افغانستان میں نیٹو کے زیر کمان
500سے زائد اہم چوکیاں، فوجی مراکز میں تعینات ساڑے تین لاکھ افغان فوجی
جوگرین کلر کی یونی فارم پہنتے ہیں جبکہ نیٹو افواج بلیو وردی کے ساتھ اپنی
ایک لاکھ تیس ہزار فوجی کے ساتھ افغانستان میں تعینات ہیں اور 2014کے
اختتام کے بعد نیٹو افواج کا انخلا متوقع قرار دیا جا رہا ہے ۔واشنگٹن
امریکی ایوان نمائندگان نے 607ارب ڈالر کے دفاعی بجٹ کی منظوری دی تھی جس
میں امریکی دفاعی بجٹ میں524ار ب ڈالر پینٹاگون کے اخراجات اور 83ارب ڈالر
افغانستان سمیت بیرون ملک آپریشن پر خرچ کئے جائیں گے۔2011کی اقوام متحدہ
کی روپوٹ کے مطابق بے گناہ شہریوں کی اموات میں گذشتہ پانچ سالوں سے مسلسل
اضافہ ہوتا آیا ہے اور صرف ایک سال میں بے گناہ ہلاک ہونے شہریوں کے تعداد
3021کے قریب بتائی گئی جو کسی ایک سال کے مقابلے میں شہریوں کی اموات میں
سب سے زیادہ شرح ہے۔جبکہ صرف32 گرین آن بلیو حملوں میں آٹھ ماہ کے دوران
44اتحادی فوجی ہلاک کئے جاچکے ہیں۔
امریکی اڈے بگرام میں قرآن پاک کے نسخوں کو جلائے جانے اور امریکی پادری
ٹیری جونز کی جانب سے قرآن پاک نذر آتش کئے جانے کے واقعات نے افغان عوام
میں امریکہ کے خلاف نفرت کی آگ کو بام عروج پر پہنچا نے میں جلتی پر تیل
چھڑکنے کا کام دیا ہے۔افغان اپنی قدیم روایات کی بناءپر غیر ملکی تسلط
کوبرداشت کرنے کا عادی کبھی نہیں رہا۔24دسمبر1979کو افغان سر زمین پر
جارحیت کرنے والی40th سودیت آرمی کے انجام تک افغانی عوام یکسو ہوکر اپنی
سرزمین کا دفاع کرتے رہے اور بالاآخر15فروری 1989کو سودیت پسپا ہوکر واپس
چلی گئی اور اس طویل جنگ کا نقصان افغانستان کی عوام کو جانی و مالی صورت
میں اٹھانا تو پڑا لیکن سودیت یونین بھی اس سے محفوظ نہیں رہا اور پارہ
پارہ ہوگیا۔امریکہ اپنے اربوں ڈالرز کے بھاری بھرکم اخراجات کے نتیجے میں
معاشی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے جبکہ اس کی حکمت عملی کے مقابلے میں طالبان
کی حکمت عملی کامیاب رہی ہے کیونکہ دنیا کی خطرناک ترین گوریلا جنگ میں
امریکہ سمیت اتحادی افواج کو زچ کرکے اتنا مجبور کردیا گیا کہ ان کی جانب
سے متعدد بار باقاعدہ مذکرات کی پیش کش اور خیر سگالی کی جذبات کے اظہار کی
صورت میں طالبان قیدیوں کو رہا بھی کیا گیا۔ امریکی،اتحادی اور افغان افواج
"گرین آن بلیو حملوں" کے تعین میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں یقینی طور پر
امریکہ مشرقی تاریخ پر گہری نظراور اس سے ناواقف نہیں ہوگا کہ برطانوی اور
ان کے اتحادی افواج کے خلاف ہندوستان میں بھی اندرون خانہ "گرین آن بلیو
حملوں" طرز کی ایک تحریک ریشمی رومال اور بغاوت 1857ئ میں ہندوستانی فوجیوں
نے انگریزی فوجیوں کے خلاف عسکری حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اسلحہ ڈپوﺅں
پر قبضہ کرلیا تھا اور مغلیہ سلطنت کے آخری فرماروا بہادر شاہ ظفر کے تاج
کو بچانے کے لئے افغانیوں سے بھی مدد طلب کی گئی تھی۔یقینی طور پرطور پر
عرب ممالک میں جس طرح انقلاب لائے جا رہے ہیں اور خاص طور پر عراق میں کرد
