پاکستانی سیاست طاقت ور منصب کے دیوانے معذول بے چارے لوگ

ہمارے ملک میں دستور یہ ہے کہ طاقت کے منصب پر فائز لوگ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں اور جب ان سے وہ طاقت ور منصب کوئی اور طاقت ور چھین لیتا ہے تو سب کو بے چارے بھولے بھالے سیدھے سادھے سولہ کروڑ عوام یاد آجاتے ہیں۔ اب افتخار چودھری کو ہی دیکھ لیجیے ایک وقت تھا کہ ان معزول چیف جسٹس نے پرویز مشرف کی طاقت کے آگے سر تسلیم خم کیا اور لعنتی پی سی او کے تحت حلف اٹھایا اور جب اپنے سے زیادہ طاقت ور نے آنکھیں دکھائیں تو دوسروں کا سہارا لیا اور اپنے نا اہل بیٹے اور اپنے خلاف دوسرے ریفرنسز کا سامنا کرنے کے بجائے اپنے پیٹی بند بھائیوں (ججز اور وکلا) کا سہارا لیا اب ججز کے احترام میں تو کوئی بات کرنی مناسب نہیں لیکن ہمارے وکلا کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے ایک بڑا مشہور محاورہ ہے کہ پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا کہ لو جی میں بھی صاحب اولاد ہو گیا۔

ویسے آپس کی بات ہے وکلا تحریک میں جان پہلے تھی اب تو جان نکلتی جارہے ہے۔ کسی سیاسی پارٹی نے اگر اپنے کسی دیرینہ ساتھی اور وفادار کارکن کی رکنیت اگر ختم کر بھی دی ہے تو اس سے کسی کے پیٹ میں تو درد نہیں ہونا چاہیے۔ وکلا اور بار کونسلز بھی تو اپنے دیرینہ ساتھیوں کی رکنیت ختم کرنے کے سلسلے میں ریکارڈ قائم کرنے میں لگی ہوئییں ہیں۔ نواز شریف کی تو سمجھ ہی نہی آتی ہے کہ وہ کرنا کیا چاہتے ہیں کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ اب نواز شریف اور انکے بھائی شہباز شریف دونوں عدالت کی طرف سے نااہل قرار دیے جا چکے ہیں اب حکومت تو ہو گئی ختم اور سلمان تاثیر جیسے گورنر سے نمٹ سکیں تو ہم سمجھیں کہ سیاست آتی ہے اور جہاں تک نواز شریف کی پریس کانفرنس اور لانگ مارچ میں بھرپور شرکت کے اعلان کی بات ہے اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد بھرپور شرکت کیا ہوتی ہے ذرا یہ بھی سولہ کروڑ عوام کو دیکھ لینے دیجیے۔ اپنی حکومت تھی تو شرکت تو سرکاری اور بھرپور ہونی ہی تھی اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح جان بچانی ہے بھرپور شرکت بھی کرنی ہے اور تاثیر صاحب کی میزبان نوازی کا مزہ بھی چکھنا پڑ سکتا ہے۔ اور قاضی صاحب کچھ اور کر سکیں یا نا کرسکیں لانگ مارچ اور دھرنے کی کالیں خوب دیتے ہیں۔ ایک تو ہمارے عوام کا حافظہ بڑا کمزور ہے ابھی پچھلے سال یا کچھ اور پہلے بھی تو لانگ مارچ اور دھرنے کی باتیں ہوئیں تھی جس میں مرد بیزار جناب علی احمد کرد صاحب واقعتآ صحت کی خرابی کے باعث شرکت سے غالبآ محروم رہ گئے تھے اور سرکاری طعام و قیام کے مزہ لوٹ کر اور اسلام آباد کی پر فضا سیر کے بعد وکلا یا وکلا کے لبادے میں کچھ لوگ رخصت ہوئے تھے اور ایک دوسرے کو الزامات دیتے واپس اپنے اپنے راستوں پر گامزن ہوئے تھے۔

