آزاد کشمیر کی سیاست میں بہت سی
پیچیدگیاں موجودہ وقت میں پیدا ہو چکی ہیں ، سیاست گردی میں شدت آچکی ہے،
باوثوق ذرائع جلد بڑی تبدیلی کا اشارہ دے رہے ہیں ،ایک عجیب صورتحال نظر آ
رہی ہے،صدر یعقوب،وزیر اعظم چوہدری مجید یا وزیر امور کشمیر میں سے کسی ایک
کو اپنا عہدہ تع ضرور چھوڑنا ہو گا ہی، پاکستان پیپلز پارٹی کی قائم کردہ
حکومت میں گروپپنگ بہت آگے تک نکل چکی ہے ،حکمران جماعت کا ایک مضبوط دھڑا
)بیرسٹر سلطان محمود چوہدری گروپ( جو چوہدری مجید حکومت کے قائم ہوتے وقت
بھی ان کیلئے کسی چیلنج سے کم نہ تھا آج اس حکومت کے ایک سال مکمل ہونے کے
بعد بھی اپنی الگ مضبوط شناخت رکھتا ہے ،جو لوگ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری
کے ساتھ جنرل الیکشن سے پہلے پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے ان میں سے
اکثریت اب بھی بیرسٹرسلطان محمودچوہدری کے شانہ بشانہ ہے ، دوسری طرف پیپلز
پارٹی کے پلیٹ فارم سے آزاد کشمیر کی صدرات کی کرسی پر براجمان کاروباری
شخصیت یعقوب خان نے جہاں وفاق سے دوستی اور اپنی سیاسی و کاروباری چالوں کے
ذریعے آزاد کشمیر کے جملہ اختیارات پر قبضہ کر رکھا ہے وہ تعلق بھی مخا
لفین کو ایک آنکھ نہیں بھاتا ، سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان
محمود چوہدری نے کچھ وقت سے اپنی ہی حکومت پر کرپشن ،بدمعاشی ،قتل و غارت
اقرباءپروری جیسے سنگین الزامات لگا کر اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل پیدا کر
دی ہے ،جو کام اپوزیشن جماعتوں خاص کر مسلم لیگ ن کا اور پھر مسلم کانفرنس
،جماعت اسلامی و تحریک انصاف آزاد کشمیر کا بنتا تھا وہ کام بیرسٹر سلطان
محمود چوہدری خود اپنی ہی حکومت کے خلاف کر رہے ہیں اس سلسلہ میں سابق وزیر
اعظم آزاد کشمیر نے صدر پاکستان آصف علی زرداری اور پھر وزیر اعظم پاکستان
راجہ پرویز اشرف سے ملاقاتیں بھی کی ہیں ا س سے پہلے وہ محترمہ فریال
تالپور جو آزاد کشمیر حکومت کے تمام معاملات کی کی نگران ہیں ( کہا جاتا ہے
کہ جن کی منشاءکے بغیر مجید حکومت کوئی بھی ایڈجسٹمنٹ تک کا سوچ نہیں سکتی
) سے بھی ملاقات کی ۔ان ملاقاتوں میں بیرسٹر سلطان نے مجید حکومت کے خلاف
کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اس سلسلہ میں بیرسٹر چوہدری کومضبوط قد
کاٹھ کے مالک وفاقی وزراءکی بھی مکمل سپورٹ بھی حاصل ہے(منظور وٹو بھی ان
میں شامل ہیں) اور حکومت کے خلاف اعلان بغاوت کرنے پر مسلم کانفرنس کے صدر
عتیق خان اور مسلم لیگ ن آزاد کشمیرکے سربراہ راجہ فاروق حیدرخان بھی
بیرسٹر کے اس اقدام کی تعریف کرتے نہیں تھکتے ،صدر آزاد کشمیر یعقوب خان
اور چوہدری مجید اپنے اپنے عہدے بچانے کیلئے اکھٹے ہو چکے ہیں،بیرسٹر کی
وفاق میں ان اعلیٰ سطحی ملاقاتوں اور ان ہاﺅس میں بڑے پیمانے پر رابطوں سے
چوہدری مجید جووزیر اعظم بنتے وقت سے ہی کمزور پوزیشن پر تھے لیکن قدرت کی
مہربانی سے وزارت عظمیٰ کی کرسی ان کو مل ہی گئی ( کے لیے مشہور ہے کہ پہاڑ
