پاکستانی سیاست، شخصیت ہرستی ۔ اور افتخار چوہدری

جیسے جیسے وکلاء تحریک میں جان پڑتی جارہی ہے تو اس کے مخالفین کی بوکھلاہٹ میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے وکلاء تحریک کی مقبولیت سے خائف ہوکر اپنے ایک دیرینہ ساتھی اور وفادار کارکن اعتزاز احسن کی رکنیت ختم کردی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہی پیپلز لائرز فورم جو مشرف کے دور میں ججز بحالی تحریک میں پیش پیش تھی اب اس نے صاف طور پر اس کی مخالفت کردی ہے اور اس نے لانگ مارچ سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے۔ نواز شریف کی رواں ہفتے میں نواز شریف کی پریس کانفرنس اور لانگ مارچ میں بھرپور شرکت کے اعلان نے حکومت اور ججز بحالی تحریک کے مخالفین کو مزید دہشت زدہ کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بزرگ سیاستدان،اور جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد کی لانگ مارچ اور دھرنے کی حمایت کے اعلان نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے اور اس وقت حکومتی کیمپ شدید گھبراہٹ کا شکار ہے اسی لیے مشیر داخلہ رحمٰن ملک صاحب نے قاضی حسین احمد صاحب سے لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے کی درخواست کی تھی۔ جو کہ ظاہر ہے کہ جماعت اسلامی نے چونکہ دھرنے کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے اس لئے اس پر بات مزید آگے نہیں بڑھی ہے۔

وکلاء تحریک کے مخالفین اس تحریک کی مخالفت میں ایک بات کا بہت تزکرہ کرتے ہیں کہ یہ تحریک کوئی سسٹم یا عدلیہ کی بحالی کی تحریک نہیں ہے بلکہ یہ صرف شخصی تحریک ہے اور جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنی انا اور ذات کے لیے یہ تحریک چلا رہے ہیں۔اس حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور جناب مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ ویسے تو اس ضمن میں عدلیہ بحالی تحریک کے مخالف اور جسٹس افتخار محمد چوہدری سے خائف ہر فرد نے اپنی استعداد اور حیثیت کے مطابق اپنا حصہ ملایا ہے البتہ صرف ان تین پارٹیوں کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ تین پارٹیاں جنہوں نے عدلیہ بحالی یا ججز بحالی تحریک کو شخصیت پرستی قرار دیا ہے۔کیا ان کا اپنا طرز عمل اس کے مطابق ہے اور کیا انہوں نے ہمیشہ صرف اصولوں کی سیاست کی ہے اور شخصیات کو کبھی بھی اہمیت نہیں دی ہے۔

سب سے پہلے ہم فاروق نائیک صاحب کا ذکر کریں گے۔آپ کا تعلق پیپلز پارٹی ہے آپ کا کہنا ہے کہ شخصیت کے بجائے اصولوں کو ترجیح دیں گے۔ لیکن کیا آپ کی پاکستان پیپلز پارٹی میں شخصیت پرستی کے علاوہ کچھ اور بھی ہے؟ پاکستان پیپز پارٹی کی بنیاد جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے 1968میں رکھی ،پی پی پی کی تاسیس سے لیکر بھٹو صاحب کی وفات کے دن تک صرف بھٹو صاحب ہی پارٹی کو چلاتے رہے اور واضح رہے کہ 1968سے لیکر 1977میں میں بھٹو صاحب کی گرفتاری تک کبھی پارٹی الیکشن نہیں ہوئے اور پوری پارٹی بھٹو صاحب کی شخصیت کے سحر میں مبتلا رہی اور کبھی کسی نے اس بات پر اعتراض نہیں کیا۔ بھٹو صاحب کی وفات کے بعد چند سال تک بیگم نصرت بھٹو صاحبہ کو چئیر پرسن بنایا گیا۔اس کے بعد 1983میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کو تاحیات چئیر پرسن بنایا گیا اور وہ اپنے قتل کے دن تک پارٹی کی تا حیات چئیر پرسن تھیں 1983سے 2007 تک پچیس سال تک محترمہ نے پارٹی الیکشن نہیں کرائے۔اور کبھی کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ محترمہ کے انتقال کے بعد پارٹی کی چئیر مین شپ ایک متنازعہ وصیت کی رو سے محترمہ کے صاحبزادے بلاول علی زرداری کو دیدی گئی اور عوام اس پر اعتراض نہ کریں کہ سینئر کارکنان کی موجودگی میں ایک نوعمر فرد کو اتنی بڑی ذمہ داری کیوں دی گئی اس کے لیے ایک بار پھر بھٹو خاندان کا نام استعمال کیا گیا اور جناب آصف علی زرداری صاحب نے اپنے صاحب زادےکا نام تبدیل کرکے بلاول بھٹو زرداری کردیا۔یہاں یہ واضح رہے کہ اصولی طور پر چئیر مین شپ پر جناب مخدوم امین فہیم صاحب کا استحقاق تھا لیکن ان کی سینیارٹی کو نظر انداز کر کے محض محترمہ کی شخصیت کی وجہ سے ان کی حق تلفی کرکے ان کو کنارے کردیا گیا۔اب فاروق نائیک صاحب بتائیں کہ ان شخصیت پرستی کے بجائے اصولوں کو ترجیح دینے کی بات کہاں تک درست ہے۔کیوں کہ پی پی پی کی چالیس سالہ تاریخ میں سوائے شخصیت پرستی کے کچھ بھی نہیں ہے۔

