آہ میانمار کے مسلمان

ہمسایہ ملک میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ترکی کے محکمہ مذہبی امور کی اطلاع کے مطابق دو ہزار نہتے مسلمان شہید کیے جا چکے ہیں اور نہ معلوم کتنے اور مسلمان شہادت نوش فرمائیں گے کیوں کہ یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔آخر جس بات کا اندیشہ تھا وہ ہو کر رہا۔ڈیڑھ دو سال قبل ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مسلم مہاجرین میانمار سے آ کر دہلی میں خیمہ زہ ہوئے تھے اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین سے درخواست کی تھی کہ انھیں مہاجر کا درجہ دے کر پوری سہولت فراہم کی جائے اور ہندوستان میں پناہ گزیں ہونے کی اجازت دلائی جائے۔افسوس صد افسوس کہ ان مہاجرین کی یہ درخواست صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اور آہستہ آہستہ ان سے متعلق خبریں اردو اخبارات میں آنابند ہو گئیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں میانمار کے ان مسلم مہاجرین کی ناکامی کے بعد بوذی قبائل کے حوصلے اور زیادہ بلند ہو گئے اور انھوں نے مسلمانوں کا قتل عام اور مسلم خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی شروع کر دی۔اس جاں سوز المیے پر ہم سایہ مسلم ملک بنگلہ دیش کا رویہ تو نہایت تشویشناک اور قابل مذمت ہے جس نے ان مہاجرین کو اپنے یہاں رہنے دینے اور ان کے قیام و طعام کا بندوبست کرنے سے قطعی طور پر انکار کر دیا اور کہا کہ ہم خود غریب ملک ہیں آپ کے اخراجات برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

واضح رہے کہ میانمار اور بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب واقع شہر اراکان میں میانمار کے بوذی قبائل کی جانب سے وہاں کی مسلم آبادی کو گزشتہ ایک ماہ سے سنگین نوعیت کی دہشت گردی کا سامنا ہے۔بوذی قبائل کے دہشت گرد مسلمانوں کی نسل کشی کررہے ہیں جبکہ وہاں کی حکومت بھی مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دینے کے بجائے انھیں اپنا شہری تک تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔میانمار میں مسلمانوں کے خلاف جاری دہشت گردی کے خلاف پورے عالم اسلام کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آرہا ہے۔مصر کی سب سے بڑی علمی درسگاہ جامعہ الازہر نے بوذی قبائل کے ہاتھوں نہتے مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف دنیا بھر میں موجود میانمارکے سفارتخانوں کے گھیراﺅ کا مطالبہ کیا ہے۔قبل ازیں اسلامی تعاون تنظیم کے سکریٹری جنرل اکمل الدین احسان اوغلو نے مسلمانوں کے قتل عام کی شدید مذمت کرتے ہوئے تشدد کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا کہ مسلم اکثریتی صوبہ اراکان میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ نہایت شرمناک اور انسانیت سوز ہے۔عالمی برادری اس کا سختی سے نوٹس لے۔

جامعہ الازہرکی علما کونسل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کا اجتماعی قتل عام جاری ہے۔گھروں اور مسجدوں کو آگ لگا کر خاکستر کیا جا رہا ہے لیکن عالمی اور اسلامی سطح پر مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔حد تو یہ ہے کہ میانمار کے بد باطن صدر تھین سین نے جلتے پر تیل ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان ہمارے شہری نہیں ہیں ۔اس لیے ان کے بچاﺅ کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ عام شہرو ں سے نکل کر مہاجربستیوں میں چلے جائیں یا ملک چھوڑ دیں۔اس بے ضمیر صدر نے اقوام متحدہ کے مندوب برائے پناہ گزین انٹو نیو گیریز سے ملاقات کے دوران کہا کہ روہنگیا شہر میں موجود مسلمان ہمارے شہری نہیں ہیں اور نہ ہی ہم ان کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔اگر انھیں حملوں کا سامنا ہے تو وہ ملک چھوڑ دیں۔ ہم انھیں اپنا شہری نہیں مانتے۔ظالمانہ اور مفسدانہ بیان کے نتیجے میں 90 ہزار مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر مجبورکیا جا رہا ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

