خود کش حملے ۔۔۔وجوہات اور شکوک کے تناظر میں

9/11کے بعد امریکی افواج جب افغانستان پر مکمل طور پر قابض ہوگئیں تو امریکی تھنک ٹینک کو سب سے بڑی پریشانی ان طالبان کمانڈرز کی تھی جو افغانستان کی سنگلاخ پہاڑیوں میں بھی نہ مل سکے ان کمانڈرز میں سرفہرست اسامہ بن لادن اور ملا عمر تھے ۔امریکہ نے ان کمانڈرز کی تلاش کا بہانہ بناتے ہوئے نیٹو اور اپنے اتحادی افواج کو افغانستان کے چپے چپے میں اتار کر قتل و غارت شروع کر دی لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔امریکہ کو اس قتل و غارت گری پر بھی جب مطلوبہ نتائج نہ مل سکے تو امریکہ نے افغانستان سے ملحقہ ممالک کی طرف نگاہ دوڑائی ۔گو کہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ اور بھی ممالک متصل ہیں لیکن امریکہ کی نگاہ شک پاکستان پر ٹھہری اور اس طرح امریکہ نے اپنا حدف شمالی علاقہ جات کی طرف کر دیا ۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے نتیجہ یہی نکالا کہ افغان کمانڈر افغانستان سے بھاگ کر پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں پناہ گزین ہوئے ۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ایک وجہ غالباً یہی ہو سکتی ہے کہ افغانستان پاکستان سرحد بہت وسیع ہے جسکی وجہ سے اس بارڈر پر سیکورٹی انتظامات بھی نامناسب ہیں جسکی وجہ سے افغانستان سے افراد کا کسی بھی وقت پاکستان منتقل ہونا کوئی مشکل نہیں ہے ۔اس وسیع و عریض سرحد کا نقصان جہاں امریکہ سمجھتا ہے کہ اسے ہوا اس سے کہیں زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا اور ہو رہا ہے ۔افغانستان سے افغان باشندے باآسانی یہ سرحد پار کر کے پاکستان آ جاتے ہیں جس سے پاکستان کو نہ صرف معاشرتی مسائل کا سامنا ہے بلکہ بے شمار معاشی مسائل بھی جنم ہو رہے ہیں دوسرا اس سرحد سے غیر ملکی جاسوس بھی باآسانی پاکستان میں داخل ہو جاتے ہیں ۔امریکہ اگر اس سرحد پر غیر مناسب سیکورٹی سے نالاں ہے تو اس نامناسب سیکورٹی میں اقوام متحدہ کا بھی ہاتھ ہے پاکستان نے جب بھی افغان مہاجرین کو پاکستا ن سے بےدخل کر نے کا عندیہ دیا اقوام متحدہ سیخ پا ہو کرپاکستان کو ےہ اقدام کرنے سے روک دیا جس کی وجہ سے پاکستان کو اس طویل ترین سرحد پر سیکورٹی بارے مناسب اقدامات کرنے پر مشکلات پیش آرہی ہیں جس پر نہ اقوام متحدہ نے کوئی سنجیدہ اقدام کیا اور نہ ہی امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے ۔