اے پی ایم ایس او سے لیکر مہاجر قومی موومنٹ اور مہاجر قومی موومنٹ سے لیکر متحدہ قومی موومنٹ تک، متحدہ کی تاریخ قائد تحریک الطاف حسین صاحب کے بغیر مکمل نہیں ہوتی اور متحدہ کے کسی بھی کارکن نے کبھی بھی ایم کیو ایم کا تصور قائد تحریک الطاف حسین صاحب کے بغیر نہیں کیا ہے۔ متحدہ کی تیس سالہ تاریخ میں قائد تحریک کی طلسماتی شخصیت چھائی ہوئی ہے۔اور کارکنان یہ نعرہ ہے کہ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے۔ متحدہ کے کسی بھی ذمہ دار کا کوئی بھی بیان قائد تحریک الطاف حسین کے نام کے بغیر نہیں ہوتا، شہر میں جاری کسی بھی ترقیاتی منصوبے کے افتتاح، تکمیل یا کسی مہم کے آغاز میں الطاف حسین صاحب کے نام کے بغیر کوئی بینر،پوسٹر،ہورڈنگ یا اشتہار نہیں ہوتا۔ اگر یہ شخصیت پرستی نہیں تو اور کیا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن صاحب بھی پاکستانی سیاست کی اہم شخصیت ہیں 1980میں اپنے والد محترم جناب مفتی محمود صاحب کے انتقال کے بعد آپ نے اپنی پارٹی کی قیادت سنبھالی۔اور اس وقت سے لیکر آج تک مولانا فضل الرحمٰن صاحب اپنی پارٹی جمیعت علماء اسلام کے سربراہ ہیں۔ مولانا صاحب کے یہاں بھی یہں صورتحال ہے کہ گزشتہ اٹھائیس سال سے پارٹی کے اندر الیکشن نہیں کرائے گئے ہیں۔اور اٹھائیس سال سے مولانا صاحب نے ہی پارٹی کی قیادت سنبھالی ہوئی ہے۔ ان کی پارٹی بھی ان کی شخصیت کے زیر اثر ہے اور شائد ان کے علاوہ کسی اور کو پارٹی کی قیادت کے لیے قبول نہ کرے۔اور خود مولانا نے بھی تمام پارٹی کے تمام اختیارات کو اپنی ذات تک محدود رکھا ہوا ہے اور پارٹی کے تمام فیصلے وہی کرتے ہیں۔اب ان تمام باتوں کے بعد مولانا صاحب کو ججز بحالی تحریک کو شخصیت پرستی کو نام نہیں دینا چاہیے۔یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ صرف جماعت اسلامی پاکستان کی واحد جماعت ہے جس میں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں

قارئین ہم نے کوشش کی ہے کہ عدلیہ بحالی یا ججز بحالی تحریک کے مخالفین کے اعتراض کا جائزہ لیا جائے کہ اس میں کہں تک سچائی ہے تو یہ نتیجہ سامنے آیا کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ذات کو متنازعہ بنا کر ان لوگوں کا مقصد ان کو بدنام کرنا اور اس تحریک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ ان کو پتا ہے کہ جو شخص پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں پہلی بار سرکاری ایجنسیوں کے لوگوں کا ہاتھ پکڑ سکتا ہے۔اور ایجنسیوں کے اہلکاروں کو عدالت میں طلب کرسکتا ہے،جو شخص ایک مطلق العنان آمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کی ناجائز بات کو رد کرسکتا ہے،جو ساٹھ سال میں پہلی بار امریکی احکامات کے خلاف سوموٹو ایکشن لے سکتا ہے اور جو شخص بڑی بڑی مافیا کے منہ میں ہاتھ ڈال کر قومی اثاثوں کو اونے پونے بیچنے والوں کا ہاتھ روک سکتا ہے اور جو شخص امریکی احکامات کے تحت اغواء شدہ افراد کی بازیابی کے لیے سوموٹو ایشن لے سکتا ہے وہ اگر مزید کچھ عرصے تک چیف جسٹس کے عہدے پر رہ گیا تو شائد ساٹھ سالوں کو حساب دو تین سالوں میں چکا دے گا اس لیے چیف جسٹس کی کردار کشی کی جارہی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ اس ملک میں امن و امان انصاف کا نظام رائج کردے چاہے وہ افتخار محمد چوہدری رائج کرے یا کوئی اور عوام کو سستا انصاف مہیا ہونا چاہیے۔
 
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520379 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More