اسلام اور ملک کے مسائل

ہر چیز کے لیے ہر کام کے لیے کُچھ پیمانے مقرر ہوتے ہیں۔اگر پیمانے ٹھیک ہوں تو مقدار ٹھیک ہوسکتی ہے ۔اور اگر ایسے ہی معیار بھی متعین کر لیا جائے تو معیار اور مقدار دونوں متوازن ہوسکتے ہیں۔مگر جب پیمانے ہی غلط متعین کر لیے جائیں تو اس سے معیار اور مقدار میں کافی حد تک کمی ہونے کی واضح گنجائش موجود ہوتی ہے۔ہم نے پیار کا پیمانہ ماں کے نام رکھ دیا ہے ۔کبھی ہم نے سوچا ہے کہ کیا وہ واقعی اس میں مکمل ہے میرے خیال میں کئی جگہ پر ایسا نہیں ۔اس کا پیار بیٹے کی طرف ذیادہ اور بیٹی کی طرف کم ہے ۔اسے پیار تو نہیں کہا جا سکتا کہ ایک ہی کوک سے جنم لینے والی دو مخلوقات کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جائے۔چاند کو ہم نے خوبصورتی کا پیمانہ بنا رکھا ہے۔معذرت کے ساتھ ہمارے تمام تر شعراءاس کو خوبصورتی کی مثال کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔مگر ایسا وہ کم از کم انسان کے لیے تو نہ کرتے وہ فرحت عباس شاہ ساحب نے درست ہی فرمایا تھا
کرنا ہی تھا یہ کام تو انسان نہ کرتے۔

انسان کو اللہ کی بابرکت ذات نے احسن التقویم کا درجہ دے دیا اور ہم اس سے بھی رضامند نہ ہیں ۔یہ تو ایک مثال ہے جہاں بھی جائیں جیسے بھی دیکھیں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔معیار اور مقدار کی بات کریں تو اس میں ایسا بھی کہا جا سکتا ہے کہ سیاستدان اور پٹرول ایک ہی طرح سے ہیں ۔دونوں کا معیار ہر مقام موجودگی پر مختلف ہوتا ہے۔مقدار کا بھی یہی حال ہے۔اور پھر ان کی قیمتیں بھی ایک ہی طرح سے تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔اس کے ذمہ دار بھی ہم خود ہی ہیں۔یہاں جس کا جو دل چاہے وہ کر رہا ہے۔اب معالج جدید دور میں ڈاکٹر کو ہی مانا جاتا ہے ۔مگر کبھی اگر ایسا ہو تو کیا کہا جائے کہ ہم ڈاکٹر کے پاس جائیں اور ان کے دفتر سے پتہ چلے کہ و ہ اپنے علاج کے سلسلے میں ایک حکیم صاحب کے پاس گئے ہیں ۔اس سے ملتی جلتی ایک مثال یہ بھی ہے یہاں لوگ انصاف کے حصول کی غرض سے چیف جسٹس صاحب کا رُخ کرتے ہیں ۔مگر اب کی بار بھی ان کا مختص کردہ پیمانہ درست کم از کم مجھے تو نہیں لگتا۔لوگ حکومت اور کئی دوسرے بااثر افراد کو ان کے سہارے انصاف کے کٹہرے میں لانے کے خواب دیکھتے ہیں۔مگر جب وہ ان کی دہلیز پر دستک دیتے ہیں تو ان کے ہوش یہ سن کر ٹھکانے آجاتے ہیں کہ ان کی اپنی کوئی نہیں سنتا اور وہ اپنے حکم منوانے کے لیے دوسروں کا سہارا لے رہے ہیں۔اور ارد گرد سے امداد کے منتظر ہیں۔یہ ایک تلخ مگر واضح حقیقت ہے کہ ہمارا ملک اس وقت ایسے ہی حلات سے گزر رہا ہے۔کسی کے پاس بھی کوئی اختیار نہیں۔شائد اس کی ایک وجہ ہے اور وہ جو سرائیکی بزرگ کہا کرتے تھے کہ ہم نے دودھ کے پہرے پر بلے بٹھا رکھے ہیں۔اور خود چپ چاپ گھوڑے گدھے بیچ کر سو گئے ہیں ۔حالانکہ اس کی قیمت بھی ہم سے چھین لی جائےگی۔اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں آنکھیں کھولنی ہوں گی۔قبلہ کا تعین کرنا ہوگا۔اور اپنی سمت کے ساتھ ساتھ اپنا رہنما بھی درست منتخب کریں۔پھر سب سے بہتر یہ ہوگا کہ ہم اس بات کا فیسلہ کر لیں کہ ہم نے اسلام اور خدا کے بنائے ہوئے اصولوں کی پیروی کرنی ہے یا مٹی کے تراشے ہوئے بتوں کو اپنا سب کچھ مان کر اپنی زبان پر تالے لگا لینے ہیں۔اگر اسلام پر عملدرآمد کرنا ہے تو سب سے پہلے خدا کی حاکمیت کو قول کے ساتھ ساتھ عمل سے بھی ماننا ہوگا اور اگر اس کے علاوہ کوئی راستہ اختیار کرنا ہے تو اس کے مطابق فیصلہ لیا جائے۔ویسے اسلام کے برابری کے قانو ن کی بات کروں تو محض اتنا کہوں گا کہ وہ صاحب کہاں گئے جو کہتے تھےڈگری تو ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا نقلی اے کاش وہ آج بھی بولتے کہ توہین تو توہین ہوتی ہے وہ عام آدمی کرے یا پھر کوئی وزیر یا مشیر اگر یہ سب اس بات پر بھی متفق ہوجائیں کہ ہم نے اسلام کے بنیادی اصولاں کی پیروی کرنے ہے تو میرے نزدیک وہ ضابطہ حیات ایک مکمل ضابطہ ہے اور اس میں زندگی کے ہر شعبے کی رہنمائی موجود ہے۔مگر اس سے نقصان ہوگا ان کا جو اسلام کے نام پر سیاست کرتے ہیں ۔اسلام کے نام پر مقام بناتے ہیں۔ان کی دوکانداری متاثر ہوگی۔بات پھر وہیں آجاتی ہے جہاں سے چلی تھی کہ اگر پیمانے ٹھیک ہوجائیں تو سارے معاملات حل ہو جائیں۔مگر اب پیمانے شرافت یا سکوں سے کبھی ٹھیک نہ ہو پائیں گے اس کے لیے حق کے علمبرداروں کو پھر کربلا کا میدان لگانا ہوگا۔دورحاضر کے یزیدوں کے خلاف اعلان جنگ کرنا ہوگا۔اور اسلام کی سربلندی اور نفاذ کے لیے حقیقی معنوں میں کام کرنا ہوگا۔دعا ہے کہ اللہ کی پاک ذات قبلہ اور پیمانہ درست کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 54 Articles with 47703 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More