14 اگست اور غریب عوام کا نوحہ

14اگست کا دن یومِ آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے ۔صبح سویرے 21توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔قائدِاعظم اور علامہ اقبال کے مزارات پر گارڈز کی تبدیلی ہوتی ہے۔بازار ،گلیاں، گھر ،عمارات اور پارک سجائے جاتے ہیں ۔جلسے جلوس نکالے جاتے ہیں اور ہمارے دانشور ،سیاست دان،وزیر مشیراور حکمران اپنی فصیح و بلیغ تقاریر میں بلندوبانگ دعوے اور روشن مستقبل کی نوید سناتے نظر آتے ہیں۔پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر بھی ادیب اور دانشور اپنی تحریرو تقریر میں عوام کو خوب صورت انداز میں سبز باغ دکھاتے ہیں۔رات کے وقت چراغاں ہوتا ہے۔لوگ پارکوں میں سیرو تفریح کے لئے نکل جاتے ہیں اور یوں دن گذر جاتا ہے۔کیا ھم نے آزادی صرف اسی لئے حاصل کی تھی کہ14اگست کے دن آدھے ادھورے دانشوروں کے ذہنوں میں اُگنے والے آلودہ نظریات اور خیالات کا زہر زبردستی کانوں میں ٹھونسا جائے اور ہم خاموشی سے سنیں اور سر دھونیں،زرک برق لباس پہنیں،جھنڈے لگائیں،رات کو پارکوں کی سیر کریں اورچراغاں کریں پھر ٹائیں ٹائیں فش۔زندہ قومیں اپنی آزادی کا د ن بالکل اِس کے برعکس انداز میں مناتی ہیں۔14اگست تک پہنچنے کے لئے ہمیں جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا،جن قربانیوں اور لہو رنگ جدوجہد کے بعد یہ دن دیکھنے کو ملاوہ بھُلانا ناممکنات میں سے ہے۔

پاکستان حاصل کرنے کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا جہاں مسلمان آزادی کے ساتھ اسلامی اقدار اور اسلامی فلسفہءحیات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔کیا اس وقت جس قسم کے حالات ہیں۔ہم پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست کہہ سکتے ہیں؟ آج کا پاکستان وڈیروں ،جاگیرداروں،صنعتکاروں ،بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کے لئے فلاحی ریاست ہے اور غریب جنہوں نے قربانیاں دیکر یہ وطن حاصل کیا تھا وہ پچھلے 65سالوں سے قربانیوں کی سزا جھیل رہے ہیں۔جب تک قربانیاں دینے والے طبقے کو آسودہ زندگی میسر نہیں آتی اُس وقت تک 14اگست منانے کا کوئی فائدہ نہیں۔

آج تک اس ملک پر جس جماعت کو بھی حکومت کرنے کا موقع ملا ہے۔اُس نے ایسی پالیسیاں بنائی ہیں کہ اس ملک میں رہنے والے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتے گئے ہیں۔جس سے ملک میں واضح طور پر دو طبقے بنتے چلے گئے ایک وہ جو وسائل پر قابض ہے اور ایک وہ جو مسائل میں گھرا ہے۔ایک وہ طبقہ ہے جن کے آگے پیچھے گاڑیاں،نوکر چاکر،بنگلے،مراعات،قانون،اور ہر قسم کا استثنی اور دوسری طرف وہ طبقہ ہے جس پر ٹیکسوں کی بھرمار،محرومیاں،عدم تحفظ اور مہنگائی کا آسیب۔کیا پاکستان اِسی مقصد کے لئے بنا تھا؟

آج ملک میں سارے قانون،سارے NROsاور سارے استثنی صرف اور صرف وڈیروں ، جاگیرداروں، صنعتکاروں، بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کے لئے ہیں۔اور غریبوں کے لئے جن کی قربانیوں کی وجہ سے یہ وطن ملا صرف اور صرف ٹھینگا۔اپنے لئے قانون بنانا ہو،مراعات اورتنخواہوںمیں اضافہ کرنا ہو،تو سارے دشمنیاں بھُلا کر ایک ہو جاتے ہیںاور پل بھر میں قانون اور مراعات کا بل پاس اور اگر عوام کی فلاح کا کوئی منصوبہ سامنے آئے تو مہینوں بحث مباحثہ اور بائیکاٹ تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔اسی کالاباغ کے منصوبے کو ہی لے لیں سالون سے زیرِالتوا ہے کبھی سندھ مخالفت کرتا ہے تو کبھی خیبر پختون خواہ والے مگر جب NFCایوارڈ کی بات آتی ہے تو پنجاب بڑا بھائی ہوتا ہے کیوں کہ مطلب جو ہوتا ہے۔ہم پاکستان بننے کے بعد ایک کالاباغ ڈیم نہ بنا سکے اور انڈیا نے پچھلے ۳ سالوں میں 65ڈیم بنانے کی پلاننگ کر کے کام بھی شروع کر چکا ہے۔اور آنے والے سالوں میں ہمارے پانی پر انڈیا کا کنترول ہو گا اور ہم بس اپنا اپنا پیٹ بھرنے میں ہی مصروف و مشغول رہیں گے اور دنیا چاند اور مریخ کو تسخیر کرنے میں لگی ہے اور ہم غریبوں کے حقوق غصب کرنے میں لگے ہیں۔کیا یہ پاکستان وڈیروں ،جاگیرداروں،صنعتکاروں ،بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کے لئے بنا تھا؟

