراسی میں لبنان پر، انیس
سو چھیاسی میں لیبیا پر،انیس سو اسی میں السلوا ڈور پر، انیس سو نواسی میں
پنامہ پر بمباری کی گئی۔
امریکہ اپنے مفادات کے لیے مختلف ممالک میں دخل اندازی کرتا رہا ہے۔ امریکہ نے
آج تک اپنے مفادات کے لیے پاکستان سمیت کئی ملکوں میں بمباری کی اور اپنی فوجیں
اتاریں۔ اٹھارہ سو اٹھانوے میں اسپین سے جنگ کے دوران امریکی فوج نے چھ لاکھ
افراد ہلاک کردیے۔ انیس سو ایک میں جب پنامہ کے عوام نے کولمبیا سے آزادی کا
مطالبہ کی تو امریکہ نے فوراً وہاں انقلابیوں کی مدد کے بہانے وہاں فوجیں اتار
کر قبضہ کرلیا اور تقریباً چودہ سال تک پنامہ پر قابض رہا
انیس سو چودہ میں ہی ہیٹی میں انقلاب آتے ہی امریکی فوج نے حکومت پر قبضہ کرلیا
اور انیس سال تک اپنا تسلط جمائے رکھا۔ انیس سو اٹھارہ میں روس میں بالشویکی
انقلاب کے بعد انیس سو بائیس تک پانچ سال پانچ مرتبہ امریکی فوج کو اتار دیا
انیس سو بائیس ہی میں ترکی کے شہر سمرنہ میں امریکی فوجوں نے ترکی فواج کے خلاف
جنگ لڑی۔ انیس سو ستائیس میں چین میں امریکی افواج کا داخلہ ہوا اور انیس سو
چونتیس تک امریکہ نے یہ قبضہ برقرار رکھا اور امریکہ نے جاتے جاتے عظیم چینی
قوم کو ایک سازش کے تحت افیون کے نشے مین مبتلا کیا تاکہ یہ عظیم قوم کبھی سر
نہ اٹھا سکے۔ انیس سو اکتالیس سے انیس سو پینتالیس تک امریک فوجیں
جرمنی،جاپان،اور اٹلی کے خلاف لڑیں، انیس سو چھیا لیس میں یوگو سلاویہ میں ایک
لڑاکا امریکی طیارہ فضائی حدود کی خلاف ورزی پر اتار لیا گیا۔ جس پر امریکہ نے
مشتعل ہوکر امریکی بحری بیڑے نے یوگو سلاویہ کے ساحل کا محاصرہ کرلیا۔ انیس سو
اڑتالیس میں جرمنی کے شہر برلن کے گرد ایک سال سے زائد عرصے تک محاصرہ کیا گیا
انیس سو تریپن میں امریکی سی آئی اے نے مصدق کی حکومت کا خاتمہ ک رکے امریکی
پٹھو رضا شاہ پہلوی کی حکومت قائم کی گئی۔
انیس سو پچاس سے انیس سو پچھتر کے دوران ویتنام پر امریکہ نے چڑھائی کردی اور
بدترین ہزیمت کے بعد وہاں سے پسپائی۔ انیس سو اکیاسی میں امریکی ائر فورس نے
لیبیا کے دو طیارے مار گرائے انیس سو بیاسی سے انیس سو چوراسی لبنان میں خانہ
جنگی کے دوران امریکہ نے موقع غنیمت جان کر اپنی فوجیں اتار دیں اور تین کے بعد
وہاں وہاں سے فوجوں کو واپس بلایا گیا انیس سو چراسی ہی میں امریکی لڑاکا
طیاروں نے دو ایرانی جہازوں کو خلیج فارس میں حملہ کرکے تباہ کردیا انیس سو
چھیاسی میں لیبیا کے دارالحکومت طرابلس اور اس کے ارد گرد امریک طیاروں کی
بمباری انیس سو نواسی انڈونیشیا میںصدر نوریگا کا تختہ الٹنے کے لیے ستائیس
ہزار امریکی فوج کا حملہ اور مزاحمت پر دو ہزار شہری ہلاک کردئے گئے انیس سو
نوے اور اکیانوے میں عراق سے لڑنے کے لیےسعودی عرب میں امریکی فوجی اڈوں کا
قیام اور تاحال یہ اڈے قائم ہیں انیس سو اکیاسی ہی میں کویت میں عراقی افواج کو
نکالنے کے بہانے امریکی فوج کا داخلہ انیس سو بیانوے سے انیس سو چورانوے میں
صومالیہ میں خانہ جنگی کے دوران امریکی فوج کی کاروائیاں اور بے گناہ شہریوں کا
قتل انیس سو پچانوے میں بوسنیا میں امریکی جنگی طیاروں کی نو فلائی زون کی خلاف
ورزی۔ انیس سو اٹھانوے میں سوڈان میں کیمائی اسلحہ تیار کرنے کے شبہے میں دوا
ساز فیکٹری کو میزائل حملے کرکے تباہ کردیا گیا۔ انیس سو اٹھانوے ہی میں
افغانستان کے شہر خوست میں امریکی میزائل برسائے گئے۔ انیس سو اٹھانوے تا دو
ہزار ایک تک عراق میں نو فلائی زون کی کئ بار خلاف ورزی اور بغداد سمیت دیگر
شہروں میں میزائل برسائے گئے
دو ہزار ایک میں نائن الیون کو بہانہ بنا کر امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کرلیا
اور تاحال یہ قبضہ برقرار ہے
دو ہزار تین میں عراق پر کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کا الزام لگا کر حملہ کیا
گیا اور وہاں صدر صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹ کر قبضہ کیا گیا جو کہ آج تک
برقرار ہے۔یہ واضح رہے کہ اس قبضہ کے دوران عراق کےصدر صدام حسین کو پھانسی
دیدی گئی۔
دو ہزار پانچ سے امریکہ نےپاکستانی علاقوں میں میزائل برساتا رہا ہے اور اب اس
سلسلہ کو بڑھا کر پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈرون حملے شروع کردئے
گئے ہیں اور تا حال یہ سلسلہ جاری ہے۔
ہم نے امریک دہشت گردی کی ایک مختصر سی تاریخ پیش کی ہے اور ان صفحات کی تنگی
کی وجہ سے ہم یہاں انکی تفصیلات نہیں تحریر کر رہے ہیں۔اس مختصر سے جائزے سے ہی
یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دنیا کے امن کو خطرہ کسی اور سے نہیں بلکہ امریکہ سے
ہے۔اور امریکی پالیسیوں اور ظلم کے باعث ہی آج دنیا میں ایک بے چینی پھیلی ہوئی
ہے۔اگر امریکہ واقعی دنیا میں امن چاہتا ہے اور واقعی امریکہ کو محفوظ بنانا
چاہتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنی پالیسیاں تبدیل کرئے اس کے بغیر دنیا میں کبھی
بھی امن قائم نہیں ہوسکتا۔
نوٹ:اعداد و شمار انٹر نیٹ اور ولیم بلم WILLIAM BLLUM کی کتاب کلنگ ہوپ
KILLING HOPE سے لیے گئے ہیں
|