موبائل دہشت گردی اور انوکھے بالوں والے وزیر کی انوکھی منطق

ہمارے داخلے کے وزیر بھی نرالی شخصیت کے مالک ہیں جس طرح ان کے بالوں کا رنگ عجیب ہے اسی طرح ان کی سوچ اور زبان بھی انوکھی ہے اپنی انوکھی سوچ اور وفاداری کی وجہ سے اسلامی عوامی اور ساتھ میں جمہوری پاکستان کے حکمران طبقے کے بہت نزدیک ہیں گذشتہ دنوں انہوں نے پری پیڈ موبائل فون بند کرنے کا اعلان کرکے نہ صرف قوم کو چونکا دیا بلکہ موبائل فون کمپنیوں کو بھی جھٹکا دیا موصوف کے اعلان کے بعد عید پر مختلف صوبوں میں موبائل فون سروس بند کردی گئی اور وجہ یہ بیان کردی کہ دہشت گردی کا خطر ہ ہے -عید گزرنے کے بعد اکلوتے بیٹے کو قوم کے خرچے پرسیر کروانے والے "سربراہ " نے داخلے کے وزیر کو شاباش دیدی کہ انہوں نے عید پر بڑے اچھے اقدامات کئے اور حالات پرسکون رہے -قوم نے بھی اللہ کا شکر ادا کیا کہ دہشت گردی نہیں ہوئی !

ویسے منطق بھی عید پر موبائل فون سروسز بند کرنے کی عجیب ہی ہے کہ دہشت گرد موبائل فون کے ذریعے دہشت گردی کرتے ہیں کیا یہ کہہ کر کہ "چھری " سے لوگوں کو ذبح کیا جاتا ہے اس لئے چھری تیار کرنا جرم ہے حالانکہ اسی چھری سے تو ٹماٹر پیاز بھی کاٹے جاتے ہیں- کسی زمانے میں ہمارے ہاں مولوی وی سی آر کو ہر برائی کی گڑھ سمجھتے تھے اور ان کے بقول اس سے فحاشی پھیلتی ہے حالانکہ وی سی آر کا استعمال میڈیکل کے شعبے کیلئے میں کتنا مفید ہے کیونکہ اس کے ذریعے آپریشن اور سرجری نئے لوگوں کو سکھائی جاتی - اسی کے ساتھ سمجھنے والی بات کیا اس مملکت پاکستان میں خیبر پختونخوا کے لوگوں کی کوئی اوقات ہے کیا یہ لوگ انسان نہیں اور اگر ہے تو یہ بتایا جائے کہ دہشت گردی کی کتنی وارداتیں یہاں پر موبائل فون کے ذریعے کی گئیں ان وارداتوں کی روک تھام کیلئے ہمارے انوکھے داخلے کے وزیر نے کیا اقدامات اٹھائے تھے کیا صرف پنجاب اور سندھ میں انسان بستے ہیں جن کیلئے حفاظتی اقدامات کئے جاتے ہیں- کیا یہ تعصب نہیں !

داخلے کے وزیر نے بیان بھی بہت بڑا ا دیا کہ اگر عیدپر موبائل فون سروس بند نہ کی جاتی توکئی بم پھٹنے کے خدشات تھے اور انہوں نے کامیاب حکمت عملی کرکے عوام کو تحفظ فراہم کردیا لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ بم کہاں کہاں پر نصب تھے جس سے دہشت گردی کاخطرہ تھا اور ان کی وزارت نے کونسے دہشت گرد کو گرفتار کیا جنہوں نے عید پرموبائل فون کے ذریعے دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی تھی نہ تو موبائل فون سامنے لائے گئے اور نہ ہی دہشت گرد بتائے گئے لیکن ہاں اب عجیب رنگ کے بالوں والے داخلے کے وزیر نے نیا بیان داغ دیا کہ پری پیڈ سمز بندنہیں کی جارہی ہیں بلکہ غلط ناموں سے لی جانیوالی موبائل فون سموں کو بند کیا جائیگا-

