شاہ احمد نورانی زمانہ ساز مدبر اور دیدہ ور رہنماء ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دو ستمبر 2012 بروز اتوار مولانا نورانی کی 9 ویں برسی پر خصوصی تحریر

تاریخ انسانی گواہ ہے کہ ہمیشہ اہل حق،کفرو منافقت اور باطل قوتوں کے خلاف نہ صرف سینہ سپر رہے ہیں انھوں نے طاغوتی قوتوں کا ڈٹ کرمردانہ وار مقابلہ کیااوراسلام کے پرچم کو کبھی بھی کسی یزیدی دربار میں سرنگوں نہیں ہونے دیا،اُن اہل حق کی نگاہیں ہمیشہ منزل مقصود پر رہی،کارواں میں کون شامل ہوا اور کون چلاگیا،کس نے کس موڑ پر مجبوریوں کا بہانہ بنایا اور کس نے مصائب وآلام سے گھبراکر یا خار دار راہوں میں تھک کرساتھ چھوڑ دیا،نادان دوستوں کی مخالفت،دانا دشمنوں کی تباہ کن سازشیں یا جماعت کی آستینوں میں بت،وہ اِن تمام باتوں اور اندیشوں سے بے نیاز ہوتے ہیں اور الزامات کے خارزاروں،مخالفت کی پر خطر گھاٹیوں اور بغض او ر حسد کے کانٹوں کی پرواہ کیے بغیر عازم سفر رہتے ہیں،انھیں وقت کی کوئی بھی رکاوٹ،اذیت ناک ماحول، حوادث اور ناخوشگوار واقعات،لمحے بھر کیلئے بھی بے چین نہیں کرسکتے،وہ خنداں پیشانی کے ساتھ مسکراہٹیں تقسیم کرتے ہوئے دلوں کو فتح کرتے ہیں اور دنیا کے نقشے بدلتے چلے جاتے ہیں،ایسے مردان حق روز روز پیدا نہیں ہوتے مفکر اسلام علامہ اقبال ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں
تجھے معلوم بھی ہے کچھ کہ صدیوں کے تفکر سے
کلیجہ پھونک کر کرتی ہے فطرت اک بشر پیدا

حقیقت بھی یہی ہے کہ صدیوں کے الٹ پھیر اور افلاک کی ہزاروں گردشوں کے بطن سے ایک ایسا دانائے
راز پیدا ہوتا ہے جس کی جہد مسلسل سے ریگستانوں کو سیراب کرنے والے ہزاروں چشمے پھوٹتے ہیں،اُس کے نفس شعلہ بار سے سحرنو کا پیغام لے کر لاکھوں آفتاب طلوع ہوتے ہیں ۔

بیسویں صدی کا آغاز اُمت مسلمہ کیلئے جن بدترین حالات میں ہوا،اُس کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،لیکن اِس تاریک دور میں اللہ ربّ العزت نے اپنے خصوصی فضل و کرم سے ایسے منتخب افراد سے اُمت کو نوازا جنھوں نے ہر میدان میں چومکھی لڑائی لڑی اورظلم و استحصالی نظام کا سینہ چیر کر شمع رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی کو اِس طرح سے پھیلایا کہ غفلت، غلامی اور ناامیدی کے سائے چھٹ گئے اور احیائے اسلام اوراُمت مسلمہ کی اجتماعی وحدت و عالمگیر قوت کی حیثیت سے ابھرنے کے آثارنو پیدا ہونے لگے،موجودہ صدی میں جن نفوسِ قدسیہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ کام لیا،اُن میں حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کو ایک ممتاز حیثیت اور منفرد مقام حاصل ہے،یکم اپریل 1926کومبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی صاحب کے گھر پیدا ہونے والے اِس فرزند ارجمند نے اپنے ایمان،ضمیراور نسبی تقاضوں کوسامنے رکھ کر احقاق حق اور ابطال ِ باطل کی جو شمع روشن کی وہ احیائے اُمت کی عالمی تحریک بن کے مشرق و مغرب کے دور دراز گوشوں تک پھیل چکی ہے ۔