جیسا آدمی ہے لیکن اعتما د سے بلکل محر وم ہے) انتہائی کمزور پوزیشن پر
آچکے ہیں لیکن بیرسٹر سلطان بھی ابھی اس پوزیشن میں نظر نہیں آتے کہ وہ
عملاً کسی بڑی تبدیلی کو لا سکیں ۔ چوہدری مجید جومفاہمتی پالیسی کو اپنائے
ہوئے ہیں اپنی حکومت کا آغاز کمزور بنیادوں پر کیا جس کا واضح ثبوت ضمنی
الیکشن میں مظفر آباد کی سیٹ پر اپنی پارٹی کے نمائیندہ مضبوط ترین امیدوار
سابق وزیر خواجہ فاروق کو مفاہمت کی نظر کرتے ہوئے مسلم کانفرنس کے
نومولودسیاست دان عثمان عتیق کی کھل کر حمایت کرنا تھا لیکن پیپلز پارٹی کی
مفاہمتی پالیسی مکمل طور پر ناکام ہوئی اور مسلم لیگ ن کے بیرسٹر افتخار
گیلانی مظفر آباد شہر کی اس سیٹ سے بھاری اکثریت میں کامیاب ہو گئے اس
سیاسی گناہ جیسے دیگر درجنوں گناہ اب تک کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ انہوںنے
خود کو گھڑی خدا بخش کا مجاور تک کہہ کر اپنی اہلیت کا ثبوت بھی دے دیا اس
اعلان پر جب لعن تعن ہوئی تو مزید ڈٹ کر خود کو اصلی مجاور ثابت کرہی دیا ۔
چوہدری مجیدحکومتی نظام کو جیسے ہی سنبھالنے کیلئے آگے بڑھتے ہیں تو ان کا
سامنا اپنے ہی جیالوں سے ہو جاتا ہے پھر جیالوں کی ایڈجسٹمنٹ نے تو ان کو
ہلا کر ہی رکھ دیا ہے ،چند ماہ میں ہی درجنوں مشیر وں اور کو
آڈینیٹروں(تنخواہ داروں) کو بھرتی کیاجاتا ہے ،ایک سال میں ہی یہ تعداد سو
سے زیادہ تک جا چکی ہے اور ابھی حکومتی سفر اورجیالوں کی ایڈجسٹمنٹ جاری
ہیں ۔ آزاد کشمیر میں موجودہ حکومت نئی نئی اسامیاں تخلیق دے کر جیالوں کو
ایڈجسٹ کر رہی ہے ، ایڈجسٹمنٹوں کے معاملے میں صدر ریاست یعقوب خان سب سے
آگے ہیں انہوں نے اپنی الیکشن مہم میں بڑے حصہ داروں(حافظ صغیر) کو وزیر
اعظم کے ساتھ ایڈجسٹ کروانے کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ ایک ایسی ٹیم(اسکیم
خوروں کا ٹولہ) ایڈجسٹ کر لیے ہےں جو آزاد کشمیر میں موجود سرمائے کی
باقیات کا بھی جلد ہی خاتمہ کر نے میں مصروف عمل ہے ،نوبت یہیں تک نہیں جن
نئی یونیورسٹیوں کو قائم کر کہ تعلیم کے میدان میں انقلاب لانے کے دعوے کیے
جا رہے ہیں ان میں گریڈ سولہ تک اپنی ٹیم کے نالائق ترین لوگوں کو ایڈجسٹ
کیا جا رہا ہے ،پیپلز پارٹی و صدر کے یہ جیالے یونیورسٹیوں میں تعلیمی
پالیسیاں بنائیں گے اور نئی نسل ان جاہلوں اور اسکیم خوروں کی بنائی ہوئی
پالیسی پر عمل پیرا ہو کر ریاست کی ترقی کرے گی یہ سب عوام کے ساتھ گھٹیا
مذاق سے کم نہیں ہے، ایڈجسٹمنٹوں میں سب سے زیادہ ناکام اسپیکر اسمبلی غلام
صادق رہے ہیں جو اگر خود کسی یونیورسٹی میں لیکچر دینے بیٹھ جائیں تو انگلش
کا حلیہ تک بگاڑ دیتے ہیں،ایسے نا اہل شخص جس کے 50سے زائد لگائے گئے لوگوں
کو کشمیر کونسل کے اکاﺅنٹنٹ نئے بجٹ میں نے نکال باہر کیا تھا، فارغ
ہونےوالے ا ن 50لوگوں میں اسپیکر غلام صادق کا اپنا بیٹا بھی شامل تھا۔
حکومت آزاد کشمیر کے پاس ان جیالوں کیلئے فنڈز ہی نہیں ہیں اس لیے عوامی
ٹیکسز میں اضافہ کر کہ کشمیر لبریشن سیل جو بیس کیمپ کو مضبوط کرنے کیلئے