طالبان کمانڈرز کی پاکستانی شمالی علاقہ جات میں پناہ گزین ہونے کی امریکہ شک کی دوسری وجہ وہ پروپیگنڈہ ہے جو بھارت نے کافی عرصے سے عالمی سطح پر پھیلایا ہوا ہے ۔بھارت کشمیر میں چلنے والی تحریک الحاق پاکستان اور تحریک آزادی کو دنیا کے سامنے ڈھونگ ظاہر کرنے کےلئے کافی عرصے سے یہ شور مچا رہا ہے کہ کشمیر کی آزادی کےلئے لڑنے والے کشمیری مجاہدین دراصل پاکستانی ہیں جنہیں پاکستان اپنے شمالی علاقہ جات میں فوجی ٹریننگ دینے کے بعد کشمیر بھیج دیتا ہے ۔بھارت کشمیر میں اپنی ناکامی کو چھپانے کی غرض سے سارا ملبہ پاکستان پر ڈلتا رہا جس سے پاکستان عالمی سطح پر بدنام ہوا اور طالبان حکومت کے بعد یہی کہا جانے لگا کے افغانستا ن میں طالبان دراصل وہ مجاہدین ہیں جو پاکستانی تھے اور پاکستان سے ٹریننگ لینے کے بعد افغانستان پر قابض ہو ئے ۔عالمی برادری پر بھارت کے اس پروپیگنڈے (پاکستان میں مجاہدین کو ٹریننگ دی جاتی ہے)کا اتنا اثر ہوا کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی سانحہ ہو جائے اسکے ملزمان مسلمان کہلاتے جس کی وجہ سے پوری دنیا مسلمانوں کو خاص کر پاکستانی مسلمانوں کو دہشت گرد گردانتی رہی اور گردانتی ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے 9/11کی کہانی گھڑی ہی پاکستان کےلئے ہو لیکن ان دو شکوک کے بعد امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا اگلا ہدف پاکستان ٹھہراامریکہ اور اسکے اتحادیوں نے طالبان کمانڈرز کی تلاش کے ساتھ ساتھ پاکستان سے اپنے سفارتی تعلقات مضبوط بنانا شروع کر دئے جس کے نتیجے میں مشرف حکومت نے 2004میں ڈرون حملوں کی اجازت دیکر قتل و غارت کا نیا سلسلہ شروع کر دیاڈرون حملوں کے شروع ہوتے ہی امریکہ اور اسکے اتحادی پاکستان کے اندر بھی فوج بھیجنے کےلئے پاکستانی حکومت سے تانے بننے شروع ہو گئے ۔امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو اپنے اس مشن کی کامیابی کےلئے اکتوبر2005کا زلزلہ ایک اچھا چانس ملا جو کو ضائع کرنے کے بجائے امریکہ نے اپنے جاسوس امدادی کارکنوں کی صورت میں کشمیر میں بھیج کر بعد ازاں پورے پاکستان میں پھیلا دئے یہ زلزلہ بھی اتنا شدید تھا کہ حکومت پاکستان فوراً مناسب اقدامات نہ کر سکی جس کی وجہ سے امریکہ اپنے مقصد میں کچھ حد تک کامیاب ہو گیا ۔ان جاسوسوں نے اپنا کام شروع کرتے ہی پاکستانی عوام کے ذہنوں کا اندازہ لگا کر بے شمار پاکستانیوں کو اپنے ساتھ ملا لیا امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو جب اپنے جاسوسوں کی طرف سے گرین سگنل ملا تو امریکہ نے پاکستانی افواج کے ساتھ مل کر شمالی علاقہ جات میں آپریشن شروع کر دیا جس میں پاکستانی افواج سے پاکستانی ہی ہلاک ہوئے کہاتو یہی جاتا رہا کہ اس آپریشن میں بے شمار دہشت گرد مارے گئے مگر ان دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ بے شمار بے گناہ افراد بھی مارے گئے جن کے اکا دکا بچ جانے والے عزیز و اقارب پاکستانی فوج اور پاکستانی حکومت کے ساتھ ساتھ ہر اس پاکستانی سے نفرت کرنے لگے جو اس آپریشن سے محفوظ رہے۔

ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی شمالی علاقہ جات آپریشن کے ساتھ تیز ہوتا گیا جس سے پاکستانی عوام کی نفرت بھی امریکہ اور اسکے اتحادیوں سے بڑھنا شروع ہو گئی ۔دہشت گرد کہلانے والا ملک خود دہشت گردی کاشکار ہو گیا جگہ جگہ خود کش حملوں میں جانوں کا ضیاع ہونا ایک معمول بن گیا مساجد ، بینک ، سکولز ، کالجز ، مارکیٹیں ، بازار ، بسیں ، کھیلوں کے میدان، جرگے ، جنازہ گاہیں ، لاری اڈے سب ہی جگہ دہشت گردی کی نظر ہو گئیں بے گناہ شہریوں کی جانیں ڈرون حملوں ، شمالی علاقہ جات آپریشن کے بعد خود کش حملوں کی بھینٹ چڑھنا شروع ہو گئیں جےسے جیسے دہشت گرد حملوں کا سلسلہ بڑھتا عوام کی حکومت اور امریکہ سے دشمنی و نفرت بھی بڑھنا شروع ہو جاتی ۔عوام کی اس نفرت کو بھانپتے ہوئے موجودہ جمہوری حکومت نے بھی امریکہ کو دو ٹوک جواب دینا شروع کردئےے جس کا آغاز آرمی چیف اور جنرل پاشا نے کیا ان ساڑھے چار سالوں میں کئی بار ایسے مواقع بھی آئے کہ ایسا لگتا تھا کہ امریکہ پاکستان پر چڑھائی کر دے گا مگر چائنا حالات کو بھانپتے ہوئے پاکستان کی حمائت کا ایک ہی بیان دیکر امریکہ کو چپ کر وا دیتا اور امریکہ دوبارہ سفارتی تعلقات کو دوستانہ رخ دیکر حالات کو اپنے قبضے میں کرنے پر تلا رہتا۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے دفاعی معاملات میں امریکہ سے مدد لےنے کے بجائے چائنا سے باقاعدہ استفادہ حاصل کرنا شروع کر دیا جس کی سب سے بڑی مثال جدید ترین ٹیکنالوجی سے ہمکنار JF17تھنڈر طیاروں کی ائیر فورس میں شمولیت سے ملتا ہے ۔2010میں پچاسJF17تھنڈر طیاروں کا پاکستان ائیر فورس میں شامل ہونا امریکہ کےلئے باعث حیرانگی بھی تھا اور سانحہ بھی ۔تب سے اب تک امریکہ کو اپنے پنجے پاکستان میں کچھ نرم ہوتے دکھائی دیتے ہیں مگر اس عرصے میں بلیک واٹر اور دوسری غیر ملکی جاسوسی کمپنیوں نے پاکستان میں اپنے پنجے اتنے مضبوط کر لئے ہیں کہ یہ کمپنیاں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ بے شمار سکلڈ پرسنز کو بھی اپنے ماتحت کر چکی ہیں جو پاکستانی حکومت کےلئے زیادہ ہی خطر ناک بات ہے۔

