پاکستان کی سالمیت کو یقینی
بنانے کا ایک ہی سنہری اصول ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر شخص کو آئین ، قانو ن
اور انصاف کے ترازو میں تولا جائے اور ایسا کرتے وقت کسی سے کوئی رو رعائت
نہ برتی جائے۔ہر وہ شخص جو گناہ گار ثابت ہو جائے اسے اس کے گناہوں کے
مطابق سزا دی جائے تا کہ کسی دوسرے کو جرم و گناہ کا ارتکاب کرنے کی ہمت نہ
ہو سکے۔ کامراائر بیس پر تحریکِ طالبان کا تازہ حملہ ایک نئی سازش کا عندیہ
دے رہا ہے۔ یہ تو نیرے فوجی جوانوں کی جرائتیں تھیں جھنو ں نے تحریکِ
طالبان کی گہری سازش کو اپنی جان کی بازی لگا کر ناکام بنایا وگرنہ تحریکِ
طالبان نے تو ہمیں نقصان پہنچانے ور رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی
تھی۔حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ تحریکِ طالبان جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی
میں چھید بھی کرتے ہیں ۔ہماری مذہبی جماعتوں کی کوتاہ نظری تو ملا خطہ
کیجئے کہ وہ پھر بھی اس حقیقت کا ادراک نہیں کر رہیں کہ تحریکِ طالبان کے
خلاف اپریشن کیا جا نا ضروری ہے تا کہ پاکستان کی سالمیت کو یقینی بنایا جا
سکے اور امن و امان کے مسئلے سے بہتر انداز میں نمٹا جا سکے۔ مذہبی جماعتو
ں کی تو دلی آرزو ہے کہ حالات ایسے ہی دگرگوں رہیں تا کہ اسلامی تعلیمات کے
پرچار کےلئے انھیں بہتر مواقع میسر آسکیں۔تحریکِ طالبان کی مبینہ کاروائیاں
روکنے کےلئے ہم نے سلالہ چیک پوسٹ قائم کی تھی تاکہ طالبان پر گہری نظر
رکھی جا سکے لیکن بد قسمتی سے نیٹو افواج نے 26نومبر2011 کو سلالہ چیک پوسٹ
پر فضائی حملہ کر کے 26 فوجی جوانوں کو شہید کر دیا جس پر پورے ملک میں غم
و غصے کی لہر دوڑ گئی۔یہ ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ تھا جس سے صرفِ
نظرنہیں کیا جا سکتا تھا لہذا پاکستان نے اس واقعے پر بڑا سخت ردِ عمل ظا
ہر کیا اور نیٹو سپلائی کی بندش کا فیصلہ کر کے امریکہ اور نیٹو اقوام کو
ان کی اوقات یاد دلا دی۔ اہم سوال یہ تھا کہ اگر اسی طرح ہماری چیک پوسٹوں
پر جارحانہ کاروائیاں ہوتی رہیں تو بھر بحثیتِ قوم ہماری غیر ت و حمیت خا ک
میں مل جائےگی اور ہم ایک آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے دنیا کو منہ
دکھانے کے قابل نہیںرہیں گئے لہذا اس پر سخت ردِ عمل دکھانا ضروری تھا ۔
امریکہ سے اس واقعے پر معافی کامطالبہ اپنے قومی تشخص اور آزادی پرلگنے
والے بد نما داغ سے بچنے کی ایک کوشش تھی جسے امریکہ نے بڑے حیل و حجت کے
بعد تسلیم کیا۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ سلالہ چیک پوسٹ جیسا واقعہ کیوں پیش
آیا ؟کیا ہم اپنے دفاعِ وطن کی ذمہ داری سے غا فل تھے یا جن لوگوں کو یہ
اہم فریضہ سونپا گیا انھوں نے اس میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا؟یہ بھی ممکن ہے
کہ ہم نے اپنے طور پر یہ فرض کر لیا ہو کہ ہماری مغر بی سرحدیں محفوظ ہیں
اور ہمیں وہاں سے کسی قسم کی جارحیت کا کوئی شائبہ نہیں ہے لہذا میٹھی نیند
سو لیا جائے۔ پاکستانی قوم یہ جاننے کا حق رکھتی ہے کہ دفاعِ پاکستان کا ذ
مہ دار کون ہے؟
کیا فوج کا کام ملکی سر حدوں کی حفا ظت کرنا نہیں ہے ؟ اگر واقعی یہ انہی
کا کام ہے تو پھر دفاعِِ وطن سے غفلت کی سزا بھی تو ہوتی ہے ۔ کیا دفاعِِ
وطن سے غافل ہونا غداری کے جرم کا ارتکاب نہیں ہے؟حقیقت کچھ بھی ہو ہمیں اس
واقعے کے تمام پہلو ﺅں کا جائزہ لے کر ذ مہ داروں کا تعین کرنا ہے تا کہ
خطا کاروں کو قرار واقعی سزا دی جا سکے۔ اگر چہ پاکستان میں فوجی قیادتوں
کی جواب دہی کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے لیکن ہمیں اس جانب سنجیدگی سے