میانمار کا پرانا نام برما ہے اور راجدھانی ینگون ہے جو پہلے رنگون کہلاتا تھاجہاں آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر مدفون ہیں جو جنگ آزادی ہند کے ہیرو اور سر خیل تھے۔ہندوستان کے قومی لیڈران جب بھی میانمار جاتے ہیں ان کے مزار پر چادر چڑھاتے اور گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں۔آج بہادر شاہ ظفرکی روح مسلم شہیدوں کی لاشوں کی بے حرمتی پر تڑپ رہی ہوگی۔یہ وہی میانمار ہے جہاں کی جمہوریت پسند لیڈر آن سان سوکی فوجی حکومت کے دوران قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتی رہیں۔ اس کے صدر کا رویہ اور روش تاناشاہی سے کم نہیں ہے۔ وہ مظلوم مسلمانوں کے قاتلوں کاحامی اور ان کا پشت پناہ ہے۔وہ بڑی بے شرمی،ڈھٹائی اور بے غیرتی کے ساتھ مسلمانوں کو ہی ملک سے نکالنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔افسوس اس کے خلاف سیاسی یا سفارتی دباﺅ بنانے کے لیے کوئی تیار نظر نہیں آرہا ہے۔عالمی برادری خاموشی کے ساتھ صرف تماشا دیکھ رہی ہے۔مسلم کش حملوں کے خلاف حکومت ہند نے بھی اب تک کوئی لب کشائی نہیں کی ہے جبکہ قریبی پڑوسی ہونے کے ناطے یہ اس کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ حکومت میانمار کے اس ظالمانہ رویے کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی اور اسے اس کی مکروہ حرکتوں سے باز رکھنے کے لیے سخت وارننگ دیتی لیکن سفاکی کی حد تک سرد سناٹا طاری ہے۔ہندوستان کی مسلم تنظیمیںاور جماعتیں بھی اپنا احتجاج درج کرانے میں نا کام رہی ہیں۔کیا یہ مسلم تنطیموں کی ذمے داری نہیں ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے دفتر ،جنتر منتر اور میانمار کے سفارت خانے یا ہائی کمیشن میں جا کر اپنا احتجاج درج کرائیں۔ہندوستان کے وزیر اعظم خود اقلیتی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔انھیں خود پہل کرتے ہوئے میانمار کے حکمراں ٹولے کو اس کی جانب داری پر ٹوکنا چاہئے۔یہ وہی اقلیتی طبقے کے وزیر اعظم ہیں جو سکھوں کے معمولی سے معمولی مسئلے پر بھی دنیا کے ہر ملک کے سربراہ سے بات کرنے کو پہلی فرصت میں تیار ہو جاتے ہیں لیکن افسوس کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے مسائل پر ان کا دھیان نہیں جاتا۔اس کی وجہ خود یہاں کے مسلمان ہیں جو اپنی بے حسی اور مفاد پرستی کی وجہ سے عیش میں گم ہیں اور قوم و ملت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔اپنے ذاتی مفاد کی خاطر یہ مسلم تنظیمیں جتنی بیتاب رہتی ہیں مسلم مسائل پر کچھ بھی کرنے میں پیچھے کیوں ہیں،یہ ایک سوال ہے جس کا جواب ہندوستان کے مسلمانوں کو ملنا چاہئے۔