بنایا گیا تھا سے جیالوں کو نوازا جا رہا ہے ۔ جب بیرسٹر سلطان نے ان کے
خلاف آواز اٹھائی تو جذبات میں بہہ کر بہت آگے نکل گئے،اب موصوف وزیراعظم
اپنی حکومت کی کرپشن چھپانے کیلئے بیرسٹر کے کمزور لوگوں کو سیاسی
ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے خریدنے میں مصروف ہیں لیکن اب شاید' بہت دیر ہو گئی
مہربان آتے آتے کی مصداق چوہدری صاحب کے جانے کا وقت قریب آ رہا ہے اگر جلد
ایسا نہیں ہوتا تو بیرسٹر کی سپورٹ کرنے والے وفاقی وزیر کشمیر امور منظور
وٹو جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
مجید حکومت بننے کے پس منظر کو اگر دیکھا جائے توعیاں ہو گا کہ گزشتہ حکومت
مسلم کانفرنس کی تھی جب آزاد کشمیر میں جنرل الیکشن کا رزلٹ سب کے سامنے
آیا تو مسلم کانفرنس اور ن لیگ نے اپنی ہار پردھاندلی کا بہت رونا رویا تھا
،دھاندلی ہوئی بھی مگر اتنی نہیں ۔نہ ہوتی ،تب بھی پیپلز پارٹی جیت جاتی،
کیونکہ مسلم کانفرنس دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی اورمسلم کانفرنس کے ان
کھنڈرات پر راجہ فاروق حیدر نے ن لیگ کی نئی عمارت کھڑی کر دی گو کہ اس میں
بھی اب وہ جان نہیں رہی ،جس کی اس سے توقع راجہ فاروق حیدرسے کی جا رہی تھی
لیکن نومولود سیاسی جماعت آزاد کشمیر ن لیگ نے اپوزیشن جماعت بننے کا اعزاز
حاصل کر ہی لیاتھا۔جماعت اسلامی کا وﺅٹ بنک اور مخصوص سوچ ہونے کی وجہ سے
ان کے کسی نمائندہ کا اسمبلی میں جانا مشکل کام تھا ۔جب جنرل الیکشن ہوئے
تو عوام کے بھاری وﺅ ٹوں کے ذریعے پیپلز پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کی اور
حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔چوہدری مجید آزاد کشمیر کو وزیر اعظم منتخب
کیا گیا تب ہی سے با وثوق ذرائع نے کہا کہ چوہدری مجید کو 1سے 2سال کیلئے
وزیر اعظم منتخب کیا گیا ہے وہ اعلان یا معائدہ آج شاید درست معلوم ہو رہا
ہے ۔
26جولائی کو مجید حکومت جس کا ایک سال مکمل ہو چکا ۔ حکومت نے ڈپٹی اسپیکر
شاہن ڈار ، وزیر خوراک جاوید اقبال بڈھالوی اور دیگر حکومتی نمائندوں کی
اخباری تحریروں او ر مہنگے اشتہاروں کے ذریعے اپنے عظیم کارنامے اور
کامیابیاںعوام تک پہنچا نے کا اہتمام کیا ہے ، ان کامیابیوں میں مختلف
یونیورسٹیز اور میڈیکل کالجز، کیڈٹ کالجز،سڑکوں کی تعمیرات کے منصوبہ جات ،
آزاد کشمیر بھر کے صحافیوں کیلئے پریس کلبز کی عمارتیں اور جرنلسٹ کالونیوں
کے قیام اور آزاد کشمیر میں سرکاری ملازمین کے مسائل کے حل کے اعلان سمیت
19نئے میگا پراجیکٹس اور 480عوام دوست اقدامات کرنے کے اعلانا ت کیے جا رہے
ہیں۔جہاں ایک طرف حکومت کی طرف سے اپنی کامیابیوں کے یہ اعلانات کیے جا رہے
ہیں وہاںیہ حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح وفاق کے سامنے بے بس و
لاچارلونڈی کی مانند ہے، آزاد کشمیر حکومت کے تمام اہلکار خود کو پاک فوج
کا سپائی قرار دے رہے ہیں اگر فوجی بننے کا اتنا ہی شوق تھا تو وقت مقررہ
پر بھرتی ہو کر اسی کی خدمت کیوں نہیں کی کہ آج فوج کے نام کو عتیق خان کی
