”چوہے ، بلی کا کھیل“ کے محاورے
تو سب ہی نے سنیں ہونگے لیکن ہمارے ملک میں ان دنوں جاری” شیر اور گیدڑ“ کی
لڑائی کے مترادف جاری حکومت اور عدلیہ کی محاذآرائی کے چرچے ،ایوان صدر اور
سیاسی قلعوں ے لیکرعام گلی گلی کوچوں تک ہورہے ہیں اسے بھی کچھ لوگ چوہے
بلی کا کھیل سمجھنے لگے ہیں لیکن ہر خاص و عام اس بات کا منتظر ہے کہ آئین
اور قانون کی بالادستی کے نام پر اس بے تکی لڑائی کا انجام کیا ہوگا؟
لوگ یہ بات بھی سمجھنا چاہتے ہیں کہ جمہوریت کے دعویدار جانتے بوجھتے ایک
شخص کے مفاد کےلئے اپنا سیاسی مسقتبل آخر کیوں داﺅ پر لگارہے ہیں؟مجھے یقین
ہے کہ حکومتی ایوانوں سے چپکے ہوئے حکومتی ٹولے کے اراکین قوم کو بےوقوف
اور بزدل سمجھتے ہیں، انہیں یقین ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آجائیں گے ،یہ
ہی قوم ان کا نتخاب کرلے گی۔
یہ ہی وجہ ہے کہ عوام کی خواہشات اور ضرورت کے برعکس یہ جمہوریت کے چمپیئن
ملک اور قوم کو نامعلوم مقام کی طرف لے جارہے ہیں ، اس منزل پر جہاں انہیں
سوائے قید یا پھر ملک سے فرار کا ہی موقعہ مل سکے گا مگر قوم کو کم از کم
ان سے آزادی ضرور مل جائے گی۔
27 اگست پیر کو کسی قسم کی شرم، حس، غیرت اور احساس سے پاک موجودہ حکومت کے
دوسرے وزیراعظم راجہ پرویزاشرف اپنی تقرری کے صرف تقریباََدو ماہ بعدہی این
آر او عمل درآمد کے مقدمے میں عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کی جانب سے
سوئس حکام کو خط لکھنے کے حکم پر مہلت طلب کی عدالت نے مقدمے کی سماعت
18ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے وزیراعظم کو اس روزطلب کرلیا اور ریمارکس دیئے
کہ ” خط تو سوئس حکام کو لکھنا ہوگا“۔
سپریم کورٹ کی جانب سے 22 دن کا وقت ملنے پر وزیراعظم راجہ پرویز فاتحانہ
انداز میں عدالت سے باہر آئے جیسے انہوں نے 22مزید دن تک کے لئے صدر آصف
زرداری کو سوئس عدالت کے مقدمہ سے بچالیا۔۔۔۔۔۔۔وزیراعظم کی یہ خوشی بجاہے
کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کی خوشیاں صدر کی خوشیوں سے مشروط ہے، سوئس
عدالت کے مقدمات کھلنے کی صورت میںآصف زرداری ہی نہیں بلکہ ان سمیت تمام
ساتھیوں اور ہمنوا کو حکومتی ایوانوں سے جانا پڑے گا۔لیکن ایک اطلاع یہ بھی
ہے کہ ستمبر میں سوئس عدالت میں آصف زرداری کے خلاف درج مقدمات کی ” عمر“
بھی ختم ہورہی ہے۔
شائد یہ ہی وجہ ہے کہ سندھ کے سابق وزیر داخلہ منظور وسان نے کہا ہے کہ
سپریم کورٹ میں این آر او کیس کی آئندہ سماعت سے قبل سوئس عدالت کو آصف
زرداری کے خلاف مقدمات دوبار کھولنے کے لیئے خط لکھ دیا جائے گا ممکن ہے کہ
منظور وسان درست کہہ رہے ہو ں اور حکومت کی طرف سے خط لکھ دیا جائے ۔ لیکن