عوام ،اور لیبا میں قذافی مخالف گروپ کو استعمال کیا گیا اس سے تو بچہ بچہ
واقف ہے کہ امریکہ کا اس تمام عوامل میں کتنا اہم کردار رہا ہے۔ایران میں
ترقی پسند گروپ اور اب شام کے خلاف خود اسلامی ممالک کی غیر فعال تنظیم او
آئی سی کی جانب سے رکنیت کی معطلی کے لئے امریکی دبا ﺅ بھی کسی سے پوشیدہ
نہیں ہے۔
امریکی عسکری قیادت نے کس طرح اس بات پر یقین کرلیا ہوگا کہ طالبان نے
افغان فوجی بھرتیوں میں اپنے فدائین شامل نہیں کئے ہونگے۔اگر ایسا نہیں ہے
تو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب معاملات اس قدر بڑھ جائیں کہ اسلام اور جان
میں انتخاب کرنا ہ تو مسلمان اسلام کو فوقیت دیگا ۔ افغانستان کی تو تاریخ
گواہ ہے کہ جب بھی یہاں جارحیت ہوئی اور افغان عوام نے بیرونی جارح کے خلاف
جنگ کی تو اسلام کے نام پر ہی کی۔گذشتہ دنوں ہلمند کے علاقے میں17افراد کے
سر قلم کرنے کے واقعے کو طالبان کی جانب موڑا جا رہا ہے جبکہ طالبان نے
ایسے کسی واقعے سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے جس سے اس خدشات کو تقویت مل رہی
ہے کہ امریکہ کی جانب سے 2014ئ کے بعد افغانستان میں رکنے کا جواز پیدا
کرنے کےلئے ایسی کاروائیاں کیں جا رہی ہیں تاکہ دنیا کو یہ تاثر دیا جا سکے
کہ اگر نیٹو افواج نے افغانستان کو خالی کردیا تو طالبان عسکریت پسند گروپ
کی جانب سے دنیا میں دہشت گرد کاروائیوں کے خطرات موجود رہیں گے اور
افغانستان ایک بہترین پناہ گاہ کے طور پردنیا کے امن کے لئے تلوار کی طرح
ان کے سر پر موجود رہے گی اور ان کے گردنیں اس کی زد میں آسکتی ہیں ۔ یہی
وجہ ہے کہ پاکستان پر دباﺅ بڑھانے کے لئے کبھی حقانی گروپ ، تو کبھی کوئٹہ
کی مجلس شوری کا واویلا کیا جاتا ہے۔
امریکہ اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود عرصہ دراز تک اسامہ بن لادن کو
تلاش کرنے میں ناکام رہا اور اب بھی شمالی وزیرستان میں آئے دن ڈرون حملوں
میں القائدہ کے قائدین اور سرکردہ رہنماﺅں کو ہلاک کرنے کے دعوے کئے جاتے
ہیں لیکن اس کے باوجود شمالی وزیرستان میں مشترکہ آپریشن کے ذریعے پاک
سرحدوں کے اندر افغانستان کی زمینی جنگوں کا رخ امریکی پالیسی کا حصہ بن
چکا ہے جس کا پاک افواج کو ادراک ہے اس لئے واضح طور پر افواج پاکستان کے
سربراہ کی جانب سے کہہ دیا کہ آپریشن کا فیصلہ سیاسی قیادت اور پاکستانی
فوج کرے گی۔امریکہ زبردست فرسٹریشن کا شکار ہے اور نفسیاتی شکست اور امریکہ
میں صدارتی انتخابات میں افغانستان کی لاحاصل جنگ ، بھاری اخراجات اور
امریکی فوجیوں کی مسلسل ہلاکتوں کے بعد "گرین آن بلیو حملوں" میں تیزی کی
روک تھام میںسے امریکی عوام کی شدید ناراضگی سامنے آرہی ہے۔جس سے نکلنے کے
لئے امریکہ پالیسی میکرز افغانستان میں رکنے کےلئے اور دنیا کی توجہ دوسری
جانب مرکوز کرنے کےلئے "گریٹ گیم" کی حکمت جاری رکھے ہوئے ہے لیکن "گرین آن
بلیو حملوں" نے امریکہ کی سیاسی اورفوجی قیادت کو سر جوڑنے پر مجبور کردیا
ہے کہ اگر ساڑے تین لاکھ افغان فوجیوں میں کثیرتعداد نے بغاوت کردی توپھر
کیا ہوگا ۔؟ |