16اگست رات دو بجے کے قریب ہونے والے کامرہ بیس پر حملہ بھی ان حملوں کی ایک کڑی ہے جو پاکستان 6سال سے بھگت رہا ہے ان حملوں کی ایک وجہ تو وہ متاثرین لگتے ہیں کہ جن کے عزیز و اقارب ڈرون حملوں یاشمالی علاقہ جات آپریشن میں بے گناہ ہی موت کے منہ میں چلے گئے یہ بات کئی بار امریکہ جرائد کے ساتھ ساتھ بے شمار انٹرنیشنل جرائد بھی ثابت کر چکے ہیں کہ ان حملوں میں بے گناہ افراد زیاد ہ متاثر ہوتے ہیں مگر آج تک کسی نے اس بارے میں سوچا تک نہیں اسی بے حسی او ر بے گناہ قتل و غارت کی وجہ سے بھی دہشت گرد جنم لے رہے ہیں ےہ وہ دہشت گر دہیں جن کے بیوی بچے ماں باپ بہن بھائی بے گناہی میں ان حملوں کی بھینٹ چڑھ گئے ۔اجڑنے والے خاندان سے اکا دکا بچ جانے والے فرد انتقام کی آگ میں ایسا جلتا ہے کہ اس میں رحم کا مادہ بالکل ناپید ہو جاتا ہے اسے سکول جاتے بچوں ، بسوں پر لٹک کر جانے والے مسافروں، بینک کے باہر لائین میں کھڑی عوام ، گیٹ پر کھڑے گیٹ کیپرز ، میدان میں کھیلتے نوجوانوں حتیٰ کے قبرستا ن کی طرف جاتی لاش پر بھی رحم نہیں آتا کیونکہ اس کے خاندان کے افراد پر بھی کسی نے رحم نہیں کیا تو اب وہ کیوں کرے گا اور ویسے بھی انتقام کی آگ تو اندھا کر دیتی ہے اور یہ آگ تب ہی ٹھنڈی ہوتی ہے جب جسم سے روح کا رشتہ ٹوٹتا ہے ۔

جبکہ حالیہ کامرہ بیس پر حملہ کی ایک وجہ ےہ بھی لگتی ہے کہ پاکستان کے دشمن ان اربوں روپے مالیت جہازوں کو تباہ کرنے چاہتے تھے جن کی وجہ سے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہوا اور یہ وہی کر سکتے ہیں جو پاکستان کے ازلی و ابدی دشمن ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور شک بھی جنم لیتا ہے کہ ان جے ایف 17تھنڈر جہازوں کے ساتھ ساتھ کچھ جاسوسی طیارے بھی بیس پر تھے اور ان حملہ آوروں کا ہدف یہ جہاز بھی ہو سکتے تھے ۔اگر تو حملہ آوروں کا ٹارگٹ یہ جاسوسی طیارے تھے پھر تو نئے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں شک سے بھرا ایک سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ اس حملے کے فوراً بعد امریکی سنٹرل کمانڈر کے سربراہ جنرل جیمز میٹس نے پاکستان کا دورہ کیوں کیا؟اگر حملہ آور موت کر سودا کر کے حملہ کرتے ہیں تو پھر ےہ خود کش جیکٹ سے ہی اپنے آپ کوکیوں اڑا دیتے ہیں؟؟کیا یہ فوج کے ہاتھوں مرنا نہیں چاہتے یا ان کے پاس کوئی ایسا راز ہے کہ یہ زندہ پکڑے جانے سے اور راز فاش ہونے سے ڈرتے ہیں ؟؟ اس حملہ اور اس سے پہلے ہونے والے بے شمار حملوں کی بے شمار وجوہات اور بے شمار شکوک و شبہات ذہنوں میں ابھرتے ہیں لیکن اصل مسئلہ ان حملوں کو جڑ سے اکھاڑنے کا ہے نہ کہ روکنے کا ۔بیریئرز ، میٹل ڈیٹکٹرز، واک تھرو گیٹس، سیکورٹی کیمرے ، سیکورٹی بڑھا کر ، ڈرون حملے کروا کر ، آپریشن کر وا کر خود کش حملے روکے تو جاسکتے ہیں مگرجڑ سے ختم نہیں کئے جاسکتے جڑ سے ختم کرنے کےلئے حکومت کو پائیدار اقدامات اور اصل مسائل کی ٹوہ تک جانا ہو گا ۔
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 78866 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.