انفرادیت اور بے حسی ۔۔ موجب تباہی

لاہور کے ایک نجی ٹی وی چینل میں اچانک شارٹ سرکٹ ہونے کی وجہ سے آگ لگ گئی اور تقریباً 5افراد ہلاک اور 10سے زائد افراد شدید زخمی ہوگئے ۔یہ شارٹ سرکٹ اس وقت ہوا کہ جب دسویں رمضان المبارک کی بابرکت رات اس ٹی وی چینل کے سٹوڈیو میں محفل نعت جاری تھی۔لوڈشیڈنگ کی وجہ سے سٹوڈیو کو جنریٹر سے منور کیا گیا تھا مگرجےسے ہی بجلی آئی شارٹ سرکٹ کی وجہ سے پلک جھپکتے ہی اموات وقوع پذیر ہو گئیں جب کہ بھگدڑ کی وجہ سے بے شمار افراد شدیدزخمی ہو گئے ۔مزید اطلاعات یہ حاصل ہوئیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس چینل کا دورہ کرکے افسوس کا اظہار کیا جبکہ ان ہلاکتوں کی وجہ سے ٹی وی چینل کے مالک کو گرفتا ر کر لیا گیا ۔

پاکستان کے تمام وزرائے اعلیٰ میں وزیر اعلیٰ پنجاب ہی سب سے زیادہ ایکٹو دکھائی دیتے ہیں اور جائے حادثات میں نہ صرف جلدی پہنچتے ہیں بلکہ متاثرین کی داد رسی کرنےکے ساتھ ساتھ کیس جلد از جلد نپٹانے کا حکم بھی صادر کرتے ہیں ۔اس واقعہ پر وزیر اعلیٰ کا صرف افسوس کرنا ان کی بے بسی کی دلیل ہے خیر وزیر اعلیٰ سے کیا گلہ کرنا یہ صاحب تو ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر آوے کا آوا ہی بگڑا ہو اہے مگر حیرت اس بات پر ہے کہ ٹی وی چینل کے مالک کو کس جرم میں گرفتا ر کیا گیا ؟24گھنٹو ں میں 18گھنٹے بجلی نہیں ہوگی تو کیا یہ قصور ٹی وی چینل کے مالک کا ہے؟کیا اس لئے گرفتار کیا گیا کہ ٹی وی چینل کا مالک انتظامات نہ کر سکا؟انتظامات تو باقاعدہ چیزوں کےلئے کیے جاتے ہیں بے قاعدہ اشیا ءکےلئے انتظامات کرنا کہاں سے عقلی دلیل ہے ؟ بجلی جانے اور آنے کا نہ کوئی وقت ہو اور نہ کوئی ٹائم ٹیبل سب کا سب بے قاعدہ ہو تو ان حالات میں ٹی وی چینل کا مالک کیا انتظامات کرے ؟اسکا جواب ملنا تھوڑا سا مشکل ضرور ہے مگر شائد لوڈشیڈنگ کے والی وارثین اس کا جواب دے سکیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اپنی کمزوری اور اپنی بے حسی کو چھپانے کےلئے ان جانی و مالی نقصانات کا قصور وار ٹی وی چینل کو مالک کو ٹھہرا کر اصل قصور واروں کو سرنگوں کر دیا گیا ہے ۔

جب تک اصل قصور واروں کو ان کے قصوروں کے مطابق سزا نہیں دی جائے گی یہ جانی و مالی نقصانا ت ایسے ہی رہے گے ۔رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں شدید ترین لوڈشیڈنگ پر ان ” قصور واروں “ نے جو سیاست چمکائی اور جو چکمے عوام کو دئے وہ ذرا ملاحظہ کریں :بر سراقتدار پارٹی کے ایک عوامی رہنما نے عوام کو دلاسہ دیا کہ یہ 18,18گھنٹے کی لوڈشیڈنگ دو یا تین دن میں ختم ہو جائے گی اوراس قبیح لوڈشیڈنگ کی وجہ مظفر گڑھ میں طوفان کی وجہ سے 17پول کا گرنا ہے جسکی وجہ سے مین لائین میں خرابی ہوئی جبکہ انہوں نے ہی دعویٰ کیا کہ گڈو پاور ہاﺅس میں خرابی کو دور کیا جارہا ہے اور چند دن میں پیداوار 14000میگا واٹ ہو جائے گی ۔ملک کے ایک ” بڑے خادم “ کے مطابق پنجاب کی 700میگاواٹ بجلی باہر بھیجی جارہی ہے اور پنجاب میں یہ سب کچھ انتقامی سوچ کا شاخسانہ ہے ۔مشرف دور سے کچھ زیادہ ہی منظر عام پر آنے والے ایک اور جمہوری راہنما کے مطابق پنجاب میں شدید ترین لوڈشیڈنگ کی وجہ وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں ۔جبکہ پاکستان کے سب سے” بڑے “نے کہا کہ عوام لوڈشیڈنگ سے پریشان ہیں یہ پریشانی جلد ہی دور ہو جائے گی ۔غرض ملک کے تمام ” بڑے “ اس شدید ترین لوڈشیڈنگ کا قصور وار اپنے آپ کو ٹھہرانے کے بجائے دوسروں کو ٹھہرا رہے ہیں یا پھر حیلوں ، بہانوں اور جھوٹی کہانیوں و جھوٹے دلائل سے عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں جس سے انکی عوام دوستی اور حب الوطنی کا خوب اندازہ ہو رہا ہے ۔

