صحافتی آئین کا مسلمہ اصول ہے کہ
اگر کُتا انسان کو کاٹ لے تو خبر نہیں بنتی لیکن اگر انسان کُتے کوکاٹ لے
تو خبر خود بہ خود بن جاتی ہے۔ امسال چاند رات ، کراچی کے علاقے پان منڈی
میں پان کے کھوکھے پر رزق حلال کمانے والے کورنگی کے رہائشی ڈاکٹرگلزار کے
لخت ِجگر کو بھتہ نہ دینے پر اغوا کرکے قتل کرنے سے پہلے اس کے پورے جسم کو
ڈرل اور بھیانک ترین تشدد اور پھر سر کو کاٹ کر دھڑ الگ پھینک کر قتل دیا
گیالیکن، الیکڑونک میڈیا میں یہ خبر بریکنگ نیوز نہیں بن سکی کیونکہ تین
تین عیدیں منانے والے مذہبی پیشوائیت کے ہاتھوں قوم یرغمال بننے کے باعث بے
خبر رہی۔سیاست میں کچھ اسی طرح ہے کہ خبریں بنتی نہیں بلکہ بنائی اور کبھی
کبھار بنوائی جاتی ہیں۔ہمارے سیاسی کلچر میں" پولیٹیکل سلائیڈنگ "بھی اب
معمول کی خبر بنتی جا رہی ہے۔لیکن اسکے بھی وہی لوازمات ہیں جو کُتے کے
کاٹنے کے اصول کے تحت لاگو ہوتے ہیں۔کیونکہ کیمرہ مین کا فوکس ہر گاڑی نہیں
ہوتی بلکہ جھنڈے والی گاڑی کو دیکھتے ہی کیمرے کا زوم اسی طرح حرکت میں
آجاتا ہے جیسے بچارا ووٹر ،انتخابات تک اٹھارہ کروڑ اِسی متاثرہ عوام ہوتی
ہے جس کی نمائندگی کا دعوی ہر چھوٹی ، بڑی جماعت کرتی نظر آتی ہے۔بیانات
کےلئے باقاعدگی سے عوامی حقوق کے حصول کےلئے ہر لیڈر صف اول کا مجاہد بن
جاتا ہے اور اپنے مخالفین پر بیانات کے ڈرون حملے سیاسی ڈرائنگ روم سے بلا
روک ٹوک جاری رکھتے ہیں، لیکن پارٹیوں میں قربت اور محبت کی قسمیں کھاتے
ہیں۔
" پولیٹیکل سلائیڈنگ " کی خبر بنانے کےلئے پارٹی کا عہدہ کیونکہ جتنا بڑا
عہدہ ہوگا پولیٹیکل سلائیڈنگ کی خبر اسی قدر "بڑی"بنے گی ۔ پولیٹیکل
سلائیڈنگ کےلئے ضروری نہیں ہے کہ اس پارٹی کے منشور سے کتنا متاثرہواجائے۔
بلکہ اس کےلئے یہ ضروری ہے کہ جاہ و حشمت اور مال کی نمود و نمائش سے کیسے
کتنا متاثرکرکے کتنا بڑا عہدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔" پولیٹیکل سلائیڈنگ "
کرنے کےلئے یہ بہت ضروری ہے۔ اس میں دوسرا اہم جز جھوٹ بولنے میں کمال
مہارت ہونی چاہے کیونکہ اس شعبے میں قوت گویائی نہ ہونے کی صورت میںسچائی
کا جتنا بھی ڈھنڈورا کیا جائے اس کی آواز نقارے خانے میں طوطی کی چیخ سے
زیادہ نہیں بن سکتی۔ میڈیا ایسے "لوٹا کریسی"کا نام بھی دیتی ہے۔ اس "
پولیٹیکل سلائیڈنگ "کے کریزی ازم میں مبتلا ہونے والے وہ موسمی انتخابی
لیڈر ہوتے ہیں جو ہر نئے الیکشن کی آمد سے قبل اپنی تانگہ پارٹی تبدیل کرنے
کےلئے بڑے"پُروقار" انداز میں ایک غلامانہ سوچ اور شخصیت پرستی کے سحر میں
گرفتاربھیڑبکری نما "بے شعور انسانوں "کے جُھنڈ کا اہتمام کرکے " ہواﺅں کے
رُخ "پر سفر کا تعین کرنے والے موسمی پرندوں کی طرح پولیٹیکل سلائیڈنگ کر
جاتے ہیں۔میڈیا اس خبر کو بڑی خبر اس لئے بنا دیتا ہے کیونکہ پولیٹیکل
سلائیڈنگ کرنے والے کے پاس مورثی سیاست کی گدا نشیِنی،رائے بہادر سے ملنے
والے خطابات ، جاگیریں،خوشامدانہ پالیسی کے تحت ملنے والی صنعتیں یا"
آنجناب اسٹیبلشمنٹ" کا آشیر باد شامل ہوتا ہے۔
عمو می طور پر پولیٹیکل سلائیڈنگ کا ثمرات سے تمام تر فائدے اسی طبقہ
اشرافیہ کو ملتا ہے جس نے اشرفی برانڈ آٹے سے "میکڈولڈ"کا برگر یا "پیزا"کھایا
ہو ۔ سیاسی سوچ میں خدمت اور سچائی کا عنصر لےکر کام کرنے والوں کے لئے تو
خود اس کے اپنے گھر میں قدر و منزلت نہیں ہوتی کیونکہ وہ بچارا پنی" قدر"
بڑھانے کےلئے بجلی کے بڑے بڑے خطرناک پولوں ، زیر تعمیر عمارتوں،فلائی
اووروں، بڑے بڑے ہورڈنگ بورڈوں پر بڑی بڑی باتوں کرنے والے بڑے بڑے سیاسی
