کالے انگریزوں کی حکمت عملی

پاکستان کی بد قسمتی رہی کہ آزادی کے بعد سے عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم اور ان جاگیر دار، وڈیروں،خوانین، سرمایہ داروں اور سرداروں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے میں ناکام رہے جس کا خواب انگریزوں کی غلامی سے آزادی کےلئے اکابرین برصغیر نے دیکھا تھا ۔جبکہ بھارت کے برعکس پاکستان کی عوام بٹوارہ ہندوستان کی ثمرات سے مستفید ہونے کے بجائے بلا شرکت غیرے کالے انگریزوں کی بیورکریسی کی دلدل میں دھنستی چلے گئی جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

جمہوریت کا پودا کبھی پنپنے ہی نہیں دیا گیا اور آمریت کی شکنجوں نے حاکمیت کی بالادستی کو برقرار رکھتے ہوئے طبقاتی تفریق کی خلیج کوقومیتوں کے درمیان بڑھانے میں توجہ مرکوز رکھی جس کا شکار بھارت سے آنے والے لاکھوں مہاجر بنے۔حالاں کہ انصار مدینہ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے پنجاب اور سندھ کی عوام نے پاکستان کے حقیقی خالق کے متاثرین کو دلوں میں جگہ دی اور ان کی بحالی کےلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ان متاثرین میں بڑی تعداد خیبر پختونخوا میں بھی آباد ہوئی۔ کاروباری و مزدور طبقے نے معاشی صورتحال اور بد امنی کے باعث بھی ہجرت کو ترجیح دی۔ سب سے زیادہ سندھ میں اردو بولنے والے مہاجرین کی بڑی تعداد آباد ہوئی، چونکہ مہاجرین اپنے تعلیمی قابلیت کی بناءپر مساوی حقوق کے حامل تھے لیکن انگریزوں کی غلامی سے مستفید ہونے والے جاگیر دار اور وڈیروں کو بخوبی اندازہ ہو چلا تھا کہ اگر جمہوری اقدار کو پروان چڑھایا گیا تو مراعات یافتہ طبقہ کا نام نہاد حقِ حکمرانی اورغلامی کے نتیجے میں ملنے والی جائیدادوں اور خزانوں سے محروم ہوکر انھیں بھی عام پاکستانی کی طرح ٹیکس اور اپنی جاہ و حشمت کا حساب کتاب دینا ہوگا۔

