صوبہ سرحد اور بلوچستان کے بعد
پاکستان کے دیگر علاقوں میں جس طرح ایک منظم طریقے سے دہشت گردی کے عفریت
کا دائرہ کار بڑھایا جارہا ہے ، پوری قوم خاص طور پر حکمرانوں کے لئے لمحہ
فکریا ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان کو ایک نے نہیں بلکہ بیک وقت متعدد
دشمنوں نے گھیر رکھا ہے۔ بھارت، امریکہ، اسرائیل اور افغانستان کی حکومتیں
اور خفیہ ایجنسیاںپاکستان میں ایسا خطرناک جال بننے میں مصروف ہیں کہ
خدانخواستہ وہ اس کے وجود کو ہی نگل لینا چاہتی ہیں۔ انہوں نے صوبہ سرحدمیں
ایسی قوتوں کو کھڑا کیا جنہوں نے اسٹیٹ کے اندر اسٹیٹ بنا کر افواج پاکستان
کو اپنا دشمن قراردے کر اسے خلاف کارروائیاں شروع کررکھی ہیں۔ القاعدہ اور
طالبان کے نام نہاد لیڈر اپنے مٹھی بھر مسلح ساتھیوں کے بل بوتے پر اپنا
اپنا اسلام نافذ کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ بھی خبریں گردش میں ہیں کہ وہ اپنے
مسلح افراد کوجدید اسلحہ کے ساتھ ساتھ بھاری تنخواہیں بھی دیتے ہیں۔اسی طرح
بلوچستان میں بھارتی ایجنسی ”را“ افغانستان میں قائم اپنے قونصل خانوں کے
ذریعے تخریب کاری اور دہشت گردی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ گزشتہ دو ماہ میں
یہاں دل دہلا دینے والے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ بم دھماکوں اور بارودی
سرنگیں پھٹنے کے علاوہ مسافروں کو لائن میں کھڑا کرکے سفاکی سے انہیں
گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ دہشت گردی کے اس طرح کے واقعات میں جس تیزی سے
اضافہ ہورہا ہے اس سے محب وطن حلقے شدید پریشانی اور اضطراب کا شکار ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جس طرح متعدد واقعات کی ذمہ داری قبول کی
گئی اس سے یہ تاثر اور بھی قوی ہوگیا ہے کہ خطے میں امریکی مداخلت کا جواز
پیدا کرنے اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش میں نام نہاد
طالبان گروپ سرگرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔حال ہی میں کامرہ بیس پر جس منظم
انداز میں حملہ کیا گیا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ایک عالمی سازش
کا شاخسانہ ہے۔ جس کا واضح مقصد افواج پاکستان کو کمزور کرنا، پاکستانی
عوام پردہشت و خوف طاری کرنا اور پاکستان کو دہشت گردوں کی آماجگاہ ثابت
کرکے اسے عالمی سطح پربدنام اور تنہا کرنا ہے۔
امریکہ نے 9/11کے بعد جس طرح القاعدہ کو ذمہ دار قراردے کر افغانستان اور
عراق پر قبضے کا جواز تلاش کیا اسی طرح وہ پاکستان میں موجود القاعدہ کی
نام نہاد لیڈر شپ کو تلاش کرنے کی آڑ میں پاک فوج کو تباہ اور قومی اثاثہ
آئی ایس آئی کا ہمیشہ کے لئے گلا گھونٹ دینا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کو تائب
کرنے کے خواب کی تعبیر اور تدبیر کی جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت، اسرائیل
اور مغربی میڈیا کی طرف سے آئی ایس آئی کا القاعدہ اور طالبان سے تعلق
جوڑنے کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔ایک طرف امریکہ پاکستان پر حقانی نیٹ
ورک کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے دباﺅ ڈال رہا ہے تو دوسری طرف وہ خود اسی
نیٹ ورک کو آفر کررہا ہے کہ اگر وہ افغانستان میں موجود امریکی افواج پر
حملے بند کردیں تو وہ افغانستان کے تین صوبوں پکتیہ، پکتیکااور خوست کا
کنٹرول ان کے حوالے کرنے کو تیار ہے۔ اس انکشاف کے بعد امریکہ کی دوغلی
پالیسی کی شدت کا اندازہ ہوجانا چاہئے کہ وہ کس طرح دہشت گردی کی جنگ کو
صرف اپنے مفادات کی شرط پر لڑ رہا ہے۔ اس کی نزدیک پاکستان کے مفادات کوئی
اہمیت نہیں رکھتے۔ ان حالات میں آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے کہ امریکی
مفادات کے چکر میں ہم اتنی دور نہ چلیں جائیں کہ وہاں سے واپسی ناممکن
ہوجائے اور ہماری سلامتی شدید خطرات میں گر جائے۔ سب سے بڑی ذمہ داری حکومت
کی ہے کہ وہ فی الفور پاکستان کی سالمیت پر ہونے والے امریکی ڈرون حملوں کے
آگے پل باندھے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہ کرے۔گزشتہ
دنوں حکومت پاکستان نے امریکی سفیر کو طلب کرکے ڈرون حملوں پر احتجاج بھی
کیامگر اس سے اگلے ہی روز امریکہ نے شمالی وزیرستان پر مزید چھ ڈرون حملے
کر دیئے جن میں 18افراد جاں بحق اور 14زخمی ہوگئے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ
ڈرون حملوں میں اضافے کے ساتھ ہی افغانستان کی طرف سے شدت پسندوں کے حملوں
میں بھی اضافہ سامنے آرہا ہے اس کے علاوہ صدر کرزئی کا طرز عمل بھی کہیں
زیادہ خطرناک ہے وہ افغان شدت پسندوں کے حملوں کے باوجود پاکستان پر
افغانستان میں دراندازی اور دہشت گردی کے الزامات عائد کرنے میں مصروف ہیں۔
یہ صورتحال پاکستان کی آزادی، سلامتی اور خود مختاری کے لئے ایک سنگین
مسئلہ پیدا کر چکی ہے لہذا حکومت پاکستان کو پوری سنجیدگی کے ساتھ امریکہ
سے اس مسئلے پر بات کرنی چاہئے۔ دوسری طرف مختلف سیاسی ، سماجی اور مذہبی
تنظیموں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ باآواز بلند دہشت گردی کی کارروائیوں کی
نہ صرف مذمت کریں بلکہ عوام میں یہ شعور پیدا کریں کہ اپنے ہی عوام کی جان
ومال کو تباہ کرنا کون سا جہاد ہے۔ عوام کو بھی چاہئے کہ وہ کلی طور پر
ایسی تنظیموں کی اخلاقی و مالی اعانت ترک کردیں جو پاکستان کے معصوم شہریوں
کے خلاف ہی دہشت گردی کا موجب بن رہی ہیں۔ (اختتام) |