کون کہتا ہے کہ یہ تحریک ایک شخص جسے لوگ معزول جسٹس افتخار چوہدری کے نام سے جانتے ہیں چلا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس تحریک میں جو کروڑوں بلکہ کچھ صاحب نظر لوگ فرماتے ہیں کہ سوا ارب روپے سے ذائد کے اخراجات ہو چکے ہیں چوہدری صاحب اگر یہ تحریک چلا رہے ہیں تو بھائی کسی جسٹس کے پاس اتنا پیسا کہاں سے آیا ہاں اگر وکلا بھی ساتھ ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کیوں کہ انکے پاس بڑا پیسا ہے ۔ صرف تین پارٹیوں یعنی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان پیپلز پارٹی اور جناب مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے طرز عمل کے ساتھ ساتھ اگر دوسری پارٹیوں یعنی نواز لیگ، اے این پی ، تحریک انصاف کا نام لیتے ہوئے پتا نہیں کیوں لوگوں کو شرم آتی ہے کیا نواز لیگ کا تصور بغیر نواز شریف اور بھائی شہباز کے ہے، اور کیا اے این پی بھی مورثی نہیں اور کیا تحریک انصاف عمران خان کی تن تنہا پارٹی نہیں ہے۔ اب بات یہ ہے کہ شخصیت پرستی اگر کسی تنظیم میں ہے تو کوئی ایسی بات نہیں یہ تنظیمیں کم از کم عوام کے دیے ہوئے ٹیکس کے پیسے سے تو تنخوائیں پا رہیں چودھری تو ملک کی عدلیہ کے معزز جج تھے ان کا کیا کام پارٹی بنانا اور جلسوں سے خطاب کرنا اور عوام کے درمیان آنا۔ انہیں جس کام کے پیسے ملتے تھے اگر وہ اپنا کام ہی کرتے رہتے تو ٹھیک تھا مگر جب اپنی نوکری خطرے میں دیکھ کر واویلا مچا دینا اور ادھر ادھر سے بد عقل لوگوں کو جمع کر کے اپنی حمایت حاصل کر لینا کس زمرے میں آتا ہے۔ اگر اتنا ہی شوق ہے تو اپنی پارٹی بنا لو اور میدان میں آکر دیکھ لو ۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

اور جہاں تک متحدہ قومی موومنٹ کا تعلق ہے تو اس جماعت کا قائد ایک ایسا شخص ہے جسے لوگ الطاف حسین کے نام سے جانتے ہیں اور اس نام سے جو لرزہ اور بے چینی ظالموں، بے حسوں، جابروں پر طاری ہو جاتی ہے اس کے بارے میں پوچھوں وڈیروں، جاگیرداروں اور ایسی سوچیں رکھنے والوں سے کہ استحصال کرنے والوں کو پتہ ہے کہ اگر متحدہ قومی موومنٹ کا منشور اور پیام ملک کے ٩٨ فیصد عوام تک پہنچ گیا تو ملک میں وڈیرانہ اور جاگیردارانہ سوچ رکھنے والوں کا تو سمجھ لو حقہ پانی بند۔ کوئی ایک نام اگر پتہ ہو تو ہمیں بھی بتادو بھائیوں کے الطاف حسین نے اپنے کسی بھائی، چچا ، ماموں یا اپنے کسی عزیز کو قومی و صوبائی اسملیوں کے ٹکٹ دلوائے ہوں۔

اور شخصیت پسندی کی بعض مثالیں پیپلز پارٹی کے متعلق بھی دی جاتی ہیں ارے بھائی نواز اینڈ کمپنی کو کیوں بھول جاتے ہو کیا پورے پنجاب میں وزیر اعظم بننے کا حق صرف نواز شریف کو ہے اور وزیر اعلیٰ بننے کے لائق صرف شہباز شریف ہی ہے اور کیا پورے پنجاب میں کوئی اور ایسا نہیں ہے جو ان دو بھائیوں سے زیادہ لائق فائق ہو یا بات صرف یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف، وزیر اعلی شہباز شریف اور اپنی اولاوں کو بھی سیٹیں دلوائیں اور بیک ڈور سے سیاست میں لے آئیں اور جو بے چارے مظلوم کارکن ہیں وہ سڑکوں پر نعرے لگاتے اور پولیس کی ماریں کھاتے رہیں کچھ تو خدا کا خوف کرو بھائیوں۔ اپنے اپنے عزیزوں، دامادوں، رشتے داروں اور اپنی جے جے کار لکھنے والوں کو جتنا نواز رہے ہو اللہ کے سامنے جواب دینا پڑے گا تو پتا چلے گا نواز شریف اینڈ کمپنی نے اپنی جماعت میں کونسے الیکشن کروائے ہیں۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل نے آئی جے آئی بنوائی اور نواز شریف تو خود فوجی جرنل کے باغیچے میں پل کر سیاستدان بنے اور سیاست دان بھی ایسے بنے کہ کسی انٹرنیشنل لیول پر ان سے کسی موضوع پر تقریر کروا کر دیکھ لو اگر کوئی ڈھنگ کی بات کر جائیں تو ہم جانیں اپنے بھولے بھالے عوام کو لارے لپے دینا اور ان کے جزبات سے کھیلنا اور بات ہے اور ڈھنگ کی بات کرنا اور بات۔ ن لیگ بننے کے بعد سے کون ن لیگ کو چلا رہا ہے کوئی ہے جو چلا سکے نواز اینڈ کمپنی کے جیتے جو ارے توبہ کریں جی