کیا یہ خط لکھے جانے سے اب سوئس عدالت کے مقدمات کھل سکیں گے؟ اور کیا آصف
زرداری ان مقدمات کی وجہ سے نااہل ہوپائیں گے؟
یہ وہ سوالات ہیں جس سے پاکستان کی سیاست کا مستقبل وابسطہ ہے اس لئے ابھی
انتظار کرنا پڑے گا ۔
مجھے خدشہ لگا رہتا ہے کہ آصف زرداری کے خلاف سوئس عدالت کے مقدمات نہ کھل
سکے اور این آر او کیس پر عمل درامد نہ ہوسکا تو پھر کیا ہوگا؟
ٓٓآصف زرداری صدر کے عہدے اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بدستور رہے تو
ڈر ہے کہ ان کی پوری اتحادی ٹیم اسی طرح قوم پر مسلط رہے گی ،اور یہ ہی
نہیں بلکہ آئندہ الیکشن کے بعد یہ ہی ٹولہ اپنے روایتی ہتھکنڈے استعمال
کرتے ہوئے دوبارہ پوری” آب و تاب“کے ساتھ کامیاب بھی ہوسکتا ہے ، بجلی کی
لوڈ شیڈنگ ہی کیا مہنگائی بھی چار سو فیصد بڑھ سکتی ہے ، بیروزگاری میں بھی
بے پناہ اضافہ ہوسکتا ہے، ٹارگیٹ کلنگ، اغواءبھتہ خوری میں مزید اضافہ
ہوسکتا ہے اور سرکاری اداروں میں کرپشن کو قانونی حیثیت بھی حاصل ہوسکتی ہے
باالکل اسی طرح جیسے کرپٹ اور کرمنلز کو قانونی طور پر اثتثنا ءحاصل ہے۔
ویسے بھی اب صرف چھ ماہ ہی تو باقی رہ گئے ہیں اس حکومت کی پانچ سالہ مدت
کے خاتمے کے لیئے !کاش یہ جمہوری حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے
ریکارڈ کے ساتھ کسی ایک ادارے یا شعبے کی کارکردگی میں اضافہ کا ریکارڈ بھی
بنالیتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
مجھے موجودہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کے دوبارہ کسی بھی طرح مسلط ہوجانے
کا ڈر اس لیئے نہیں ہے کہ یہ اچھی ، منظم اور متحد جماعتوں کا اتحاد ہے
بلکہ اس لیئے ہے کہ قوم بھی تو ابھی تک اپنی دھن میں میں مگن ہے ، جس کا جو
دل چاہتا ہے کئے جارہا ہے ،کنڈا کنکشن بھی کھلے عام چل رہا ہے تو بجلی کے
میٹرز میں ٹمپرنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے، ناپ تول میں چوری ، منافع خوری ،
ٹیکس چوری ، قانون کی خلاف ورزی کے خلاف ہر کوئی بولتا ہے مگر اسی طرح ہر
ایک ہی ٹریفک سگنل سمیت تمام ہی قوانین پر کسی نہ کسی بہانے عمل کرنے سے
گریز کرتا ہوا نظر آتاہے ،اخلاقیات کا حال یہ ہے کہ کسی کو سلام کا جواب
بھی مکمل نہیں دیا جاتا، کسی کا حال احوال پوچھنے کا تو وقت ہی نہیں ہے،
کوئی راہ گیر راستہ پوچھے تو اول تو اس کی بات ہی نہیں سننتے اور کسی کی
بات سن لی تو اسے غلط راستہ بتا دیا جاتاہے، جب قوم نہ سدھرے تو پھر ایسے
ہی حکمران مسلط ہونگے ، یہ بات میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ قران میں
فرماتاہے ، ”جب معاشرے برائیاں بڑھ جائیں گی اور لوگ بے راہ روی کا شکار
ہوجائیں گے تو تم پر ظالم حکمران مسلط کردیئے جائیں گے“۔ |