سیاستدانوں نے اپنے مفادات کی خاطر اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے پاکستان میں صوبائی عصبیت کی ایسی آگ لوگوں کی رگ رگ میں لگائی کہ آج یہ آگ نفرتوں کا الاﺅ بن کر پاکستان کی آزادی ، یک جہتی اور اتحاد کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا رہی ہے۔آج صوبوں میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار نہیں بلکہ بلوچستان میں تو باقاعدہ طور پر بلوچوں نے علیحدگی کی تحریک شروع کر رکھی ہے۔سندھی بھی پنجابی کے خلاف اکثر اپنی نفرت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔یہ پنجاب سے نفرت کا ہی شاخسانہ ہے کہ آج سندھ اور خیبر پختون خواہ والے پنجاب میں بننے والے کالاباغ ڈیم کے خلاف ہیں ۔اور یہ سارا کیا دھرا ہمارے سیاستدانوں کا ہے۔

صوبوں میں آج جو صورت حال دکھائی دے رہی ہے وہ کسی طرح سے بھی حوصلہ افزا نہیں ہے بلکہ پریشان کن ہے۔سندھ کے لوگ وڈیروں کے چنگل میں پھنسے ہیں اور اُن کی زندگی مسلسل عذاب اور اذیت میں گذر رہی ہے بلکہ وہ لوگ اس ترقی کے دور میں بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور کراچی جو رنگوں اور روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا آج لہو میں ڈوبا نظر آتا ہے۔ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ مافیا نے اِس شہر کے حُسن کو ماند کر دیا ہے۔اِسی طرح خیبر پختون خواہ میں دہشت گردی اور بم دھماکوں نے شہر وں کے امن سکون کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔صوبہ بلوچستان میں لاپتہ افراد اور علیحدگی کی تحریک نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔پنجاب میں پولیس گردی ، مہنگائی اور لوڈشیڈنگ نے ترقی کے پہیے کو جام کرکے رکھ دیا ہے۔ایسی صورت حال میں ہم جشنِ آزادی کیسے منائیں ؟

14اگست کو ہم نے جو آزادی حاصل کی وہ صرف نام کی آزادی تھی کیونکہ ہم نے انگریزوں کی مکاری سے آزادی حاصل کرکے امریکہ کی چالاکی اور چالبازی کے سامنے ہار مان لی۔ ہندو بنیے کے مکروفریب سے آزادی پا کر وڈیروں ،جاگیرداروں،صنعتکاروں ،بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کی غلامی میں آگئے۔ہم غریب عوام قربانیاں دیکر ،نعرے لگا کر ،مال و اسباب لٹوا کر غلام کے غلام رہے تو پھر 14اگست کے دن جشنِ آزادی منانا اور خوش ہونا کیا ٹھیک عمل ہے؟

پاکستان جن مقاصد کو مدِنظر رکھ کر بنایا گیا تھا اُن مین سے ایک بھی تو پورا نہیں ہو سکا۔ہم ایٹمی ملک ہونے کے باوجود امریکی احکامات کے پابند ہوتے ہیں ۔اُس نے ڈاکٹر عافیہ کو ناکردہ جرم میں قید کر رکھا ہے۔اور ہم نے ریمنڈ ڈیوس کو مجرم ہونے کے باوجود عزت سے اُنہیں واپس کر دیا۔ڈرون حملے جاری ہیں اور ہم خاموش ہیں ۔سلالہ چیک پوسٹ اُڑا دی گئی اور ہم گرجے برسے اور آخر ڈالروں نے ہمارے منہ بند کر دیئے۔ہم ہیں ہی بکاﺅ مال۔افغانستان اور انڈیا ہمارے حا لات خراب کرنے میں لگے ہیں اور ہم چند بیا نات دیکر چپ سادھ لیتے ہیں ۔امریکہ جب چاہتا ہے پاکستان میں گھس کر اپنا مقصد حاصل کرتا ہے اور ہم چیں چین کرتے ہیں مگر ایک ہی گھُرکی پر خاموش ۔کیا یہی آزادی ہے جس کا ہم جشن مناتے ہیں۔

جس دن ہم نے 14اگست منانے کا مقصد ماضی کی غلطیوں سے سبق لینا اور اِن غلطیوں کو دوبارہ نہ دوہرانے کا عزم بنا لیا اُس دن 14اگست کی حقیقی خوشی ہو گی ورنہ ہم جتنے دن منائیں ،تقریریں کریں ،چراغاں کریں ،دعائیں مانگیں نتیجہ صفر ہوگا ۔جس دن حکمرانوں نے غریب عوام کے لئے پالیسیاں بنانا شروع کیں اُس دن آزادی کی حقیقی خوشی اور آزادی کا حق ادا ہو گا ورنہ 14اگست آتے رہیں گے اور غریب اپنے نوحے سناتے رہیں گے۔
Muhammad Kamran Shehzad
About the Author: Muhammad Kamran Shehzad Read More Articles by Muhammad Kamran Shehzad: 7 Articles with 5315 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.