لوگ فاروق نائیک کی فکر میں لگے ہوئے ہیں ارے بھائی یاد کرو جب نواز شریف اینڈ کمپنی کانپتے ہاتھوں سے جرنل کے پیر چھو کر اور معاہدے کرنے کے بعد صندوق کے صندوق لے کر ملک سے چوروں کی طرح گئے تھے تو یاد کریں کہ ن لیگ کا حشر کیا ہوا تھا آج جو ن لیگ ہے اس کا تو حال یہ تھا کہ شہباز شریف کی وطن آمد پر جس طرح حکومت نے ان کو دوسری فلائیٹ سے واپس بھیج دیا تھا تو ن لیگ والے ہزار آدمی جمع نا کر سکے تھے۔ تو بے نظیر کے انتقال کے اتنے کم عرصے میں پیپلز پارٹی نے جس طرح سے زمام حکومت اور اس کے معاملات سنبھالے اس پر وہ داد کے مستحق ہیں۔

ایک شخص جسے لوگ معزول جسٹس افتخار چودھری کے نام سے جانتے ہیں وہ ایک لعنتی پی سی او کا جج تھا جو اپنے خلاف ریفرنسز کے نتیجے میں اتنا خوف زدہ ہوا کہ قوم کو ایسے ایسے بحرانوں میں پھنسوا گیا جس کے نتیجے میں آٹا، دال، بجلی پانی عوام سے کوسوں دور ہو گیا اور عدلیہ کی بحالی کے نعرے لگنے لگے کونسی عدلیہ بحالی مشرف کے جوتے چاٹنے والی پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والی عدلیہ اور معزول چیف جسٹس اور سوموٹو ایکشن ایسا کونسا لے لیا جس سے ملک کے وارے نیارے ہو گئے اور ملک ترقی کی منازل طے کرنے لگا۔ اپنے مخالفین کے خلاف سوموٹو ایکشن اور ملک کی عدلیہ کی بوسیدہ الماریوں میں مظلوموں اور بے یارو مددگار لوگوں کے برسوں پرانے پیڑھی در پیڑھی نا مکمل رہ جانے والے مقدموں اور اس سلسلے میں عوام کی شب و روز جمع کی ہوئی پونجی اور جائیداد و مکانات کے فروخت سے حاصل ہونے والی رقوم سے ان وکلا اور اس پرانی عدلیہ کا پیٹ اب تک تو بھر گیا ہوگا۔

کتنے افراد بحال کرا سکا تھا معزول چیف جسٹس اور اتنے عرصے میں کونسے ایسے کام کر گزرا تھا کہ مزید موقع ملنے پر یہ کر جاتا اور وہ کر جاتا کچھ پتہ ہے کہ ٣ یا ٤ سال میں اپنے مزہ کروانے کے علاوہ اور پروٹوکول کے مزے لوٹنے کے علاوہ معزول چیف جسٹس کر کیا سکا تھا۔ اس کا جواب ہے کسی کے پاس تو ہمیں بھی بتا دینا۔ عوام کو سستا انصاف تو جبھی ملے گا جب ان کروڑ پتی وکلا کا پیٹ بھر جائے اور یہ تمام غریبوں کے مقدمات مفت میں کرنے پر راضی ہو جائیں۔ ورنہ عوام کو آٹا سستا مل جائے انصاف تو اللہ کے ہاں مل ہی جائے گا۔

M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 498500 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.