واضح رہے کہ برطانوی حکومت نے میانمار(برما) کو ہندوستان کا ایک صوبہ بنایا تھا تو وہاں بڑی تعداد میں ہندوستان سے اہلکاران وہاں کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے بھیجے گئے تھے ۔ ان اہلکاروں میں ایک بڑی تعداد مسلم اہلکاروں کی بھی تھی جنھوں نے میانمار کو اپنے خونِ جگر سے سینچا اور اسے برطانوی ہند کے دیگر صوبوں کے ہم پلہ بنا دیا۔میانمار میں اردو کی تعلیم و تدریس کا باضابطہ انتظام کیا گیا۔اردو صحافت شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سے ماہنامے اور روزنامے شائع ہونے لگے۔برماکی آزادی کے بعد بھی یہ سلسلہ چلتارہا لیکن اس ملک میں فوجی انقلاب کے بعد حالات دگر گوں ہو گئے اور اردو گو طبقہ وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گیا۔دینی مدارس بند ہو گئے،اردو روزناموں کی اشاعت بھی بند ہو گئی۔اب زیادہ تر مسلمان میانمار کے صوبہ اراکان میں آباد ہیں جن پر آج کل قیامت صضریٰ ٹوٹ پڑی ہے اور وہ نان ِشبینہ کے محتاج ہو گئے ہیں۔جس وقت میانمار میں فوجی انقلاب آیا وہاں کے متعدد طلبہ دارالعلوم دیوبنداور ہندوستان کے دیگر مدارس میں زیر تعلیم تھے۔ان طلبہ کو اپنے وطن واپس جانا نصیب نہیں ہوااور وہ یہیں مدارس میں درس و تدریس کے مشغلے سے وابستہ ہو گئے۔حکومت ہند نے بھی ان کی واپسی کے لیے ایسی دلچسپی نہیں دکھائی جیسی کہ بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے وقت بھاگ کر ہندوستان آنے والوں کی وطن واپسی کے لئے دکھائی تھی۔ظاہر ہے اس وقت ہندوستان کے سیاست دانوں کے اپنے ذاتی مفاد تھے۔کیا برما کے مہاجرین کے لیے یہاں کی حکومت کچھ نہیں کر سکتی تھی؟کیا ان کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے جو مہاجرین کی مدد کے لئے بنائے گئے ہیں ان پر زور نہیں ڈال سکتی تھی؟یقینا ڈال سکتی تھی لیکن کیوں ڈالے ،یہ معاملہ مسلمانوں کا ہے اور ہندوستان کی حکومت کو مسلمانوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یہ تو مسلمانوں کو شیروانی کی طرح استعمال کرتی ہے کہ الیکشن آئے اور شیروانی پہن کر اپنا مفاد پورا کر لیا گیا اور مطلب نکلنے اور جیت حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کی طرف سے آنکھیں موندلی گئیں۔

ہندوستان میں مسلم تنظیمیں اس قدر خاموش کیوں ہیں اس کا جواب بھی ہندوستان کے مسلمانوں کو ملنا چاہئے۔ذرا سی بات پر کروڑوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں جبکہ ملت کے مفاد کے معاملے میں یہ تنظیمیں چپ ہیں۔اپنے اقتدار اور مفاد کے لیے یہ تنظیمیں قوم کا کروڑوں روپیہ برباد کرتی ہیں اور افسوس ان روپیوں کا کوئی حساب نہیں دیا جاتا کہ کہاں اور کس مد میں یہ روپیہ خرچ ہوا۔صرف اور صرف یہ تنظیمیں اپنے خاندان اور ذاتی مفاد کے لئے مذہب اور سیاست کا استعمال کرتی ہیں جس کا جواب عوام کو ملنا چاہئے۔

برما کے مسلمانوں کی کل آبادی ۲۲ لاکھ ہے جن میں سے ۷ لاکھ افراد ہندوستان پاکستان بنگلہ دیش اور ملیشیا میں خانہ بدوشی کی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔۲ لاکھ مہاجرین بنگلہ دیش میں جائے پناہ کی تلاش میں ہیں جبکہ ایک سے دو لاکھ افراد پاکستان اور ملیشیا میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ہندوستان میں بھی چند ہزار خاندان خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔برما کے جو لٹے پٹے مسلمان چند برسوں سے ہندستان کے مختلف شہروں میں بھٹک رہے تھے وہ پچھلے چند مہینوں سے راجدھانی دہلی میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔یہ لوگ اقوام متحدہ کے کمشنر برائے پناہ گزین کے دفتر کے باہر ہفتوں کھلے آسمان کے نیچے پڑے رہے لیکن ان کی پناہ گزینی کا مسئلہ حل نہ ہو سکا ۔جس پوش علاقے میں یہ دفتر واقع ہے وہاں کے مقامی لوگوں نے پولس پر اتنا دباﺅ ڈالا کہ اس نے آخر کار معصوم بچوں،عمر رسیدہ بیماروں اور عورتوں پر مشتمل اس کارواں کو بے رحمی کے ساتھ مارپیٹ کر بھگا دیا۔حالانکہ کئی مسلم جماعتوں نے ان کے کھانے پینے کا انتظام کیا تھا لیکن آخر کب تک؟پناہ گزینوں کا اگر ایسا ہی قافلہ غیر مسلموں کا ہوتا تو کیا حکومت ہند اور اقوام متحدہ کا ادارہ برائے پناہ گزین ان کے لیے کچھ نہیں کرتا؟کیا تبّت کے بودھ پناہ گزین عرصہ دراز سے دلائی لامہ کے ساتھ جموں کے کٹرہ شہر اور دہلی میں پناہ گزیں نہیں ہیں؟افغانستان اوردیگر اسلامی ملکوں کے مہاجرین آخر دہلی کے بھوگل اور جنگ پورہ میں رہتے تھے یا نہیں؟لیکن برما کے جو پناہ گزین دہلی کے کالندی کنج اور سریتا وہار میں رہ رہے ہیں وہاں ان کی حالت انتہائی قابل رحم ہے۔ان کے پاس نہ تو کھانے کے لیے کچھ ہے اور نہ سر چھپانے کے لیے کوئی چھت۔وہ سڑک کے کنارے بے یار و مددگار عالمی ضمیر پر دستک دے رہے ہیں لیکن ان کے شیر خوار بچو ں کو نہ کوئی دوا دینے والا ہے اور نہ دودھ۔ہندوستان کی مسلم تنظیمیں ملک کے وزیر اعظم منموہن سنگھ ،وزیر خارجہ ایس۔ایم۔کرشنا وغیرہ کو مکتوب بھیج رہی ہیںوہیں ہندوستان میں پناہ گیزین مسلمانوں کی قابل رحم حالت پر بھی توجہ مبذول کرائی ہے لیکن حکومت ہند کا جمود نہیں ٹوٹ رہا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ گویااس میں انسانی جذبہ ترحم مفقود ہو گیا ہے۔

