مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ایک
وقت تھا جب دہلی کے لال قلعے پر پاکستانی پرچم لہر انے کی باتیں عام ہوا
کرتی تھیں اور کشمیر بنے گا پاکستان کے فلک شکاف نعرے فضاﺅں میں ایک ہیجان
برپا کر دیا کرتے تھے ۔کشمیر کی آزادی اور بھارت سے جنگ کا جذبہ پاکستانیوں
کے تن بدن میں پارے کی مانند دوڑا کرتا تھااور وہ اپنی اس سوچ پر دل و جان
کی بازی لگانے کے جذبوں سے معمور ہوا کرتے تھے۔ ذولفقار علی بھٹو کی سلامتی
کونسل میں شعرہ آفاق تقریر جس میں اس نے بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ کرنے
کا عزم ظاہر کیا تھا پوری قوم کی آواز بن گئی تھی اور اس نے کشمیر کی آزادی
کے جذبوں کو تیز تر کرنے میں مہمیز کا کام کیا تھا۔ اس وقت سیاسی اور مذہبی
راہنماﺅں کا سارا زور بھارتی دشمنی اور نفرت میں صرف ہوا کر تا تھا لیکن آج
کل یہ منظر بالکل دکھائی نہیں دیتا ۔ مذہبی جماعتوں کا ہدف اب بھارت کی
بجائے امریکہ بنا ہوا ہے لہذا و ہ قوتیں جو کل تک امریکہ زندہ باد کے نعرے
لگا یا کرتی تھیں اب امر یکہ مردہ باد کے نعرے لگا رہی ہیں اور حکومت کو
مجبور کرنے کےلئے قریہ قریہ د ھا ئی دے ر ہی ہیں کہ امریکہ سے تعلقا ت
منقطع کئے جائیں کیونکہ امریکہ اسلام اور پاکستان کا کٹر دشمن ہے۔ انکی
شدید خوا ہش ہے کہ عوا م ان کی خود ساختہ سوچ پر لبیک کہہ کر ان کی آواز
میں آواز ملا کر امریکہ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں۔حد تو یہ ہے کہ وہ دوسر
و ں کو اختلافِ رائے کا حق دینے کےلئے بھی تیار نہیں ہیں اور جو کوئی ایسا
کرنے کی جرات کرتا ہے اس کے خلاف زہر آلود پرو پیگنڈ ہ کر کے اسے یا تو موت
کے گھاٹ اتار دیتے ہیں یا اسے ملک بدری پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ دفاعِ
پاکستان کو نسل کے جلسے، جلوس اور ریلیاں اسی بات کا ثبوت ہیں کہ مذہبی
جماعتیں امریکہ کے خلاف کھل کر بر سرِ پیکار ہیں اور ہر حال میں امریکہ سے
تعلقا ت ختم کرنے کے درپے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اسکے نتائج کیا ہونگے
۔انکی امریکہ سے یاری تھی تو سبکو اس یاری کےلئے مجبور کیا اور سب کو اس
گیت( یاری ہے ایمان میرا یار میری زندگی) کی لے پر محوِ رقص ہو نے کا پابند
کیا تھا اور اب دشمنی ہے تو سب کو مجبور کر رے ہیں کہ امریکی دشمنی کا
اعلان کرو نہیں تو تمھاری خیر نہیں ۔ا مریکہ سے دوستی تھی تو پھر ڈنکے کی
چوٹ پر دوستی تھی اور برسرِ عام اس کا اظہار بھی ہو تا تھا ۔ یہ اسی دوستی
کا ثمر تھا کہ 1977 امریکہ نے ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف قومی
اتحاد کو ڈالروں سے لادا تھا۔ اس وقت امریکی دوستی اسلا م اور پاکستان سے