مولانا نورانی کا خاندان قومی اور ملّی حوالوں سے نمایاں خدمات کی شاندار روایات کا امین ہے،آپ کے آباؤ اجداد عرب سے آکر میرٹھ میں آباد ہوئے،یہ وہی میرٹھ شہر ہے،جہاں کے حریت پسند غیور مسلمانوں نے انگریز کے خلاف 1857 میں جنگ آزادی کا آغاز کرکے تحریک پاکستان کی بنیاد رکھی اوراس تحریک آزادی کی آبیاری میں مولانا نورانی کے خاندان کا بھی حصہ رہا،مولانانورانی کے خاندان کا شمار میرٹھ کے مشہور علمی اور صوفی گھرانوں میں ہوتا تھا،آپ کے دادا شاہ عبد الحکیم میرٹھ کی شاہی مسجد کے خطیب تھے،برصغیر کے مشہور ادیب و شاعر مولانا اسمعیل میرٹھی آپکے دادا کے سگے بھائی تھے،مشہور عالم دین مولانا مختار احمد صدیقی،مولانا بشیر احمد صدیقی اور مولانا نذیر احمد خجندی،آپ کے والدمولانا عبد العلیم صدیقی کے سگے بھائی تھے،مولانا نورانی کے تایا مولانا نذیر احمد خجندی صدیقی بمبئی کی جامع مسجد کے خطیب تھے،جن کے دست اقدس پر قائد اعظم کی ہونے والی بیوی رتن بائی نے اسلام قبول اور آپ نے قائد اعظم کا نکاح پڑھایا،مولانا نذید خجندی نے تحریک خلافت میں فعال کردار ادا کیا اور گرفتار بھی ہوئے،آپ کے والد علامہ عبد العلیم صدیقی جن کی تدفین جنت البقیع میں اُم المو منین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قدموں میں ہوئی،نامور عالم دین،خطیب اور مبلغ اسلام تھے،آپ کی تبلیغ مساعی کے نتیجے میں ساٹھ ہزار سے زائد غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا ۔

مولانا شاہ احمد نورانی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی،آٹھ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا،تجوید وقرات کی تعلیم مدینہ منورہ میں مشہور قاری الشیخ حسن الشاعر سے حاصل کی،1944 میں اٹھارہ سال کی عمر میں درس نظامی کی تکمیل کی،آپ کی دستار بندی مفتی اعظم ہند فرزند اعلیٰ حضرت مولانا شاہ مصطفی رضا خاں،صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادی،والد گرامی مبلغ اسلام مولاناشاہ عبدالعلیم صدیقی اور آپ کے استاد محترم مولانا غلام جیلانی میرٹھی علیہم الرحمہ نے کی،1945 میں 19 سال کی عمر میں آپ نے ا لٰہ آباد یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کرتے ہی سیاست میں عملاً حصہ لینا شروع کردیا،1946 میں آپ نے مسلم نوجوانوں کی تنظیم” نیشنل گارڈ “کی بنیاد رکھی اور انتخابات میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ کی کامیابی کیلئے بھر پور جد و جہد کا آغاز کیا،1947 میں پہلی مرتبہ سیاست میں حصہ لینے پر ڈیفنس انڈیا رولز کے تحت گرفتار ہوئے اور دو ہفتے کیلئے جیل گئے،علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی 1948 میں والد ماجد کے ہمراہ پاکستان تشریف لائے اور 1953 میں قادیانیوں کے خلاف تحریک ختم نبوت میں بھر پور حصہ لے کر پاکستان میں اپنی مذہبی وسیاسی زندگی کا آغاز کیا ۔

