لیجئے نیٹوسپلائی کھلنے کے ساتھ
ہی امریکہ کا مکروہ چہرہ پہلے سے بھی زیادہ بھیانک انداز میں کھل کر ہمارے
سامنے آگیا ہے کہ ایک طرف امریکی صدراوباما ددنیابھرکے مسلمانوں کو عید کی
مبارکباد دیتانظرآتاہے تودوسری جانب عین عید ہی کے دنوں سے امریکہ نے اپنے
فرنٹ لائن سٹیٹ اور دیرینہ اتحادی پاکستان پر ڈرون حملوں کا ایک نیاسلسلہ
شروع کردیاہے جس میں محض ایک ہفتے کے دوران تقریباََ چالیس پاکستانی اپنی
جان سے ہاتھ دھوچکے ہیں لیکن مسلمانوں کے اس اہم ترین تہوار میں بھی امریکہ
کی جانب سے دکھائی جانیوالی اس درندگی پر حکومت کی جانب سے امریکہ کو ٹھوس
انداز میں تنبیہہ نہیں کی گئی صرف ایک بار امریکی سفارتکار کو بلاکر اس پر
رسمی احتجاج کیاگیالیکن اس کانتیجہ یہ نکلاکہ اگلے ہی روز امریکی ڈرونز ایک
بار پھرشمالی وزیرستان میں حملہ آور ہوئے اور تین حملوں میں 21افرادکو لقمہ
اجل بناگئے ۔
دوسری جانب اس موقع پر صدرزرداری کی جانب سے ان حملوں میں جاں بحق ہونے
والے افراد کے لواحقین کے ساتھ افسوس کی بجائے یہ ایمان فروزبیان سامنے
آیاکہ ہم نے جمہوریت کو مضبوط کردیااوراس کے ثمرات سے ہماری آنیوالی نسلیں
فیضیاب ہوں گی عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کونسی جمہوریت دوسرے
ممالک کو اپنے ہم وطنوں پر اس طرح بیہمانہ بمباری کی اجازت دیتی ہے ؟کتنی
شرمناک بات ہے کہ آئے روز امریکی ونیٹوافواج ہماری سرحدوں کو پامال اور
ہمارے سویلین و فوجی جوانوں کو شہیدکررہی ہیں اورہماری حکومت شہریوں کی
حفاظت کی بنیادی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہ ہونے پرشرمندہ ہونے کی بجائے اس
کو بھی جمہوریت کی فتح قراردیتی نظرآتی ہے
حالاں کہ ڈرون حملوں کے ایشو پر چین اورروس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور سب سے
بڑھ کر اقوام متحدہ کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں اور انہیں غیرقانونی اور
بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قراردیاجارہاہے اور ہماری تھوڑی سی سفارتی
کوشش سے یہ معاملہ عالمی سطح پر امریکہ کیلئے سردرد بن سکتاہے اور اس پاگل
سانڈھ کو ڈرون حملوں جیسے غیرقانونی ،غیراخلاقی اور غیرانسانی فعل سے
روکاجاسکتاہے لیکن شائد ہماراسب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران
خوداخلاقیات کی اس انتہائی نچلی سطح پرپہنچ چکے ہیں کہ جہاں انہیں 19کروڑ
عوام کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہم نظرنہیں آتے جبھی تو انہوں نے نہ صرف خود
ڈرون حملوں کی اجازت دے رکھی ہے بلکہ ایک عرصے تک ہماراہی شمسی ائربیس اس
مقصد کیلئے استعمال ہوتارہاہے جو26نومبر کو سلالہ چیک پوسٹ پرحملے کے بعد
امریکیوں سے خالی کروایاگیا تھایہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ حکومت مسلسل یہ
کہتی آئی ہے کہ حکومت نے امریکہ کو ڈرونز کی اجازت نہیں دے رکھی جو کہ
حکومتی غلط بیانی ہے کیوںکہ عالمی قوانین کے ماہرین اس بات پرمتفق ہیں کہ
کسی بھی ملک کی سرحد کی خلاف ورزی اس ملک کی اجازت کے بغیر نہیں کی جاسکتی
لیکن اگر فرض کریں کہ حکومت کی بات درست ہے تو وہ بتائے کہ وہ امریکہ کی اس
درندگی پر یہ معاملہ اقوام ِمتحدہ یاعالمی عدالت میں کیوں نہیں لے کرجاتی
یا لیبیاکے لاکربی واقعے کی طرز کاکیس ڈرون متاثرین کے ورثاءسے اس قتل عام
پر ہرجانے کیلئے امریکی عدالتوں میں کیوں دائر نہیں کروارہی ؟بلکہ گزشتہ
روزترجمان دفترخارجہ معظم احمدخان کایہ بیان کہ ''ڈرون حملوں کے ایشو پر ہم
عالمی عدالت میں جانے کی بجائے ایسا حل نکالیں گے جودونوں ممالک کوقابل
قبول ہو ''پاکستانیوں کے زخموں پر مزیدنمک چھڑکنے کے مترادف ہے آخر وہ وقت
کب آئے گا جب ہماری حکومت اپنے ذاتی مفادات اوراقتدارکو بالائے طاق رکھتے
ہوئے عوامی امنگوں کی حقیقی ترجمان بنے گی۔ |