سوچنا ہو گا تاکہ فوجی قیادتوں کو بھی احساس ہو جائے کہ انکا محاسبہ ہو
سکتا ہے۔ہر وقت سیاسی قیادتوں کو ہی نوکِ شمشیر پر رکھنے کی روش ختم ہو
جانی چائیے بلکہ دوسرے تمام اداروں کو بھی جوابدہی کے لئے تیار رہنا چائیے
تاکہ بحثیتِ قوم اپنا بہتر تشخص اجاگر کر سکیں اور یہی وقت کا تقاضہ بھی ہے
۔ ۲ مئی کو بھی امریکہ نے ایبٹ آباد میں ایک اپریشن کیا تھا اور اسامہ بن
لادن کو قتل کرنے کے بعد اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ کراچی نیول بیس اور جی ایچ
کیو پر حملے اسی نوعیت کے واقعات ہیں جن میں ہماری فوجی قیادت کو ہزیمت
اٹھا نی پڑ ی تھی ۔ دفاعِ پاکستان کے تناظر میں حا لیہ برسوں میں فوجی
قیادت عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی ۔ اسکی وجہ اگر یہ ہے کہ فوجی
جنتا دفاعِ وطن سے زیادہ سیاسی معاملات میں دلچسپی لے رہی ہے اور جمہوری
حکومتوں کی الٹ پلٹ میں اپنا اثرو رسوخ استعمال کر رہی ہے تو فوجی جنتا کو
اپنے اس کردار پر غور کرنا ہو گا ۔ ملکی معاملات چلانا سیاستدانوں کا کا
کام ہے اور فوجی جنتا کو چائیے کہ وہ انھیں یہ کام آزادی کے ساتھ سر انجام
دینے دے ۔ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا اور اس ملک کی سالمیت کا دفاع
کرناہے اور یہی فر یضہ انہیں سر انجام دینا چائیے کیونکہ اسی فریضے کی بجا
آوری پر قوم انھیں سر آنکھوں پر بٹھا تی ہے اور انکی عظمتوں کے گیت گاتی ہے
لیکن انتہائی اہم سوال یہ ہے کہ کیا فوجی جنتا اپنے ان پیشہ وارانہ فرائض
کی بجا آوری میں سر خرو ہے؟ فوجی قیادت کو اس اہم سوال کا جوب دینا ہو گا
کیونکہ اسی سوال کے جواب پر پاکستان کی بقا،دفاع،سالمیت استحکام اور
جمہوریت کا دارو مدار ہے۔۔
یہ بات ساری دنیا کے علم میں ہے کہ خارجہ امور اور دفاعی امور مکمل طور پر
آرمی کے کنٹرول میں ہیں اور ان میں حکومت کی رائے کو زیادہ اہمیت نہیں دی
جاتی ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے سارے اہم فیصلے آرمی چیف کرتے ہیں اور
اس میں حکومت بالکل مداخلت نہیں کرتی اور اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان کی
خارجہ پالیسی آرمی چیف کے اشاروں پر تیار ہوتی ہے توبے جا نہ ہوگا۔ نیٹو کی
سپلائی کی بندش کا فیصلہ بھی آر می چیف کی ہدایات کی روشنی میں کیا گیاتھا
اور اسے کھولنے کا حکم بھی انہی کی رائے کے مطابق صادر ہوا تھا ۔وقت آگیا
ہے کہ حکومت خا رجہ امور کے فیصلے خود کرے تا کہ حکومتی پالیسی سازی میں
فوجی مداخلت کے امکانات کم سے کم تر ہو جائیں ۔ شروع شروع میں حکومت کو کچھ
مشکلات کا سامنا کرنا پڑےگا لیکن آخرِ کار حکومت فوجی جنتا کے خوف کے سائے
سے باہر نکل آئےگی جو کہ جمہوری رویوں کی مضبوطی کی غماض ہو گی۔ میری ذاتی
رائے یہ ہے کہ کسی ایک حکومت کو اس ضمن میں پہل کرنی ہو گی۔ عوامی جماعت ہو
نے کے ناطے پی پی پی کو اس اہم کام کا آغاز کرنا ہو گا اور اس مشکل مشن کو
اپنے ہاتھوں میں لینا ہو گا۔اسٹیبلشمنٹ کی جماعتوں سے اس کارِ خیر کی توقع
رکھنا بنجر زمین میں فصل اگانے کی آس لگانے کے مترادف ہو گا۔ان سیاسی جما
عتوں کی تو ساری سیاسی زندگی فوجی جنتا کی نرسری سے شروع ہو کر وہی پر ختم
ہو جاتی ہے۔فوجی جنتا ہی انھیں سیاست میں لاتی ہے اور وہی انھیں اقتدار کے
ایوانوں میں اہم رول بھی عطا کرتی ہے۔ ایسے سیاستدانوں کی عوام میں پذیرائی
نہ ہونے کے برابر ہو تی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے سہاروں پر سیاسی رول ادا کرنے
والے یہ سیاستدان فوجی جنتا سے کہاں الجھ سکتے ہیں۔ فوجی جنتا کے نام پر تو