لوڈشیڈنگ کے قبیح اثرات پچھلے چار سال سے اس دھرتی اور اس دھرتی کے باسیوں کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں لوگوں کے کاروبار تباہ ہوچکے ہیں ، مالی نقصانات کا کچھ اندازہ نہیں ، معیار زندگی دن بدن بد تر سے بدترین ہوتا جارہا ہے جبکہ جانی نقصانات کا تو ازالہ ہے ہی نہیں ،لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہسپتالوں میں مریض دوران ایمرجنسی ٹریٹمنٹ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے کسی کی ماں فوت ہوگئی تو کسی کا والد کسی کی اولاد اذیت ناک موت کا شکار ہوئی تو کسی کا کوئی چاہنے والا ، جنریٹر اور شارٹ سرکٹ سے خاندان کے خاندان اجڑ گئے مگر حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی ۔عوام نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تو سیاست چمکانے کے لئے سیاسی رہنماﺅں نے ان احتجاجوں میں شرکت کر دی اور جن احتجاجی مظاہروں میں کوئی سیاستدان شرکت نہ کر سکا وہاں فائرنگ سے متاثرین ہی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ان حالات سے جو بچ گئے وہ لوڈشیڈنگ کے عذاب سے مستفید ہورہے ہیں ۔ان ساڑھے چار سال کے دورانیہ میں جمہوری حکومت نہ جمہور کے دکھوں کا مداو اکر سکی اور نہ جمہور کے دردوں کی دوا کرسکی جبکہ ساڑھے چار سالوں میں حکومت کی بے بسی کا نشانہ بننے والی عوام کو ابھی تک قربانیوں کا پھل نہ مل سکا۔

لوڈشیڈنگ کے اس قبیح عذاب کی وجہ سے ہلاکتوں کا وقوع پذیر ہونا تو اب ایک عام سی بات ہے اور اس عام سے بات نے بے شمار خاص باتوں کو بھی عام کر دیا ہے جےسے کہ اغواء، ڈاکہ زنی ، عصمت دری ، چوری چکاری ، رشوت ، کرپشن ، سودوغیرہ جیسی قباحتیں اب معاشرے میں عام سی باتیں بن گئی ہیں اور ان عام سی باتوں کی وجہ سے معاشرتی بے حسی پھیلتی جارہی ہے اور جب معاشرہ بے حس ہو جائے تو پھر قوم و ملت کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو پا ش پاش ہو جاتی ہے ۔ اسی لوشیڈنگ نے جنریٹر ، یو پی ایس اور سولر سسٹم جےسے انفرادی فوائد کو متعارف کر وا کر معاشرے میں انفرادیت کو جنم دیا جس نے آگے بڑھ کر معاشرتی بے حسی کی وہ مثال قائم کردی ہے کہ اب کسی کا قتل ہونا بھی ایک عام سی بات بن چکی ہے یہی انفرادیت کی آگ آہستہ آہستہ اس قوم کو نگل رہی ہے مگر نہ حکمرانوں کو اس کی فکر اور نہ غیور عوام کو اس کا ادراک۔لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہونے والے مالی و جانی نقصانات اب کسی کےلئے بھی ایشوز نہیں رہے حکومت نے ہر جمہوری نفع و نقصان میں ایسی بے حسی کامظاہر ہ کیا ہے کہ عوام لاچار ہو چکی ہے اور جمہوری حکومت سے بالکل ہی ناامید ہو چکی ہے ۔میڈیا جمہوری نقصانات کی خبریں واضح کر کے اب تھک چکا ہے کیونکہ میڈیا بھی حکومت کی بے حسی کے آگے بے بس ہو چکا ہے جس کا اثر میڈیا پر یہ ہوا کہ اب میڈیا ان خبروں کو مناسب جگہ اور مناسب وقت نہیں دے پاتا میڈیا کی اس خاموشی نے بھی معاشرے میں انفرادیت اور بے حسی کو بڑھایا ہے کیونکہ جو خبر میڈیا میں غیر اہم ہو چکی ہے وہ عوام میں کیسے اہم ہو سکتی ہے؟؟یہی وہ وجہ ہے کہ جو معاشرتی بے حسی کا موجب ہے یہ بے حسی عوام سے منتقل ہوکر حکمرانوں تک جا چکی ہے اور پھر حکمران وہی کچھ کر رہے ہیں جو ہم انہیں منتقل کر رہے ہیں ۔

