لیڈری یا مداری پن

نشہ کوئی بھی ہو وہ صرف سرور ہی نہیں طاری کرتا ہے بلکہ عقل و شعور پر خود پرستی و خود نمائی کی ایسی چادر بھی چڑھا دیتا ہے جس کی وجہ سے اپنے مفادات کے سامنے قوم و ملت کے مسائل انتہائی چھوٹے لگنے لگتے ہیں اور اگر سیاست اور قیادت کا نشہ چڑھ جائے تو یہ انسانی لاش پر اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑنے کے لئے بیقرار ہوتا ہے تاریخ میں ہلاکو اور چنگیز خان اس وجہ سے بدنام ہیں کہ انھوں نے اپنی عظمت اور لیڈری کی برتری تسلیم کرانے کے لئے انسانی سروں کے مینار تعمیر کرائے لیکن ایسا نہیں ہے کہ انسانی لاشوں پرلیڈری اور سیاست کا تاج محل تعمیر کرانے والی یہ دونوں تاریخ کی نادر شخصیات ہیں بلکہ یہ کردارتاریخ کے ہردور میں پائے جاتے رہے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے لوگ اعلانیہ اسے انجام دیتے ہیں اور اب یہی کام چہرے پر نقاب ڈال کرکیا جارہا ہے ۔سیاست کا نشہ جب چڑھتا ہے تو اپنے جلو میں تباہی کا سامان لیکر آتا ہے ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں اتنا لمبا عرصہ گذارنے کے بعد بھی ابھی تک ہم لیڈری اورقیادت کے فرق کو نہیں سمجھ پائے ہیں جمہوری مزاج نے ہر شخص کو کرسی کا طلب گار بنا دیا ہے ۔شہرت ،دولت،اور ناموری کے طلب میں اوچھے ہتھکنڈے اپنائے جا رہے ہیں ۔ایک طرف نریندرمودی اور اس کی قبیل کے لوگ ہیں جو مسلمانوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر دنیا کے سامنے امن وسکون کا نعرہ بلند کر رہے ہیں اور سیکولرازم کے نام پر مذہبیت پسندی کو بڑھاوا دیکر لوگوں کو مذہبی جنون میں اندھا کرنے کا کام کر رہے ہیں ظاہر سی بات ہے اگر بغیر محنت اور زمینی حقائق کے سیاسی فضاء ہموار ہونے لگے اور لوگوں کو لیلائے اقتدار کا دیدار نصیب ہونے لگے تو پھر میدان عمل میں اتر کر پسینہ بہانے کی ضرورت صرف بیوقوفی کی علامت قرار پائے گی آزاد ہندوستان میں مسلمانوں میں قیادت کا فقدان پایا جارہا ہے لیکن لیڈروں کی کمی نہیں ہے بلکہ برساتی مینڈکوں کی طرح ہر سال اس فہرست میں اضافہ ہی ہوتے جارہا ہے اور جب سے علماء دین داری کی قباء میں دنیا داری کا فریضہ انجام دینے لگے ہیں اس وقت سے قوم کی صورت حال اور مخدوش ہی ہوتی جا رہی ہے ۔ملک میں ملت کے سامنے بے شمار مسائل تصفیہ طلب ہیں فسطائیوں اور شرپسندوں کی جانب سے مسلسل فکری اور میڈیائی یلغار کے ذریعے مسلم نوجوانوں جذباتی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے قیادت ہمیشہ حقائق کا تجزیہ کرتی ہے اور کسی بھی فیصلے کو لینے سے پہلے اس کے اثرات پر غور و فکر کرتی ہے قیادت کے جو مسلمہ اصول قرآن نے بتلائے ہیں اس پر قوم کو مرتب کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن لیڈری ہمیشہ اپنی شخصیت کا چمکانے کا کام کرتی ہے اس کے فیصلے جذبات پر مبنی ہوتے ہیں ۔نوجوانوں کے ذہنوں کی برین واشنگ کرکے انھیں جذباتی بنادیا جاتا ہے اور پھر جب جذبات کی آندھی اپنے شباب پر آتی ہے اور خاک و خون کا ماحول پیدا ہوتا ہے تب لیڈری اپنے قدم باہرنکالتی ہے۔نوجوانوں کو اکسایا جاتا ہے کہ وہ فسادات کی آگ کے ایندھن بنیں اور جب اپنے قد کو سیاسی وزن عطا کردیا جاتا ہے تو پھر مظاہرین کی حمایت سے قدم پیچھے کھینچ لیا جاتا ہے ۔قرآن حکیم کے اندر اللہ تعالٰی نے جنگ بدر کے پس منظر میں ملت اسلامیہ کی ابدی فلاح کے زریں اصول بیان کئے ہیں ۔اور یہ بھی بتلایا ہے کہ اللہ کی مدداور اس کی نصرت کی متلاشیوں کو اپنے اندر درج بالا خصوصیات پیدا کرنی ہوگی ایک طرف میدان بدر میں دنیاوی اعتبار سے کمزور مسلمان تھے ۔لیکن وہ اپنے ایمان پر ثابت قدم تھے دنیاوی حالات کی کشمکش ان کے قدموں میں کسی قسم کی لغزش نہ پیدا کرسکی اور وہ کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے تھے ۔اللہ اور اسکے رسول کے سچے پیروکار تھے ۔آپس میں متحد تھے اور صبر گذارتھے جب قوم کے اندر یہ صفات پیدا ہونگی تو اللہ کی مددکانزول ہوتا ہے اور اگر اس کے برعکس صفات ہوں توایسی صورت میں اللہ کی مددکا نزول تو درکنار اس کی رحمت ہی قوم سے روٹھ جاتی ہے ۔ملی مسائل کے تصفیے کی خاطر جو لوگ قیادت کے اتاولے ہیں انھیں خود ہی پتہ نہیں کہ شریعت نے قیادت کا کیا پیمانہ مقرر کیا اور قوم میں تبدیلی کا بنیادی راستہ کون ہے قوم رسول ہاشمی کی قیادت اور اس کی رہنمائی کوئی معمولی بات نہیں کائنات کے امام اعظم نے جن خطوط پر اپنی قوم کو منظم کیا تھا اسی روشن شاہ راہ پر چل کر آج بھی دنیا کی امامت نصیب ہوسکتی ہے لیکن ملت کے قائدین ملت کی بقاء اور اس کے تحفظ کے لئے نظام الہی کی جگہ ابلیسی نظام کے ذریعے قوم کی تبدیلی کی تحریک چلا رہے ہیں تو کیسے یہ قوم فلاح پا سکتی ہے فضائے بدر پیدا کئے بغیر نصرت الہی کے ظہور کے کرشمے کی امید میں قوم کی گردنیں قربان گاہ پر کٹتی جارہی ہیں اور ہم اقوام عالم کی بیحسی کا رونا رو رہے ہیں ۔
khan jalal
About the Author: khan jalal Read More Articles by khan jalal: 5 Articles with 3738 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.