بارہ سے زائد زبانیں جاننے اورخالی ہاتھ با عزت وباوقار زندگی گزارنے والے مولانا شاہ احمد نورانی پر کشش و باکمال شخصیت کے مالک تھے،آپ بزرگوں اور اسلاف کے کمالات سے مزّین،نجابت و شرافت کا نمونہ،وقار و تمکنت کا خزینہ،ظاہر ی و باطنی لطافت و نظافت کا مجسمہ،حسن و جمال و فضل و کمال کے عظیم پیکر اور عاجزی و انکساری کی اعلیٰ مثال تھے،مولانا نورانی اپنی ذات کے بارے میں انتہائی کم گو اور منکسرالمزاج تھے،آپ کی ساری زندگی اعلائے کلمتہ الحق کی جدوجہد میں گزری،اتحاد اُمت کی تڑپ اور بلاد کفر میں اشاعت اسلام اور عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ آپ کی زندگی کے بنیادی نصب العین رہے،آج مولانا نورانی کی ذات مبارکہ صرف پاکستان ہی کیلئے نہیں بلکہ اُمت مسلمہ اور پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے سرمایہ افتخار ہے،آپ ایک نادر روز گار مفکر،بے باک قائد،زمانہ ساز مدبر،ایک حیات آفریں شخصیت کے مالک،انقلاب نظام مصطفی کے نقیب اور سب سے بڑھ کر تسلیم و رضا کے پیکر اور سچے عاشق ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے،آپکی 78 سالہ زندگی دین اسلام کے عملی نفاذ،دینی قوتوں اور جمہوری اداروں کی فروغ وبقاء،پاکستان کے استحکام و سالمیت،مسلم وحدت کی جہد مسلسل اور احیائے اسلام و کفر کے خلاف عالم اسلام کی بیداری سے عبارت ہے ۔

مولانا نورانی ایسے ہی منتخب مجاہدین میں سے ہیں،جنھوں نے عصر حاضر میں علمی فکری اور روحانی و مذہبی محاذ پربھر پور جہاد کیا،آپ زوال آشنا ملت اسلامیہ کی نشاطِ ثانیہ کی علامت اور عصرِ حاضر میں قوت و اقتدار کے بدلتے ہوئے معیاروں کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی بھر اسلام کے عادلانہ سیاسی،سماجی،ثقافتی اور اقتصادی نظام کے قیام کیلئے مصروف جہاد رہے،آپ کی تکبیرِ مسلسل دشت وصحرا،شہر اور بیابانوںمیں زندگی بھرصدائے حق بلند کرتی رہی،آپ کی ساری زندگی طاغوتی نظام کے علمبرداروں کے خلاف ایک چیلنج،بھٹکے ہوئے کارواں کی نقیب،بھولے ہوئے نغموں کی ایک صدا،ملت کے درد کا درماں،بے قرار دلوں کی دھڑکن اور صدیوں کی حرماں نصیبی کے بعد ایک اُمیدکی کرن کی مانند رہی،آپ نے تشکیک و اضطراب کے اِس پر فتن دور میں لاکھوں قلوب و اذہان کو ایمان اور یقین کی لازوال دولت سے سرفراز کیا،عصرحاضر میں آپ نظامِ مصطفی کی اصطلاح کے نہ صرف خالق بلکہ قافلہ انقلاب ِ نظامِ مصطفی کے میر کارواں بھی رہے،آپ اُمت کو ماسکو اور واشنگٹن کے بجائے گنبدِ خضراءکا راستہ دکھانے والے تھے،آپ فرمایا کرتے تھے ”ہماری منزل اسلام آباد نہیں بلکہ اسلام ہے،ہمارے سفر کی منتہائے معراج لندن،پیرس اور واشنگٹن نہیں بلکہ مکّہ مکّرمہ اور مدینہ منورہ ہے۔“ اس لیے آپ نے اقتدار کے بجائے ہمیشہ حزبِ اختلاف کی سیاست کی،تحریک ختم نبوت 1953 سے لیکر 11، دسمبر 2003 تک،حزبِ اختلاف کی سیاست کا اتنا طویل،حوصلہ شکن اور صبر آزما سفر کوئی مرد قلندرصاحبِ عزیمت واستقامت ہی طے کر سکتا ہے ۔