کسی جانی و مالی نقصان کی خبر پر عوام کچھ لمحات کےلئے تو رنجیدہ ہوتے ہیں مگر پھر اپنے اپنے دھندوں میں سبھی مصروف ہو جاتے ہیں کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ کل اس کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے مورد الزام حکمرانوں کو ٹھہرا کر خاموشی تان لیتے ہیں جبکہ حکمران ایسے نقصان پر عملی اقدامات یا اپنے آ پ کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے دوسروں پر انگلی اٹھاتے ہیں یہ انگلی الزامات کی صورت میں اٹھتی ہے اور پھر نئے ایشو کے ساتھ یہ انگلی اپنی سمت بدل لیتی ہے۔ حکمرانوں کی طرف سے یہ بے حسی ان الزامات کا دفاع کرنے سے شروع ہوتی ہے جو ان کے زیر تسلط عوام ان پر لگاتے ہیں یہ الزامات تب لگائے جاتے ہیں کہ جب عوام کسی جان و مالی نقصان کا سامنا کرتے ہیں ۔یہ حکمران اپنی کمزوری کو چھپانے کےلئے اور ان الزامات کا جواب دینے کےلئے جھوٹے دلائل دیتے ہیں جھوٹی کہانیاں بیان کرتے ہیں اردگرد سے مثالیں جمع کر کے عوام میں پھیلا دیتے ہیں یا پھر انہی عوام میں سے کچھ افراد کو مسیحا بنا کر دکھی عوام کے درد کی دوا بنا دیتے ہیں ۔حکمرانوں کی اس” محنت “کا ثمر یہ ملتا ہے کہ عوام دکھ سینے میں رکھ کر خاموشی اختیار کرلیتی ہے کیونکہ یہ مفاد پرست حکمران انہی عوام کو مستقبل کے سہانے خواب دکھلا کر خواب غفلت عنائت کرتے ہیں ۔حکمرانوں کی یہ بے حسی و چالاکی ریاستی اداروں تک سرایت کر جاتی ہے اور یہ ادارے انہی چالاکیوں سے عام افراد کے ساتھ پیش آتے ہیں جس کے نتیجے میں عام آدمی کے لئے ریاستی تمام دروازے بند ہو جاتے ہیں تب ہر شہر ی اپنا فائدہ چاہتا ہے اپنا بچاﺅ چاہتا ہے اور اپنا مستقبل مضبوط کرنے کے چکر میں وہی حربے استعمال کر تا ہے کہ جو کل حکومت اور اداروں نے اس کے ساتھ استعمال کئے یہاں سے پھر انفرادیت عوام میں سرایت ہونا شروع ہو جاتی ہے اور معاشرہ اتنا بگڑ جاتا ہے کہ گناہ بھی گناہ نہیں لگتا دل داغ دار ہو جاتے ہیں اور پھر قہار ذات کاعذاب کبھی اندھی بن کر امڈ آتا ہے تو کبھی سیلاب و طوفان بن کر ، کبھی زلزلہ تو کبھی طاعون بن کر اور پھر ایسی انفرادیت پسند اور بے حس اقوام کے نام و نشان مٹ جاتے ہیں اور ان کے احوال تاریخ کی کتابوں میں حاشیہ کی صورت میں میسر آتے ہیں ۔
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86098 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.