اسمبلی میں گند ڈال دیا

مجھے اس وقت حیرت کا شدید جھٹکا لگا جب سرکاری ٹیلی ویژن کے کیمرہ مین کولفٹ آپریٹر نے پریس گیلری تک لے جانے سے انکار کر دیا۔پنجاب اسمبلی کا اجلاس شروع ہو چکا تھا اور ہم لفٹ میں پریس گیلری کی طرف جا رہے تھے لیکن لفٹ آپریٹر نے راستے میں ہی پی ٹی وی کے کیمرہ مین کو یہ کہہ کر اتار دیا کہ آپ کو پریس گیلری میں لیجانے کی اجازت نہیں ہے ۔ اس صورت حال پر میں بے ساختہ مسکرانے لگا کہ بلآخرپنجاب اسمبلی کی انتظامیہ اصل بات کی تہہ تک پہنچ ہی گئی۔جن لوگوں کو اسمبلی سے واستہ نہیں پڑا انہیں بتاتا چلوں کہ اسمبلی ہال کے اندرکیمرہ لیجانا منع ہے اور اسمبلی کی کارروائی کی ویڈیو بنانا بھی منع ہے ۔ پنجاب اسمبلی میں صرف سرکاری ٹی وی یعنی پی ٹی وی ہی ویڈیو بنا سکتا ہے پھر کانٹ چھانٹ کے بعد جتنی ویڈیو عوام کو دکھائی جا سکے اتنی ہی دکھائی جاتی ہے لیکن کچھ عرصہ سے نجی ٹی وی چینلز بھی اسمبلی کی کارروائی خصوصا گالیاں اور لڑائی جھگڑے کی ویڈیو کلپ دکھا نے لگ گئے تھے جس کی وجہ سے عوامی نمائندوں کے ”عوامی چہرے“ سامنے آنے لگے ۔ اسمبلی میں چونکہ ویڈیو بنانے اور کیمرہ لیجانے کی اجازت نہیں لہذا یہ ایک سوال تھا کہ ویڈیو کس طرح نجی چینلز تک پہنچ رہی ہے ؟شروع میں خیال تھا کہ چونکہ اسمبلی کے اندر خصوصاً کیفے ٹیریا میں لگی سکرین پریہ مناظر براہ راست دکھائے جاتے ہیں اس لیے وہاں ٹی وی سکرین پر سے موبائل کے ذریعے ان مناظر کو ریکارڈ کیا جارہا ہے ۔ شروع میں کسی حد تک یہ خیال درست بھی تھا لیکن ذمہ داران کو اصل جھٹکا اس وقت لگا جب مختلف اینگلز سے واضح اور صاف ویڈیو نجی چینلز دکھانے لگے ۔ چونکہ ایسی ویڈیو پی ٹی وی کے کیمرہ مین کو بنانے کی اجازت ہے لہذا شک انہی پر جاتا ہے لیکن ثبوت ہاتھ نہیں آ رہا تھا پھر شاید کسی ذہین اہلکار کو خیال آیا کہ جب کیمرہ مین پریس گیلری میں جا کر ویڈیو بناتا ہے ضرور اس وقت ہی کسی طرح ”چونا“ لگ جاتا ہے ، اس لیے گذشتہ روز سرکاری کیمرہ مین کو پریس گیلری میں جانے سے روک دیا گیا اور صحافیوں سے دور رکھا گیا ۔کیمرہ مین بیچارہ سپیکر گیلری اور سمبلی ہال کے اندر سے ہی ویڈیو بناتا رہا ۔میری دعا ہے کہ اس بار اہلکاروں کے ساتھ ”ہاتھ“ نہ ہو لیکن اگر اس قدر سختی کے باوجود ویڈیو نجی چینلز تک پہنچ گئی تو پھر کیا ہو گا؟؟؟ کیا اس سے بہتر نہیں کہ ارکان اسمبلی خود اپنا ہی رویہ ٹھیک کر لیں ؟ارکان اسمبلی ہمارے نمائندے کہلاتے ہیں لیکن جو رویہ ان کا اسمبلی میں ہوتا ہے اسے دیکھ کر شرم آتی ہے کہ ہم کن لوگوں کو اپنا نمائندہ کہتے ہیں ۔ کم از کم میں ان لوگوں کو اپنا نمائندہ نہیں مان سکتا جن کی کسی بھی حرکت یا کام سے یہ نہیں لگتا کہ وہ میری نمائندگی کر رہے ہیں۔ میں پنجاب اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھا تماشہ دیکھ رہا تھا ۔ میں اسے اسمبلی کی کارروائی اس لیے نہیں کہوں گا کہ میرے نزدیک جو کچھ وہاں ہو رہا تھا اسے اسمبلی کی کارروائی کہنا مقدس ایوان کی توہین ہے ۔ ارکان اسمبلی نے سپیکر کے گرد گھیرا ڈالا ہوا تھا اور نعرے بازی کر رہے تھے ۔ سپیکر نے اپنی حفاظت کے لیے سکیورٹی گارڈ زبلوا رکھے تھے اس کے علاوہ حکمران جماعت کے کچھ ایم پی اے خصوصاًعبد الرزاق ڈھلو، رانا تجمل اور حاجی اللہ رکھابھی سپیکر کی حفاظت کے لیے گھیرا ڈالے کھڑے تھے ۔وہاں سب بول رہے تھے مگر سننے والا کوئی نہ تھا ۔میرے ساتھ پریس گیلری میں بیٹھے صحافی ”عوامی نمائندوں“ پر ہنس رہے تھے ۔شوکت بسرا ایوان کی کارروائی کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اچھال رہے تھے جس پپر ان کے باقی ساتھیوں نے بھی یہی کام شروع کر دیا۔ جن بلوں پر قوم کا مستقبل لکھا تھا وہ بل پھاڑ کر ایک دوسرے کے منہ پر مارے جا رہے تھے۔اچانک اپوزیشن سے تعلق رکھنے والاایک عوامی نمائندہ حکمران جماعت کے عوامی نمائندے کو تھپڑ مارنے کے لیے گیا اور یکدم جھک کر اس کا ازار بندپکڑ لیا ۔ وہ عملی طور پر مخالف کو ننگا کرنے پر آمادہ نظر ٓ رہا تھا اور صحافیوں سمیت کچھ سیاست دان بھی قہقہے لگا رہے تھے ۔ عجیب طوفان بد تمیزی تھا۔پاس ہی اپوزیشن کی خواتین ارکان نعرے لگا رہی تھیں ۔دونوں پارٹیوں کے کچھ لوگوں نے اسے اس حرکت سے روکا۔ سید علی مرتضی نے نے سیکرٹری اسمبلی کامائیک اٹھا کرپھینک دیے اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ مائیک ٹوٹ گیا۔ ان کا ساتھ دینے اور رکن اسمبلی خصوصاً خواتین بھی وہاں پہنچ گئیں انہوں نے سیکرٹری اسمبلی کا میذ بھی الٹنے کی کوشش کی ۔کچھ ارکان اسمبلی ہاتھ جوڑ کر انہیں روکنے کی کوشش کرتے رہے لیکن انہیں ناکامی ہوئی جس پر حکمران اور اپوزیشن جماعتیں دونوں ہی ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگانے لگ گئیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کے اس دوران نہ صرف اسمبلی کی کارروائی چلتی رہی بلکہ بل بھی منظور ہوتے رہے۔ اتنے میں کچھ خواتین کورم کی نشاندہی کرنے لگیں لیکن سپیکر نے شور کی وجہ سے ہیڈ فون لگایا ہوا تھا اور انہیں ان خواتین کی آواز نہیں آ رہی تھی یہی صورت حال سیکرٹری اسمبلی کی تھی جس پر وہ وزیر قانون کے پاس چلی گئیں ۔ وزیر قانون اس وقت کھڑے مائک پر بول رہے تھے ان کومخالف جماعت کی ان خواتین خاص طور پر سیمل کامران ، ماجدہ زیدی، آمنہ الفت، ساجدہ میر ، رفعت سلطانہ وغیرہ کی مداخلت ناگوار گزری اور انہوں نے مائیک پر ہی انہیں گالی نکال کر ایک طرف کرنے کا کہا۔چونکہ یہ گالی مائیک پر نکالی گئی تھی لہذا سب نے سنی ۔ شور میں کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی میرے خیال میں انہوں نے ایک گالی نکالی تھی لیکن سیمل کامران کا کہنا تھا دو گالیاں نکالی ہیں۔ اس سے ساتھ ہی پنجاب حکومت اور اپوزیشن کی خواتین ارکان اسمبلی ایک دوسر پر پل پڑیں ۔لیگی خواتین میں سے ڈاکٹر غزالہ اور سکینہ شاہین میدان میں جارحانہ انداز میں نظر آئیں ایک دوسرے کے ڈوپٹے اتار لیے گئے اور کپڑے پھاڑ دیے گئے۔ڈاکٹر غزالہ نے سیمل کامران کے منہ پر تھپر مار کر طبل جنگ بجا دیا اور پھر مقدس ایوان میں باقاعدہ جنگ کا منظر نظر آنے لگا۔ میرا خیال تھا پانی پت میںجب سپاہیوں کے ہتھیار گر گئے تھے وہ یونہی لڑے ہوں گے لیکن میرے ساتھ کھڑے صحافی کا اصرار تھا کہ اس انداز میں صرف اس کے گاﺅں کی” جٹیاں“ ہی لڑ سکتی ہیںوہ اپنے گاﺅں کو یاد کر کے ٹھنڈی آہیں بھرنے لگاتو میں نے دوبارہاسمبلی میں سجے میدان جنگ پر نطریں جما دیں ۔ ماجدہ زیدی کے منہ پربھی تھپڑ مارے گئے اور ناخن سے ان کا منہ چھیل دیا گیا بعد میں انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے مجھے اپنے زخم دسکھائے لیکن انہوں نے میڈیا کو منع کر دیا کہ یہ زخم ٹیلی ویژن یا اخبار میں نہ دکھائے جائیں وہ منہ ڈھک کر میڈیا پر آئیں ، آمنہ الفت کی گردن پر بھی خون کے نشانات تھے لیکن جب میں نے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ زخمی نہیں ہوئیں بلکہ یہ ان کی کسی ساتھی رکن اسمبلی کا خون ہے البتہ انہوں نے یہ بتا دیا کہ انہوں نے بھی کسی خاتون رکن اسمبلی کو دو ©”ٹھڈے“ مارے ہیں ۔ سیمل کامران کے منہ پر بھی تھپڑ مارے گئے ان کی آنکھ میں بھی غالباً کسی ”جٹی“ نے انگلی مار دی وہ بعد میں ساتھی رکن اسمبلی سے آنکھ پر ڈوپٹہ رکھ کر پھونکیں مرواتی رہیں اور ٹکور کرواتی نظر آئیں ۔ایک رکن اسمبلی کی دھوپ کی عینک دو ٹکڑے ہو کر ایک خاتوں کے ہاتھ میں نظر آ رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ ہم مقدس ایوان کی بجائے کسی اکھاڑے میں بیٹھے خواتین کی کشتیاں دیکھ رہے ہیں ۔اسی دوران اسمبلی کی کارروائی روک دی گئی جو بعد میں غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی ۔ ارکان اسمبلی ہال سے باہر نکل گئے ۔ صحافی بھی پریس گیلری سے چلے گئے ۔ میں نے جاتے جاتے مڑ کر خالی ایوان کی جانب دیکھا۔پورے ہال میں کاغذ بکھرے پڑے تھے۔یہ اسمبلی میں پیش کیے گئے قوم کے مستقبل سے وابستہ وہ بل تھے جنہں اپوزیشن پھاڑ پھاڑ کر ہوا میں اچھالتی رہی تھی یا ارکان اسمبلی ایک دوسرے کے منہ پرمارتے رہے تھے ۔ میں نے تلخی سے سوچا”انہوں نے آج بھی اسمبلی میں گندڈال دیا۔۔۔
Syed Badar Saeed
About the Author: Syed Badar Saeed Read More Articles by Syed Badar Saeed: 49 Articles with 54533 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.