گزشتہ 20 برسوں سے عالمی پیمانے پر مسلمانوں پر مختلف ملکوں میں عرصہ حیات تنگ کیا جاتا رہا ہے۔بوسنیا ،ہرزی گووینیامیں بے دریغ مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی اور سروں کی فصل سے کھیت اور کھلیان پاٹ دیے گئے۔چیچنیا میں امام شاملؒ کے پیروکاروں کی زندگی دوبھر ہو چکی ہے۔مسلم بستیوں کو ولادمر پوتن کی فوجوں نے گولوں اور بارودوں سے تاراج کر دیا ہے۔ یہ وہی چیچنیا ہے جہاں کوہ ِقاف ہے جس کی پریوں کی کہانیاں نانیاں اور دادیاں سنایا کرتی ہیں۔ادھر کمیونسٹ چین میں بھی مسلمان سکون سے نہیں ہیں۔انھیں بھی حکومتی اور دہشت گردوں کی بے پناہ مزاحمتوں کا سامنا ہے۔کرفیو لگا کر ان کی آباد بستیوں کو ویرانابنایا جا رہا ہے۔میانمار میں بھی چین غیر انسانی رول ادا کر رہا ہے۔وہ جہاں ایک طرف ظالم فوجی حکمرانوں کی پشت پناہی کر رہا ہے وہیں اس کے قدرتی وسائل ہتھیانے میں لگا ہواہے۔میانمار کی ایک مشہور ویب سائٹ میں کہا گیا ہے کہ آج میانمار میں وہ مظالم ڈھائے جا رہے ہیں جو کسی زمانے میں ہٹلر نے ڈھائے تھے لیکن چین ان ظالمانہ کارروائیوں میں اس کو سیاسی اور اخلاقی مدد کررہاہے اور جب پوری دنیا نے میانمار کے فوجی جنٹا پر جمہوری اصطلاحات نافذ کرنے اور انسانی حقوق بحال کرنے کے لیے دباﺅ ڈالا تو چین پوری دنیا کے سامنے

ایک آہنی دیوار کی طرح کھڑا ہو گیا اور اس کو یہ باور کرایا کہ ان حالات میں میانمار کی فوجوں کو ڈر نے کی ضرورت نہیں اور چین ان کے ساتھ ہے۔
ہم لوگوں کو ستانے کا معیار ایک ہے
چہرے الگ الگ سہی کردار ایک ہے

دنیا بھر سے روہنگیا مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام اور ان کی لاشوں کو اجتماعی طور ر نذر آتش کیے جانے کی حرکتوں کے ساتھ ساتھ میانمار کی فوجی حکومت کی وحشیانہ کارروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور پولس اور فوج کی بربریت کے واقعات سامنے آنے لگے ہیں۔برما کی فوج نے حالیہ واردات میں ہیلی کاپٹروں سے ان روہنگیا مسلمانوں پر فائرنگ کی جو اپنی جانیں بچا کر سمندر کے راستے سے بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے اور افسوس کہ پوری دنیا جو انسانی ہمددردی کا جھوٹا راگ گاتی پھرتی ہے یہ منظر دیکھ رہی ہے۔