دشمنی کے زمرے میں نہیں آتی تھی کیونکہ اس وقت ذولفقار علی بھٹو کو راستے
سے ہٹا کر اقتدار کے ثمرات سے بہرہ ور ہو نے کا سوال تھا لہذا مذہبی
جماعتوں نے امریکہ کے سامنے سر نگوں ہونے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کی
تھی۔ ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی جنرل ضیا لحق ، مذہبی جماعتوں اور امریکہ
کی ملی بھگت کا شاخسانہ تھا ۔ تار یخ ایک دفعہ پھر خود کو دہرا رہی ہے ایک
دفعہ پھر پی پی پی کی حکومت ہے جو موجودہ بین الاقوامی تناظر میں امریکی
دوستی کو ملکی سلامتی اور ترقی کےلئے نا گزیر سمجھتی ہے جبکہ مذہبی جماعتیں
امر یکی دشمنی کا ڈھونگ رچا ئے ہو ئی ہیں تا کہ پی پی پی کی حکومت سے
امریکہ اور نیٹو اقوام ناراض ہو جائیں اور پی پی پی کی حکومت عالمی تنہائی
کا شکار ہو کر اپنی اہمیت کھو دے اور اقتدار سے اسکی رخصتی آسان ہو جائے۔
نیٹو سپلائی کے معاملے میں مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے حکومتی فیصلے پر قوم
میں ہیجانی کیفیت پیدا کر کھی ہے اور نیٹو سپلائی کی بحا لی کو پاکستان کی
عزت وآبرو کامسئلہ بنا رکھا ہے۔ میڈیا بھی انہی کی لے پر رقص کر رہا ہے جسے
دفاعِ پاکستا ن کونسل شدو مد سے اٹھا رہی ہے۔ پاکستان کے باشعور عوام یہ
بات بخو بی جانتے ہیں کہ دفاعِ پاکستان کا ریمورٹ کس کے پاس ہے اور کون ہے
جو ان کی طنابیں کھینچ کر انھیں امریکی دشمنی پر ابھار رہا ہے۔یہ ایک ننگی
حقیقت ہے کہ خفیہ ایجنسیاں امریکی تعلقات کو جان بوجھ کر خراب کرنے کی
کوششوں میں مصروف ہیں ۔ کاش وہ جان پاتیں کہ امریکی دشمنی کے ساتھ جنوبی
ایشیا میں اپنی بقا کی جنگ لڑنا پاکستان کےلئے کتنا مشکل ہے ۔ بھارت تو اسی
لمحے کا منتظر ہے کہ پا کستان سے امریکہ کے تعلقات خراب ہوں اور امریکہ
پاکستان سے ناراض ہو کر بھارتی سر پرستی کےلئے آگے بڑے اور وہ اپنے ا کھنڈ
بھارت کے خو اب کو شرمندہِ تعبیر کرسکے ۔میمو گیٹ سکینڈل اسی تناظر میں
اچھا لا گیا تھا لیکن یہ تو حکومت کی بالغ نظری تھی جس نے مخالفین کی سازشو
ں کو ناکام بنا دیا ۔ وار تو بڑا کاری تھا لیکن حکومتی عمائدین کی بر وقت
مداخلت نے ایجنسیوں کے اس کاری وار کو بے اثر کر کے رکھ دیا ۔کچھ حلقوں کی
کوشش تھی کہ مقدمے میں صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو ملوث کیا جائے تاکہ
ایوانِ صدر سے انکی رخصتی کی راہ ہموار ہو جائے لیکن حکومتی مخالفین ایسا
کرنے میں ناکام رہے ہیں یہ الگ بات کہ میمو گیٹ کمیشن نے جو رپورٹ مرتب کی
اس میں حسین حقانی کو میمو لکھنے کا محرک قرار دیا۔ چیف جسٹس ا فتحار محمد
چوہدری نے ایک نو رکنی بنچ بھی تشکیل دے رکھا ہے اب اس کاروائی کا ھد ف کون
