اقتدار،اختیاراور انتظار

انسان کو بعض اوقات زندگی میں کچھ ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو کچھ ایسی چیزیں یا باتیں کرجاتے ہیں جو لوگوں کو اور خاص طور پر مجھ جیسے شخص کو سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں اللہ نے ان لوگوں کو ایسی خداداد ذہانت دی ہوتی ہے وہ کسی عالم یا مفکر سے کم نہیں ہوتے۔ریاض بٹ کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جن کے پاس بے شمار علم اور معلومات ہوتی ہیں پاکستان میں ایک نامور گھرانے سے ان کاتعلق ہے ان سے ایک جگہ ملاقات ہوئی ۔ایک دن ملاقات کے دوران باتیں سیاست کی طرف نکل پڑیں جیسے آج کل ریڑھی سے لے کر ایوانوں تک کا بہترین موضوع سیاست فوج اور آئی پی ایل ہے یہاں تک کہ ایک صفائی کرنے والے کو دیکھا وہ اپنی کلیگ سے کہہ رہا تھا کہ پریشان نہ تھی گیلانی کو ں عدالت کوئینا چھڑیسی۔میں ہکا بکا ان کی بات سنتا رہ گیا ۔ خیر بات ہو رہی تھی ریاض بٹ کی جنہوں نے سیاست کے موضوع چھڑتے ہی پاکستان کی حالت زار کچھ اس طرح بیان کی ۔کہ ایک بادشاہ تھا اس کے میں بے پناہ وسائل تھے اور مسائل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پتا نہیں شاید تھے شاید نہیں تھے۔مرشد کہہ رہے تھے کہ نہیں تھے۔اس بادشاہ کو گھوڑوں کا بہت شوق تھا اس کے پاس ہر طرح کے گھوڑے تھیریس والا گھوڑا ،ڈانس والا گھوڑا،لڑائی والا گھوڑا ،کاغذ والا گھوڑے کا علم نہیں تھا یا نہیں۔بہرحال اس کے پا س ہر نسل کے گھوڑے تھے۔نسل تو گھوڑے کی ہوتی ہے گدھے تو سارے کے سارے گدھے ہوتے ہیں۔خیر بادشاہ نے ہمسایہ ملک پر حملے کا منصوبہ بنایا ۔ہمسایہ کو علم ہوا تو اس نے بادشاہ کی کمزوری (گھوڑے والی)کا علم تھا اس نے بادشاہ کو جزیہ کے طور پر ایک اعلیٰ نسل کا گھوڑا مال وزر کے ساتھ بجھوایا اور اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔بادشاہ مان گیا اور حملہ موخر کردیا۔بادشاہ نے گھوڑا دیکھا تو بہت خوش ہوا اور وزیر کو حکم دیا کہ اس گھوڑے کی بھرپور خدمت کی جائے اس پر روزانہ 200روپے خرچ کیئے جائیں اور اسکی خدمت پر ایک ملازم رکھا جائے اس کو 50 روپے دیئے جائیں۔حکم کی تعمیل ہوئی کچھ عرصے بعد بادشاہ نے گھوڑے کو طلب کیا اور دیکھا تو گھوڑا فٹ اور بہترین حالت میں تھا ۔بادشاہ خو ش ہوا اسکے وزیر اعظم نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اگر ایک آدمی اس گھوڑے کی دیکھ بھال اتنی اچھی کر سکتا ہے تو اس کی دیکھ بھال دو لوگ اور بھی بہتر کر لیں گے۔اور گھوڑا مزید بہتر ہوجائے گا۔بادشاہ نے حکم دے دیا کہ دو لوگ کر دیے جائیں۔کچھ عرصے بعد چیک کیا تو گھوڑے کی حالت خراب لگی وہ ناراض ہوا کہ یہ کیا ہو گیا ہے اسے؟وزیر اعظم نے کہا کہ اس کی خدمت کے لیئے تین آدمی کردیں۔فرمان جاری ہوگیااب تین آدمی گھوڑے کی خدمت کے لیئے مقرر ہو گئے۔ کچھ دن بعد بادشاہ نے گھوڑا منگوایا تو معلوم ہوا کہ وہ تو مر گیا ہے بادشاہ سخت ناراض ہوا کہ تین آدمیوں نے خدمت کی او ر گھوڑا مر گیا۔کہانی یہ تھی کہ جب ایک آدمی تھا تو دل و جان سے گھوڑے کی خدمت کرتا تھا مگر جب دو ہوئے تو آنے والے نے چال چلی کہ یہ گھوڑا ہو کر 200 روپے کھائے اور ہم انسان 50 روپے یہ غلط ہے۔اب گھوڑا 100 روپے کھاتا تھا اور ملاز م بھی 100 برابر کھاتے تھے۔جب تیسرا ملاز م آیا تو وہ بھی 100 کھانے لگا اور گھوڑے کے حصے میں صرف 50روپے حصے میں آتے کھانے کے لیئے۔گھوڑے نے مرنا ہی تھا مر گیا۔ریاض بٹ نے کہا عمر خان دیکھو کون کون سے گھوڑے مر چکے ہیں اور کون کون سے مرنے والے ہیں؟میں پوچھا کیا مطلب اس بات کا؟ اس کہا دیکھو GCTگھوڑا تھا مرگیا۔