تاریخ نے لیلائے اقتدار کی بھول بھلیوں میں جہاں وقت کے نامی گرامی افراد کو گم ہوتے،اسلام کو اپنی منزل قرار دینے والوں کو اسلام آباد کے اسٹیشن پر اُترتے اور فوجی آمروں کی آغوش میں وزارتوں کے مزے لوٹتے دیکھا ہے،وہیں تاریخ اِس بات کی بھی گواہ ہے کہ مولانا نورانی وہ واحد دیدہ ور،حق پسند و حق آگاہ اور صاحبِ بصیرت رہنما تھے،جنہوں نے جنرل ایوب خان،جنرل آغا محمد یحییٰ خان،ذوالفقار علی بھٹو،جنرل محمد ضیاءالحق،نواز شریف اورجنرل پرویز مشرف تک ہر آمر وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمہ حق بلند کیا،آپ قومی اسمبلی،سینٹ اور عوامی فلور ہر مقام پر بہادر نڈر،بیباک،حق وصداقت اورنہ جھکنے اور نہ بکنے والی قیادت کی علامت تھے،مولانا نورانی زندگی بھر اپنے ہدف اور مشن پر ڈٹے رہے،پائے استقامت میں معمولی سی لغزش بھی آپ کو گوارہ نہ تھی،لیلائے اقتدار کی غلام گردشیں،بھول بھلییاں اور کشش کبھی اِس غلامِ مصطفی کو اپنے دامِ فریب میں نہ الجھا سکی اور وہ دیوانہ مصطفی اسوہ شبیّری کی پیروی کرتا ہوا وقت کے ہر آمرکے سامنے کلمہءحق بلند کر تادکھائی دیا،مولانا نورانی اُن معدودے چند علماو سیاستدانوں میں سے تھے جن کے دامن پر نہ تو سول و فوجی آمروں سے سمجھوتے کا کوئی داغ تھا اور نہ ہی حکمرانوں کی مراعات اور ایجنسیوں کی نوازشات کی کوئی چھینٹ تھی،جس طرح ایک سچے عاشق رسول کی زندگی کا ہر پل اور ہر لمحہ اپنے محبوب کی اتباع اور پیروی میں گزرتا ہے،بالکل اُسی طرح مولانا نورانی کی زندگی کا زیادہ تر حصہ پاکستان اور بالخصوص دنیا بھر میں احیائے اسلام اور تحفظ ناموس رسالت کی جدوجہد میں گزرا ۔

مولانا نورانی مسلم قومیت اور اتحاد بین المسلمین کے علمبردار اور ملک میں نظام مصطفی کے نفاذ کے داعی تھے،اپنی عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد سے لے کر اپنے وصال تک مولانا نورانی کی زندگی کا اِک اِک پل نظام مصطفی کے نفاذ،مقام مصطفی کے تحفظ،عالم اسلام کی یکجہتی اور دین اسلام کے غلبہ و سربلندی کی جدوجہد میں گزرا،مولانا نورانی ایک دیدہ ور، صاحبِ نظرو بصیرت،زہد و تقویٰ،مظہر صدق و صفا،مردِ حق آگاہ،نابغہ روز گار،عالم با عمل،قائد ِ بے مثال،عالمی مبلغ و داعی اور امام اُمت تھے،آپ نے فکرو عمل کے جوچراغ روشن کیے وہ صدیوں تک تاریک راہوں پر مسافرانِ حق کیلئے علم و عمل کی روشنی بکھیرتے رہیں گے،آج آپ کی سادگی،متانت،خوش مزاجی،خوش گفتاری اور اصول پرستی یاد رہ جانے والی باتیں بن کر رہ گئیں ہیں اور آپ کی وفات سے پاکستانی سیاست ایک تجربہ کارمنجھے ہوئے پارلیمینٹیرین اور قد آور بین الاقوامی مذہبی و سیاسی شخصیت سے محروم ہوگئی ہے ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358008 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More