ریڈیو فری یوروپ کے مطابق برطانوی انسانی حقوق ٹرسٹ نے کہا ہے کہ موجودہ صورت حال کوئی فرقہ وارانہ تصادم نہیں ہے بلکہ مقامی رکھنی بودھوں کو حکومت کی طرف سے فوجی اور قانونی مدد دی جا رہی ہے اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔جمہوریت نواز میانمار گروپ جو مغرب میں جمہوریت پسندی کا ڈھنڈورا پیٹ کر مراعات حاصل کر رہا ہے اس نسل کشی میں برابر کا شریک ہے۔حد تو یہ ہے کہ جمہوریت پسند لیڈر آن سان سوکی جنھیں مسلمانوں نے ہمیشہ ووٹ دیا ہے وہ بھی مسلمانوں کی ہمدرد نہیں ہیں بلکہ وہ یہ غیر ذمے دارانہ بیان دے رہی ہیں کہ انھیں یہ معلوم نہیں کہ روہنگیا مسلمان میانمار کے شہری ہیں یا نہیں جبکہ 1978ءمیں انھیں مسلمانوں نے ہی اقتدار کے قریب کیا تھا جس کی سزا وہ بھگت رہے ہیں۔

یہ بات صرف چین اور میانمار تک ہی محدود نہیں ہے ۔امریکہ جو ہر معاملے میں ٹانگ اڑانا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے اس خالص انسانی مسئلے پر خاموش ہے کیوں کہ وہ تو مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے ۔وہ چاہتا ہے کہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سمیت پوری دنیا سے مسلمانوں کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے۔ظاہر ہے وہ کیوں میانمار کے دہشت گردوں کی کلائیاں مروڑے گا؟یہی نہیں عالم اسلام کے بیشتر ممالک کے حکمراں بھی خاموش ہیں۔مسلم عوام تو میانمار کے مسلمانوں کے درد کو دل میں محسوس کرتے ہیں لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔حد تو یہ ہے کہ ہندوستان،پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں نے بھی ان مظلوموں کے آنسو پونچھنے کی سعی مشکور نہیں کی۔جمیعت العلمائے ہند،جماعت اسلامی ہند،مسلم پرسنل لا بورڈ،حقوق انسانی کے نام پر قائم ادارے جو مسلمانوں کے بیشتر مسائل پر تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں،اس معاملے پر مہر بہ لب ہیں۔مسلمانوں کی فلاح کے نام پر اربوں روپے خردبرد کرنے والے لوگ بھی اپنے کانوں میں روئی ڈالے سو رہے ہیں۔

ملک کے بیشتر مسلمانوں اور درد مند انسانوں کی ذاتی کوششوں کے نتیجے میں کچھ سماجی اور سیاسی تنظیموں کی طرف سے میانمار سفارت خانے پر اک مظاہر ہ کیا گیا اور برما کے سفیر کو ایک میمورینڈم بھی دیا گیاجو بہت دیر سے کیا گیا فیصلہ ہے۔پہلے دن سے ہی اس سلسلے میں ہندوستان کے مسلمانوں کو احتجاج کرنا چاہئے تھا ۔یاد رہے اگر اس احتجاج میں شدت نہیں آئی اور متحد ہو کر دباﺅ نہیں بنایا گیا تو نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ بغیر سیاسی چپقلش کے اس سلسلے میں ٹھوس اقدام کئے جائیں اور حکومت ہند اور تمام سیاسی جماعتوں پر زور ڈالا جائے کہ وہ اس معاملے میں سامنے آئیں اور وزیر اعظم،وزیر داخلہ اور اقوام متحدہ کے ادارے کو میمورینڈم دے کر کچھ حل نکالنے کی کوشش کی جائے جس سے مظلوم مسلمانوں کی کچھ مدد ہو سکے اور دنیا میں ان کی ہمدردی لیے کچھ ماحول بن سکے۔
یہ پستیاں بھی حقارت سے دیکھتی ہیں ہمیں
نہ جانے کیسی بلندی سے ہم اتر آئے
Dr Majid Deobandi
About the Author: Dr Majid Deobandi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.