واقفان حال تو پری پیڈ سم بند کرانے کے اصل معاملے کو کچھ اور قرار دے رہے ہیںان کے مطابق وفاقی حکومت نے 2012 کی رقم ادا کرنی تھی تاہم وہ رقم ابھی تک ادا نہیں کی جاسکی جس کی وجہ سے وفاقی حکومت کو وارننگ دی گئی تھی کیونکہ اس رقم کی یقین دہانی وفاقی حکومت نے کی تھی اور ادائیگی جنوری 2012 میں کرنی تھی تاہم ادائیگی کی وارننگ ملنے کے بعد کمال کا ذہن رکھنے والے داخلے کے وزیر نے موبائل فون کمپنیوں سے رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جسے سب کمپنیوں نے متفقہ فیصلہ کے تحت مسترد کردیا جس پر کمپنیوں کو عید کے موقع پر بارہ گھنٹے سروس بند رہنے کی صورت میں اربوں روپے کے نقصان کی دھمکی دی گئی تاہم اس کے باوجود تمام کمپنیوں نے رقم کی ادائیگی سے انکار کردیا اس انکار کے بعد اہم شہروں میں دہشت گردی کے نام پر چاند رات کو تمام موبائل کمپنیوں کی سروس بند کردی گئی اور عید کی صبح دس بجے تک بند رکھنے اور موبائل کمپنیو ں کو جھٹکا دینے کے بعد موبائل فون کمپنیوں سے پھر رابطہ کیا گیا تاہم انکے انکار کے بعدتمام کمپنیوں کو پری پیڈ سروس بند کرنے کی دھمکی دی گئی اور یہی دھمکی کام کر گئی اور موبائل فون کمپنیوں کے مالکان پشتو مثل کے مصداق "لکیر پر سر" رکھ گئے اور رقم کی ادائیگی کرنے کیلئے کمپنیوں کے مالکان نے مشورے شروع کردئیے جس کے بعد ہمارے داخلے کے وزیر کی زبان بھی تبدیل ہوگئی اور پری پیڈ سمز کے بیان سے پھرنے کے بعد اب انہوں نے جعلی ناموں سے سمز کے خاتمے کا اعلان کردیا-

ہمیں حکمرانوں کے اتنے بڑے کھیل کی سمجھ نہیں آتی اور نہ ہی ہم سمجھنا چاہتے ہیں لیکن ایک بات جو اس ملک کا ہر شہری سمجھنا چاہتا ہے کہ اگر موبائل فون کمپنیوں کو یہی سبق عوام کو سہولیات کی فراہمی پر دیا جاتا تو کتنا اچھا ہوتا کیونکہ ان کی " لاجواب سروس" اور رات بھر لگے رہو کے پیکجز نے ہماری نوجوان نسل کا تو بیڑہ غرق کردیا ہے اور تو اور ایک سو روپے کے "ایزی لوڈ" جسے ہمارے ہاں " بابا کا ایزی لوڈ'" بھی کہتے ہیں میں اٹھارہ روپے ٹیکس کاٹنے کے علاوہ موبائل فون کے ذریعے رابطہ کرنے پر بھی ٹیکس عائد ہے اور ہم جیسے " فقیر"تو روتے ہیںکہکل تو 100 روپے کا ایزی لوڈ کیا تھا اب پتہ نہیں کہاں غائب ہوگیا کیونکہ موبائل فون کمپنیاں تو صارفین کو ایسے لوٹتی ہیں جس طرح ہمارے ائیرپورٹ پر تعینات مختلف اداروں کے اہلکار بیرون ملک سے واپس آنیوالے "مسافروں "کو لوٹتے ہیں-لیکن جس طرح ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں اسی طرح موبائل کمپنیوں سے بھی کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی اخبار / ٹی وی چینل یا ریڈیو آواز اٹھاتے ہیں کیونکہ ان کے اشتہارات کے دم سے ان کا کاروبار چل رہا ہے -

آہ بات کہاں سے کہاں تک نکل گئی پاکستانی موبائل فون کے ذریعے ایس ایم ایس کے استعمال میں بھی بہت تیز ہیں اسی وجہ سے موبائل کمپنیوں نے ان کیلئے خصوصی پیکجز جن میں رات بھر لگے رہو اور سب کچھ کہہ دو شامل ہیں جیسے پیکجز متعارف کروائے ہیں مسائل میں گھری اس قوم کا نوجوان طبقہ بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال ہے، مگر وسائل کی کمی کے باعث اس کی صلاحیتیں سنجیدہ کاموں کی بجائے اس طرح کی غیر تعمیری سرگرمیوں کی جانب لانے کا سہرا بھی موبائل کمپنیوں کو ہی جاتا ہے موجودہ حکومت کے وجود میں آنے کے بعد 2009 کے آغاز میں بے پناہ لوڈشیڈنگ، دہشتگردی، مہنگائی اور امن و امان کی خراب صورتحال سے تنگ آئے اس نوجوان خون نے حکمرانوں کے کیخلاف ہتک آمیز پیغامات موبائل فون کے ذریعے ایک دوسرے کو بھیجنے شروع کردیئے۔ جس نے اہل اقتدار کے ہوش اڑا دیئے تھے اور ہمارے انوکھے داخلے کے وزیر نے قانون بنا دیا کہ کہ آئندہ اس طرح کا پیغام بھیجنے والے کو 7 سال تک قید کی سزا دی جاسکے گی۔ تاہم اب نوجوان ایس ایم ایس پیغام کے آخر میں "سمجھ گئے میں کس کا ذکر کررہا ہوں " کے انوکھے طریقے سے اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں سو ہمارا اپنے "خوبصورت " بالوں والے داخلے کے وزیر سے گزارش ہے کہ "انوکھی "قوم پر رحم کرے اور "انوکھے " اقدامات سے ہمیں مزید "انوکھا" نہ کریں-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498172 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More