ہو گا اور اس بہانے کس کی پگڑی اچھا لنے کی کوشش کی جائےگی کچھ بھی کہنا
قبل از وقت ہے۔ ساری چالیں وقت آنے پر خود بخود واضح ہو تی چلی جائینگی
لیکن اس مقدمے سے ایک نقصان ضرور ہوا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں
دراڑ یں پیدا ہو گئیں جنھیں آسانی سے پر کرناانتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
پاک امریکی تعلقات اس وقت انتہائی نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ بد اعتمادی دن
بدن بڑھتی جا رہی ہے اور ہم امریکہ سے تصادم کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ڈرون
حملے دن بدن تیز ہوتے جا رہے ہیں ۔ نیٹو سپلائی کی بحالی ابھی تک معرضِ
التوا میں ہے ۔ اوبامہ انتظامیہ افغانستان کے حل میں بھی پاکستان کو نظر
اندا ز کر رہی ہے جس سے پاکستان دنیا بھر میں مزید تنہا ہو تا جا رہا ہے۔
شکاگو کانفرنس سے بہت سے امیدیں وابستہ کی گئی تھیں لیکن سب کچھ ہماری
خواہشوں کے بر عکس ہو گیا اور ہمیں ایک دفعہ پھر امریکہ کے ساتھ تصادمی
رویہ اختیار کرنا پڑا۔ بجٹ میں مالی خسارے کو قابو کرنے کی مشکلا ت اپنی
جگہ بڑی اہم ہیں ۔ حکومت پر امید تھی کہ امریکی معا ونت سے ان مالی معاملات
سے باہر نکل آئےگی لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔ مالی مشکلات کا اندازہ اس حقیقت
سے لگا یا جا سکتا ہے کہ گیس اور بجلی کی عدمِ دستیابی کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ
ایک سنگین مسئلے کی صورت اختیار کر چکی ہے لیکن اپوزیشن ہے کہ امریکی د
شمنی کا ڈھول پیٹتے جا رہی ہے ۔ مذہبی جماعتوں کو حکومت کی مدد کرنی چائیے
تھی تا کہ وہ امریکی امداد و تعاون سے ملک کو مسا ئل سے نکالنے کی کوشش
کرتی اور پھر امریکی امداد پی پی پی کی حکومت کو ئی پہلی دفعہ نہیں لے رہی
بلکہ یہ وطیرہ تو ہر حکومت کا تھا اور پھر دھشت گردی کی جنگ کی وجہ سے
امریکی امداد سے اپنے مسائل کو حل کرنا پاکستا ن کا حق تھا ۔ نیٹو سپلائی
کی بحالی پرجن لوگوں نے آجکل عوامی جذبات کو بڑھکانے کا بیڑہ اٹھا یا ہوا
ہے انکی تو اپنی حکومت میں نیٹو سپلائی بڑے زورو شور سے جاری تھی لیکن مو
جو دہ حکومت کو دباﺅ میں لانے کےلئے اسطرح کے ہوے کھڑ ے کئے جا تے ہیں تاکہ
وہ معاشی مشکلات میں گری رہے اور اپنے عوامی فلا ح و بہبود کے ایجنڈے پر
عمل پیرا ہو کر دوبارہ اقتدار میں نہ آجائے ۔نیٹو اور امریکہ کے باہمی
اشتراک کی صورت میں جنم لینے والے تصا د م کی صورت میں ہم ایک پنجر ے میں
بند ہو کر رہ جائینگئے لہذا حکومت کو اس مشکل صور تِ حال سے نکلنے کےلئے
اپنے دوست ممالک کی مدد لینی چائیے تا کہ ہم تصادم کی راہ پر آنے سے بچ
جائیں۔۔
ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں مذہبی جماعتوں نے جو خاک اڑائی گئی تھی اسکا احو
ال بچہ بچہ جانتا ہے ۔ ایک طوفان تھا جو چاروں طرف مچا یا گیا تھا اور
ریمنڈ دیوس کے سر کی قیمت مقرر کر دی گئی تھی ۔ مذہبی جما عتو ں نے جسطرح
اس واقعہ سے کفر اور اسلام کی جنگ کا منظر تراشا تھا وہ ا نہی کا حصہ ہے۔
مذہبی جماعتوں کی حتی الوسع کوشش ہے کہ پاک امریکی تعلقات میں بگاڑ پیدا کر
کے پاکستان کو امریکہ کے مدِ مقابل کھڑا کر دیا جائے تاکہ موجودہ حکومت
امریکی غیض و غضب کا شکار ہو کر ڈھیر ہو جائے اور ان کی لاٹری نکل آئے۔
مذہبی جما عتیں چونکہ تصوراتی دنیا میں رہتی ہیں اور دنیاوی حقائق سے بے
خبر ہو تی ہیں لہذا انھیں یہ احسا س نہیں ہو تا کہ وہ جن حقائق پر اپنی
دنیا تعمیر کرنا چاہتی ہیں اسکے نتا ئج کتنے خطر ناک ہو سکتے ہیں۔ مشرقی
پاکستان میں بھی مذہبی حلقوں نے اسی طرح کی بھڑکیں ماری تھیں اور منہ کی
کھائی تھی ۔ جنگیں بھڑکوں سے نہیں بلکہ بہتر ٹیکنالوجی مہارت، جدید اسلحے
اور قومی یکجہتی کے زور پر لڑ ی جاتی ہیں جس سے ہم فی ا لحال محروم ہیں ۔ا
مریکہ کا صرف دفاعی بجٹ750ب ڈالر ہے جبکہ ہمارا دفاعی بجٹ دس ارب ڈالر سے
بھی کم ہے ۔ جدید ترین ٹیکنالوجی اور جدید ترین اسلحے کی فراوانی میں
امریکہ کے ساتھ ہمارا کوئی جوڑ نہیں ہے ۔ ہم تو بھارت جیسی قوت کا مقابلہ
کرنے کی بھی پوری سکت نہیں رکھتے اور کئی دفعہ اس سے لڑائی کے میدان میں ہز
یمت سے بھی دو چار ہو چکے ہیں ۔بنگلہ دیش کا قیام اور اس میں نوے ہزار
فوجیوں کے ہتھیار پھینکنے کے منظر کو کون فراموش کر سکتا ہے لیکن اسکے
باوجود ہمارے رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ قوم کرپشن ، بے ایمانی،
دھوکہ دہی ،لو ٹ کھسوٹ ، جھوٹ ، بد دیانتی اور حرص و طمع کے اندر مکمل طور
پر دھنس ہوئی ہے اور ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو قربان کرنے کےلئے ہمہ
وقت تیار بیٹھی ہو ئی ہے ۔اگر ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ امریکہ سے پنجہ
آزمائی کرنی ہے تو پھر اس کےلئے ایک ہی راستہ ہے کہ قومی یکجہتی کو یقینی
بنا یا جائے۔ قوم کے اندر اعلی کردار اور کریکٹر کی اہمیت کو اجا گر کیا
جائے۔ دولت کو الہ بنانے کی بجائے خود کو مستقل اقدار کی پیروی کا پابند
بنا یا جائے۔ امارت و غربت کے درمیان تفاوت کو کم کیا جائے اور انسان ہو نے
کے ناطے سب کو واجب التکریم تصور کیا جائے۔ جب ایک قوم تشکیل پا جائےگی تو
ترقی کے سارے دروازے خود بخود کھلتے جائیں گئے لیکن اس منزل کی جانب کوئی
قدم اٹھانے کےلئے تیار نہیں بلکہ ذاتی مفادات کی خاطر قوم کو مزید انتشارو
افتراق کا شکار کرنے کےلئے کوششیں جاری ہیں تا کہ سب کی دوکان داری چلتی
رہے۔۔۔ |