طرح اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ، آزاد کشمیر حکومت کی بے بسی
کی واضح مثال وفاقی حکومت کے زیر نگرانی ادارے کشمیر کونسل کا آزاد کشمیرکے
دیگر تمام اہم معاملات کے کنٹرول سمیت آزاد کشمیر کے آئینی معاملات میں
واضح برتری کا ہونا بھی ہے (آزاد کشمیر کے عوام اسمبلی میں قانون سازی
کیلئے جن نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیںان کو آزاد کشمیر اسمبلی میں آئین
سازی کی اجازت کشمیر کونسل کی اجازت کے بغیر نہیں ہو پاتی ) ۔آج ریاست کے
باسی آزاد کشمیر حکومت سے یہ سوال کرتے ہیں کہ انہیںبتایا جائے کہ کشمیر
کونسل ایک خود مختار اور غیر جوابدہ ادارہ کے طور پر کیوں کام کر رہی
ہے؟اگر یہ جمہوری اور منتخب حکومت ہے تواس کے دائرہ اختیار میں مداخلت کیوں
کی جاتی ہے ؟ و زیر اعظم پاکستان کو کس بنیاد میں کشمیر کونسل کے سربراہ کی
حیثیت دی گئی ہے ؟آزاد کشمیر اسمبلی و قانون کے سامنے غیر جوابدہ ادارے کو
کس بنیاد پر 52اہم شعبوں کا کنٹرول دیا گیا ہے ؟ہائی کورٹ، سپریم
کورٹ،الیکشن کمشنر ،چیف سیکریٹری،سیکریٹری مالیات ،آئی جی اور اے جی کووفاق
کس بنیاد پر آزاد کشمیر کے عوام پر مسلط کرتا ہے؟ جبکہ ان میں سے کوئی بھی
آزاد کشمیر کی منتخب حکومت کو جوابدہ نہیں ؟ کونسل کی نشستوں میں اضافہ کر
کہ عوامی ٹیکسز میں اضافہ کر کہ کونسل کے ممبران کے بھاری اخراجات پورے کیے
جاتے ہیں جبکہ کونسل کا فنڈ جو آزاد کشمیر کے عوام پر خرچ ہونا چاہیے اس کو
وفاق میں بڑی بڑی عمارتیں بنانے اور اپنی عیاشیوں کیلئے کیوںخرچ کیا جاتا
ہے ،مجید حکومت رخصتی سے پہلے بتائے کہ ا ن کی اسمبلی آخر کب اور کیسے
بااختیار ہو گی ؟
جہاں ایک طرف موجودہ حکومت میں بیرسٹر اور چوہدری مجید میں اقتدار کیلئے
جنگ چل پڑی ہے وہاں کشمیر کونسل نے اپنی کرپشن چھپانے کیلئے چیئرمین احتساب
بیورو مظہر کلیم کو زبردستی تبدیل کروا دیا ہے ،نئے چیئرمین احتساب بیورو
رفیق محمود کا شمار پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے بانی جیالوں میں ہوتا ہے اب
ان کا بھی امتحان ہے کہ وہ کیسے وارنٹ گرفتاری واپس لیتے ہیں اور اپنی ہی
حکومت کی کرپشن کو ختم کرواتے ہیں (ایسا ممکن نظر نہیں آتا) ۔ اپنے آپ کو
مزید نا قابل تسخیر بنانے کیلئے اور کونسل کو احتساب سے مثتثنیٰ قرار
دلوانے کیلئے اسمبلی سے ایکٹ منظور کروانے کی حکمت عملی بھی بنا دی ہے جس
پر بہت جلد عمل ہو جائے گا ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ چوہدری مجید خود کو کب تک
وزیر اعظم منوا ئے رکھتے ہیں اورسابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری
اپنی اہمیت کو کس حدتک منوانے میں کامیاب ہو تے ہیں،اپوزیشن جماعتیں عوام
سے کس حد تک مخلص ہو کر حکومتی کرپشن کے خلاف کیا کردار ادا کر تی ہیں اور
یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ عوام ان سیا ست گردوں( سیاسی چالبازوں) کے نرغے سے
باہر نکل پاتی ہیں کہ ابھی اور بھی عشروں کا وقت درکار ہے ۔ |