وفاقی دارالحکومت کو پنجاب منتقل کرنا ،بیورکریسی اور مختلف محکموں سے مخالفین کو جبری ریٹائٹر ،تعلیمی اداروں ، صنعتوں اور بنکوں کو نیشنلائز اور سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کرکے روزگار اور دوہرا نظام تعلیم رکھ کر اعلی تعلیم سے محرومی ، لسانی ، فرقہ وارانہ فسادات کی بنیاد رکھنے کے علاوہ یہی و شہری تفریق کا نفرت انگیز بیج بھی بو دیا ،تاکہ آنے والی نسل تعلیم و شعور سے آگاہی کے بجائے قوم موسی کی طرح خوئے غلامی اختیار کرلیںاور فرعونیت کے معاشی نظام اور مذہبی پیشوائیت کے خلاف صف آرا ہونے کے قابل نہ بن سکیں اور دیگر قومیتوں کی عوام میں بیداری کی لہر پیدا نہ ہوسکے۔فطری طور پر جس طرح مولانا قاسم ناناتوی نے 1866ءمیں دارالعلوم دیو بند، سر سید احمد خان نے 1859ءمیں جدید مدرسہ اور1875ءمیں اینگلو اورنٹنل کالج(علی گڑھ موومنٹ) ، خان عبدالغفار خان نے پختون قوم کو تعلیم سے آگاہی اور عدم تشدد کا پیروکار بنانے کے لئے 1906ءمیںتحریک اصلاح نوجوانان افغانیہ کے تحت تعلیمی مدارس اور 1978ءمیں الطاف حسین نے اے پی ایم یس او کی بنیادرکھ کر سیاسی عملی جدوجہد کا آغاز کیا اور کفر کے فتووں سے لیکر قید کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ اگر یہ شخصیات جرات کا مظاہرہ نہیں کرتی اور ڈر و خوف کے سائے تلے بیٹھ کر محدود ہوجاتیں تو تاریخ میں ان کا نام تک کوئی نہیں جانتا۔ہم سب کو ملکر ان سازشوں کو ملکی سا لمیت اور آنے والی نسلوں کی بقا کے لئے ناکام بنانا ہوگا۔ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم سب کا چولی دامن کا ساتھ ہے ہم سب ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں باہمی میل ملاپ اور ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ہمارا رہن سہن ، کاروبار ،وابستگیاں اور مفادات مشترکہ ہیں۔بسیں ، رکشہ ، ٹیکسی، اگر زیادہ تر پختونوں، پنجابیوں ، بلوچوں، سندھیوں ، مہاجروں اور سرائیکیوں کی ہیں تو بیٹھنے والے بھی یہی قومتیں ہیں۔چائے اور کپڑے کی دوکانیں پنجابی، پشتونوں اور دیگر قومیتوں کی زیادہ ہیں تو ان سے مستفید افراد کا تعلق ان ہی قومیتوں سے ہے۔ فیکڑیاں ، مل ، کارخانے کے مالکان کا تعلق بھی باہمی مشترکہ قومیتوں سے ہے۔غرض یہ ہے کہ ہم سب لازم وملزوم ہیں۔ کسی قوم کی تعداد سینکڑوں میں نہیں ہے کہ ایسے جبری اور استبدادی قوت سے دبا کر دیوار سے لگا دیا جائےگا۔ہم سب کو متحد ہو کر اپنی قوم اور مملکت کی بقا کی خاطر کالے انگریزوں کی حکمت عملی کو عملی طور پر ناکام بنانا ہوگا۔ورنہ تاریخ میں ایسی قوموں کا اب صرف ذکر کتابوں میں ہی ملتا ہے جنھیں اپنی طاقت پر گھمنڈ اور طرز حکمرانی پر غرور تھا۔

جبر اور استعماری قوتیں جب بھی اپنی طاقت کا ستعمال کرتی ہیں تو کمزور سے کمزور ناتواں جسم میں بھی جان آجاتی ہے ۔ ہمیں اس گرداب سے خود کو باہر نکالنا ہوگا ۔ ہمارے لئے ممکن نہیں ہے کہ ایک ساتھ رہتے ہوئے باہم دست و گریبان رہیں ہمیں اب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے درمیان کوئی عدوات ، کوئی دشمنی کوئی بغض نہیں ہے ۔ یہ ایک باہم سازش ہے جیسے باہمی اتفاق و اتحاد سے ناکام بنانا ہم سب کا فرض ہے۔صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ جس جس قوم میں نا اتفاقی پیدا ہوتی چلی گئی ان پر ایسے ظالم لوگوں کو مسلط کردیا گیا جیسے فرعونیت اور یزیدےت کے نام نظام سے آج اور تا قیامت یاد کیا جاتا رہے گا ۔ لسانی ، فرقہ وارانہ فریب اور کالے انگریزوں کی حکمت عملی کو ہم صرف اپنی یکجہتی حکمت عملی سے ہی ناکام بنا سکتے ہیں۔یکجہتی اور باہمی بھائی چارے کےلئے لسانی نفرتوں کا خاتمہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ہم ایک دوسرے کے حقوق کو تسلیم کرلیں اور عوام کو ان کا حق دے دیا جائے۔

پاکستان کے دولخت اور مملکت میں جاری نئے صوبوں کی تحاریک کا مقصد یہی احسا س محرومی ہے جو کالے انگریزوں کی کے کردار کی وجہ سے عوام میں پیدا ہوچکا ہے اور عوام کی اس بیداری کی لہر میں لڑاﺅ اور حکومت کرو کی پالیسی کو عوام ہی ناکام بنا سکتے ہیں۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 296109 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.