ریلوے ادھ مرا ہے۔پاکستان سٹیل ،واپڈا،پی آئی اے،ایجوکیشن،صحت ،قومی اسمبلی،صوبائی اسمبلی ،سینٹ ارسا وغیرہ یہ سب ادھ مرے نہیں ہیں تو کیاہیں؟اب اپنی سیاسی گدیوں کو بچانے کی خاطر صوبوں کے نام پر سیاسی سٹنٹ شروع کر دیئے گئے ہیں2008 سے بھرپور طریقے سے چلنے والی تحریک بحالی صوبہ بہاولپور 4سال تک پنجاب پر کوئی اثر نہ چھوڑ سکی مگر گیلانی کے سرائیکستان کے سیاسی سٹنٹ کے جواب میں مسلم لیگ ن فوری طور پر قرار داد پیش کرنے پر راضی ہو گئی اور پیش کردی۔گزشتہ کئی عشروں سے حافظ شفیق و دیگر شہدائے بہاولپور صوبہ کی تحریک کو الحاج بلیغ الرحمان خان ،قاری مونس اور اکرم انصاری اپنے نامساعد حالات کے باوجود خراج عقیدت پیش کرتے رہے اور اس تحریک کو زندہ رکھا۔اب گیلانی کے جواب میں شہباز شریف کو صوبہ بہاولپور بھی یاد آگیا اور اس کے شہدا بھی جن کو میاں شہباز شریف صاحب نے سرکٹ ہاؤس میں صوبہ بہاولپور کی قرارداداسمبلی میں پیش کرنے کے بعد خاص طور پر کریڈٹ لینے کے لیئے تشریف آوری پر خراج تحسین پیش کیا ۔ جبکہ شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے مگر اب میاں صاحب خادم اعلیٰ ہیں ان کو بہتر پتا کہ انہوں نے کیا پیش کرنا تھا۔یہ اور بات ہے کہ انہیں ابھی تک بورڈ آف ایجوکیشن بہاولپور میں کرپشن کا علم نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بھی ان کو بہتر پتا کہ انہیں کیوں نہیں پتا جب کہ گزشتہ دو سالوں سے میڈیا میں کرپشن کی خبریں گردش کر رہیں ہیں۔ اور خادم اعلیٰ کے خصوصی مشیر بلیغ الرحمان ایم این اے بھی اس معاملے پر خاموش ہیں شاید پاکستان کا آنے والا مستقبل کرپشن فریب اور جھوٹ پر بنیاد رکھے گا۔ یا کوئی اعلیٰ حاکم نہیں تو کوئی جج تو اس کو پڑھ کر نوٹس لے ہی لے گا کہ ایک عام سے سکیل کے آدمی کے پاس ماڈل ٹاؤن اے جیسے مہنگے علاقے میں پلاٹ کیسے آجاتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ایک ملازم تین تین گھر اور دیگر کاروبار کیسے کرلیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟اور ایک نان ٹیکنیکل آدمی کو ٹیکنیکل پوسٹ اور ٹیکنیکل آدمی کو نان ٹیکنیکل پوسٹ کیسے الاٹ کردی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ہزاروں کلو سکہ جس کی مالیت کئی ملین بنتی ہے اس کے بارے میں چیئرمین سے لے کر کوئی عہدے دار بتانے کے لیئے تیار نہیں ہے کہ وہ کدھر ہے؟ جوکی مشینیں کیسے اور کہاں سے خریدی گئیں ؟۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی مجھے بھی یہ جادو سکھا دے تاکہ میں 16 سال سے انصاف کی خاطر عدالتوں مین پھرنے کی بجائے کوئی اور کام کرلوں جس سے میرا ذاتی گھر بن سکے۔ معاف کیجئے گا انسان ہوں کہیں اور پہنچ گیا تھا۔بات ہو رہی تھی سیاست کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح محمد علی درانی نے بھی حافظ شفیق کے ورثاء کو پلاسٹک کے دس روپے والے گولڈ میڈل پیش کیئے تھے جو انہوں آج تک سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں کہ شاید یہ سچ میں سونے کے نہ ہو جائیںَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ سابق وزیر اعظم sps میں ایک تقریب کے دوران صوبہ بہاولپور کی حمایت کر کے گئے تھے۔صادق آباد سے بہاولنگر تک پاکستان کے اس سب سے بڑے ڈویژن کا سالانہ ریونیو اندازا 15 ارب سے زائد ہے اس صورت حال میں پنجاب یا ملتان والے کس طرح سونے کے اں دے دینے والی مرغی کو آزادی دے سکتے ہیں؟ باقی رہی لیڈران کی بات تو اب سب لیڈر ہیں اور ان سب کی قربانیاں بے بہت بڑی ہیں اس کا حق تو بہاولپور کی عوام کبھی بھی نہیں اتار سکتی نہ ہی ان کی نسلیں اتار سکیں گی۔ بہر حال سیاسی منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہورہا ہے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا الائنس تیار ہے اور اب یہ دیکھنا ہے کہ میاں صاحب کی سیاسی بصیرت کہا ں تک ان کا ساتھ دے گی؟ اگر وہ زرداری کو 5 سال برداشت کر سکتے ہیں تو ان کو چاہیئے کہ وہ عمران خان کو بھی موقع دیں ۔کنگ بننے کی بجائے کنگ میکر کا کردار ان کے لیئے ذیادہ مناسب رہے گا۔بہاولپور کی نیشنل اسمبلی کے لیئے سب سے مظبوط امیدوار صوبائی امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر سید وسیم اختر کے مقابلے پر محمد علی درانی ہو سکتے ہیں کیونکہ اس وقت بہاولپور کا سیاسی منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ آنے والے وقت میں محممد علی درانی ایک منجھے ہوئے کھلاڑی کی حیثیت سے سیاست کی بساط پر اپنے مہرے چل رہے ہیں اور یہ بات بھی باوثوق ذرائع سے سامنے آچکی ہے کہ میاں صاحب کے ساتھ ان کی کوئی کمٹمنٹ ہوچکی ہے جس کے متعلق قبل ازوقت کچھ کہنا بہتر نہیں ہوگا۔ مگر پارٹی ٹکٹ کے ساتھ ساتھ سینیٹر کی آفر بھی ہے اور خصوصی نشست پر عابدہ درانی بھی ہو سکتی ہیں۔ اور محمد علی درانی کی ذاتی شخصیت بھی ان کا ساتھ دے گی عوام بھی اور اللہ بھی۔ باقی منظر نامے پر امیدوار دھندلے ہیں مسلم لیگ ن بلیغ الرحمان پر انحصار کرکے شاید اپنی ٹکٹ کو ضائع کرے طارق بشیر چیمہ بھی تحریک انصاف کی طرف سے ہو سکتے ہیں اور اس وقت تک اپنے حریف کو 60 فی صد شکست سے ایڈوانس دے چکے ہیں اقتدار کی اس ریس میں ملک فاروق اعظم ،ملک عامروارن، فاروق انور عباسی، تابش الوری، حاجی ذوالفقاراور مسلم لیگ ن کے ڈسے ہوئے جاوید خان دولت زئی بہت پیچھے رہ گئے ہیں،دولت زئی کے سیاسی پیر ملک فاروق اعظم میں اب وہ دم خم نہیں رہا ۔ بہرحال پیوست رہ شجر سے امید بہار رکھ ۔ بہت شوق ہے لوگوں کو عوام کی خدمت کا ۔ اللہ یہ جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرے آمین ۔ یہ لوگ تو جنازے اور پرگراموں میں بھی پوچھ کر جاتے ہیں کہ اگر مرنے والے کا کوئی سیاسی یا تجارتی یا کوئی اور بیک گراؤنڈ ہے تو یہ لو سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔ تاکہ شہرمیں نام ہو سکے ۔صوبہ بہاولپور تو بحال ہو کر رہے گا اب چاہے پی پی پی کے زرداری صاحب کریں یا کوئی بھی آنے والا نیا صدر ۔۔۔۔۔۔ محمد علی درانی کے پا س صوبہ بہاولپور کے لیئے اچھا ایجنڈا ہے۔اگر وہ اس پر عمل کریں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ اور بات ہے کہ محمد علی درانی چھوٹے موٹے صحافیوں سے بات کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں مگر وہ احسان مند ہوں کہ شہزادہ مامون عباسی کے بعد الحاج بلیغ الرحمان ، اکرم انصاری قاری مونس سمیت ان سب لوگوں کے جن کے نام میں یہاں ضبط تحریر نہیں لا سکا (معذرت کے ساتھ) جنہوں نے سخت نامساعد ترین حالات میں اپنی اولادوں کا پیٹ کاٹ کر اس تحریک کو زندہ رکھا اور محمدعلی درانی کے نام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے اس رہتی دنیا تک سنہری لفظوں سے لکھوا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔مگر سیاسی بصیرت اور بصارت کو آزمانے کا وقت آرہا ہے ۔دیکھنا یہ ہوگا کہ بادشاہ کام کرے گا یا حکم کا اکا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر بات ہو رہی تھی گھوڑوں کی ۔۔۔۔نہیں ریاض بٹ کی وہ ایک ذہین آدمی ہیں-
عمر فاروق خان
About the Author: عمر فاروق خان Read More Articles by عمر فاروق خان : 17 Articles with 14350 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.