ان کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں لہذا ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ آزادا نہ خارجہ
پالیسی کی بنیاد رکھیں گئے احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہو گا۔پی پی
پی ایک ترقی پسند جماعت ہے اور عوامی جذبات و احساسات کی حقیقی ترجمان ہے
لہذا اس مشکل کام کو کرنے کا مشکل فریضہ اسے ہی انجام دینا ہو گا اور وہ یہ
کام بخوبی کرسکتی ہے کیونکہ اسکی تاریخ عوامی حقوق کی جنگ لڑتے ہو ئے گزری
ہے۔ پارلیمنٹ میں ملک کی ساری جماعتوں کی نمائندگی ہو تی ہے لہذا ان
جماعتوں کی سفارشات کی روشنی میں جو بھی خا رجہ پالیسی تشکیل پائےگی وہ
قومی امنگوں کی ترجمان ہو گی اور فو جی جنتا کے اثر سے آزاد ہو گی ۔ دیکھنا
ہے کہ پی پی پی اپنے اس مشن میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہے-
پارلیمنٹ عوامی ووٹوں سے منتخب ہو کر آتی ہے اور عوام کے سامنے جواب دہ
ہوتی ہے لہذا اسے ہی قانون سازی اور پالیسی سازی کا مکمل ا ختیار ہوتا ہے ۔
ریاست کے تمام ادارے اپنی اپنی حدود و قیود میں رہ کر حکومت کی معا ونت
کرنے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں لیکن پالیسی سازی کا اختیار انھیں بالکل
نہیں ہو تا پالیسی بنانا پارلیمنٹ کا کام ہوتا ہے۔ وزیرِ اعظم پارلیمنٹ کی
اکثریت کا منتخب نما ئندہ ہونے کی حیثیت سے فیصلے کرنے کا مجاز ہو تا ہے۔
سابق وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی اس لحاظ سے منفرد حیثیت کے مالک تھے
کہ پاکستانی تاریخ میں وہ پہلے وزیرِ اعظم تھے جو بلا مقابلہ منتخب ہوئے
تھے اور جن پر پوری پا رلیمنٹ نے اظہارِ اعتماد کیا تھا ۔ پورے ہاﺅس کے
اعتماد کی وجہ سے ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی تھی ہے کہ وہ ساری سیاسی
جماعتوں کے ساتھ مفاہمانہ طرزِ عمل کا مظاہرہ کریں تاکہ ہر جماعت یہ محسوس
کرے کہ وزیرِ اعظم انھیں اعتماد میں لے کرفیصلے کرتے ہیں۔ امریکی جارحیت کے
خلاف پوری قوم کی امنگوں کی وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے جس موثر
انداز سے ترجمانی کرکے بون کانفرنس کا با ئیکاٹ کیا تھا وہ قابل ستائش تھا
۔شمسی ائر بیس کا امریکی فوجوں سے خالی کروانا ایک ایسا بڑا واقعہ تھا جس
پر سابق وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو داد و تحسین سے نوازا جانا
انتہائی ضروری ہے۔ کئی سالوں کے انتظار کے بعد شمسی ائر بیس پر پاکستانی
پرچم کو لہر اتے دیکھ کر قوم کی شادمانی اور مسرتو ں کا اندازہ لگا نا
چنداں دشوار نہیں تھا ۔ شمسی ائر بیس کو خالی کروانا بڑے د ل گردے کا کام
تھا اور سابق وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے واقعی ایسا کر کے بڑی جرات
کا مظاہرہ کیا تھا جس کی وجہ سے پوری قوم ان کی صلاحیتوںکی معترف ہو گئی
تھی ۔ نیٹو سپلائی کی بندش سب سے مشکل کام تھا لیکن موجودہ حکومت نے یہ
ناممکن کام بھی کر دکھایا۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کےلئے حکومت کا یہ
انداز بالکل نیا اور غیر متو قع تھا جس کی انھیں بہت تکلیف تھی اور بڑے
ترلے منتوں کے بعد نیٹو سپلائی کا بحالی کا مرحلہ سر ہو ا تھا ۔ امریکہ اور
اس کے حواریوں کو ان کی اوقات یاد دلا نے کےلئے نیٹو کی سپلائی روکنا
انتہائی ضروری تھا تا کہ مستقبل میں وہ ہماری سرحدوں پر سلالہ چیک پوسٹ
جیسی بزدلانہ کاروائی کرنے کا تصور نہ کر سکیں ۔لیکن افسوس کا مقام ہے کہ
ایک سازش کے تحت اسی با جرات زیرِ اعظم کو توہینِ عدالت کے جرم میں وزارتِ
عظمی سے فارغ کر دیا گیا جس سے موجودہ حکومت کی بے بسی اورچند مخصوص اداروں
کا اپنی حدود سے تجاوز کرنے کا با آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔۔۔ |