لیڈروں کے پارٹی جھنڈے اور بینرز لگانے کے لئے رات گھر سے باہر گذرتا ہے
اور جب صبح اپنے گھر تھکا ہارا پہنچتا ہے تو جس کے پاس" گھر والی "ہے اس کی
کڑوی کسیلی باتیں برداشت کرتا ہے۔ اگر گھر والی ابھی اس کی بد قسمتی میں
قسمت سے وارد نہیں ہوئی ہے تو اماں ، ابا کے گھریلو استحصال کا شکار بنتا
ہے لیکن اس کی تربیت چونکہ موجودہ سیاسی ماحول میں ہوئی ہے لہذا وہ پہلے
کوشش کرتا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے" ناشتے کی ٹیبل "پر "مفاہمت" ہوجائے ،
اگر ناشتہ ختم ہونے کے باوجود "مطالبات گھر"پورے نہیں ہوتے تو ملکی شہری یا
دیہی سیاسی ماحول اور پارٹی سے سیکھا جانے والادرمیانی راستہ نکالنے کی
کوشش کی جاتی ہے ۔ عمومی طور پر تو ملک کے خاص شہروں میں سیاسی کلچر کی
بناءپر کامیابی حاصل ہوجاتی ہے لیکن جن کی "گھر والی" ہوتی ہیں وہاں" عدم
برداشت" کا کوئی فلسفہ کامیاب نہیں ہوتا۔بلکہ اکثر اوقات امور داخلہ میں "سسرالی
جارحیت "کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ جیسے بڑی تگ ودو کے بعد کڑی شرائط ماننے
پر ہی عارضی "امن کا وقفہ " میسر ہوجاتا ہے ۔لیکن نوٹیفیکیشن کی معیاد ختم
ہونے سے پیشتر ہر دو فریق میں کوئی فریق ایکسٹینشن بڑھانے کےلئے ماحول میں
گرمی پیدا کردیتا ہے جس میں حسب روایات کامیابی مل تو جاتی ہے لیکن
قربانیوں کے بعد !!
" پولیٹیکل سلائیڈنگ " کرنے والے جس مرضی پارٹی میں جائیں ، لیکن اپیل کرتا
ہوں کہ خاموش اکثریتی عوام کو خیبر پختونخوا سے لیکر کراچی کے ساحلوں تک
اپنا چُپ کا روزہ توڑنا ہوگا ۔ نئے انتخابات کی آمد آمد ہے۔ گو کہ تمام تر
کوشش تو اس بات پر ہو رہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی درمیان جو مصنوعی تصادم
اور مفاہمتی رسہ کشی ہو رہی ہے اس سے تیسری قوت کو فائدہ اٹھانے کا بھرپور
موقع فراہم کیا جائے ۔ لیکن شائد کوئی ایسی مخفی قوت بھی ہے جو ابھی مشہود
نہیں ہوئی لیکن وہ اُس تیسری قوت پر بھر پُور اثر رکھتی ہے۔سوات کی عوام
انتخابی سورماﺅں سے ضرور پوچھیں کہ بتاﺅ ہمیں ہجرت کیوں کرنا پڑی اور اس
خطے میں ان کے نئے وعدے وعید کتنے قابل اعتبار ہونگے ، پشاور ، کراچی،
لاہور،کوئٹہ کے معاشی شہروں اور صوبوں کے درالخلافہ کے باسی اور پاکستانی
عوام بھی اپنی بد حالی، بد امنی،کرپشن، بےروزگاری،دہشت گردی کے بام عروج پر
جانے اور پانچ سال اقتدار کے مزے اڑانے والوں کا میزان بھی سامنے رکھیں ۔"
پولیٹیکل سلائیڈنگ " کرنے والے غلامانہ سوچ کے تحت ذہینی مفلوج کرنے والی
عوام کو ممکن ہے کہ ایک بار پھر بے وقوف بنا لیں لیکن ان کا اتنا قصور نہیں
ہوگا جتنا" پولیٹیکل سلائیڈنگ " کرنے والی شخصیات پر دوبارہ اعتماد کرنے
والے" ووٹرز" کا ہوگا اور اس سے بڑی قصور وار وہ خاموش اکثریت ہوگی جو ٹی
وی چینلوں کے سامنے الیکشن نتائج پر تبصرے اور ملکی حالات پر ہمہ وقت رونا
تو روتے رہتے ہیں لیکن فیصلے والے دن خاموشی سے گھروں میںبیٹھ جاتے ہیں
ملکی قسمت کو اگر جگانا ہوگا تو " پولیٹیکل سلائیڈنگ "کرنے والے رانے چہروں
سے جان چھڑا کر نئے پاکستان کی تشکیل کرنا ہوگی جو ناگزیر ہے۔عدلیہ کب تک
سوموٹو لیتی رہے گی ؟ ۔۔ اب خاموش سے بیٹھنے والی چپ شاہ کا روزہ رکھنے
والی عوام کو ، جاگیر داروں، ڈیروں، سرمایہ داروں ، خوانین اور " پولیٹیکل
سلائیڈنگ " کرنے والوں سے جان چھڑانے کے لئے اپنے علاقوں میں ہر پولنگ
اسٹیشن کو التحریر اسکوئر بنانا ہوگااور اس شعور بیداری مہم میں میڈیا کو
بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ |