مشہور جرمن فلسفی" شوپن بارایک"
ایک روزباغ میں سیبوں کے پھلوں کے قریب کان لگائے جیسے کچھ سننے کی کوشش کر
رہاتھا۔ کچھ دیر بعد کان ہٹا کر کبھی ہنستا،کبھی قہقہہ لگاتا، باغبان اُسے
دیکھ کر کچھ گھبر ا گیا ، قریب آکر نہایت تعجب سے پوچھا"کون ہو تم "شوپن
بارایک نے باغبان کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا "میں تمھارا ممنون ہونگا اگر تم
مجھے بتادو کہ میں کون ہوں"باغبان گھبرا کر بھاگ گیا یہ اُس وقت شو پن
ہارایک کا پاگل پن نہیں تھا بلکہ آج کی بھی انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ کراچی
کے عوام ایک دوسرے کو دیکھ کر پوچھتے ہیں کہ کون ہیں ہم ؟ ۔۔ ہمیں کیوں
مارا جا رہا ہے ؟۔۔۔ ہمارا قصور کیا ہے ؟ ۔۔۔کیا ہم اِس ملک کے شہری نہیں
ہیں ؟ ۔۔۔کیا ہم انسان نہیں ہیں ؟ ۔۔!!!!
کراچی میں امن و امان ، ٹارگٹ کلنگ ، فرقہ وارنہ قتل غارت، لسانی کلنگ ،سیاسی
کلنگ ، بھتہ و تاوان کےلئے انسانی جانوں کو اتنی بڑی تعداد میں تیغ زن کیا
گیاہے کہ اس کی مثال نوع انسانی میں نہیں ملتی کہ مسلسل کئی سالوں سے خون
آشام عفریت نے معصوم انسانوں کے خون سے پیاس بجھانے کا جو سلسلہ شروع کیا
ہے اس کا سلسلہ کیسی طور پر رکنے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔گذشتہ چند ہفتوں
سے ہلاکتوں کی تعداد میں اس قدر تیزی آئی ہے کہ کسی بھی سیاسی ، مذہبی
جماعت یا فرقے کا کارکن تک محفوظ نہیں ہے۔حکومت کی جانب سے خاموشی اور رٹ
قائم میں کرنے میں ناکامی سے عوام میں شدید عدم تحفظ کا احساس پیدا
ہوچکاہے۔مخفی قوتیں کراچی کے ہر علاقے سے جنازے اٹھانے کے مشن پر پلاننگ کے
تحت مصروف عمل ہے ،سیکورٹی ادارے رسمی کاروائیوں تک محدود ہوچکے ہیں۔اب
توچیف جسٹس آف پاکستان بھی صرف رسمی بیان دینے تک محدود ہوگئے ہیں۔سپریم
کورٹ کراچی ازخود نوٹس کیس فیصلے کے مطابق میں ہر ماہ مقررہ کمیٹی کا کردار
اور حکومتی اداروں کی کارکردگی پر نگرانی پر کس قدر عمل در آمد ہو رہا ہے
اس سے عوام بے خبر ہیں۔عوام روشنیوں کے شہر کی رونقیں بحال ہونے کو ترس گئے
ہیں،رات گئے تک مصرف ترین شہر کو خوف وہراس میں اس قدر مبتلا کردیا گیا ہے
کہ اب اللہ تعالٰی سے دعا مانگتے ہیں کہ"۔۔
ہاں دیکھادے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
لوٹ پیچھے کی طرف ، اے گردش ایام تو
چونکہ کراچی میں سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ایم کیو ایم ہے لہذا امن و امان کے
حوالے سے پاکستانی عوام کا رخ متحدہ کی جانب ہونا ایک فطری امر ہے ۔ حالیہ
ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی سب سے زیادہ متاثرہ جماعت متحدہ می موومنٹ ہے
۔کوئی دن ایسا نہیں گذرتا کہ ان کے کسی کارکن یا ذمے دار کو ہلاک نہ کیا
جاتا ہو ، رابطہ کمیٹی ہو یا ان کے شعبے کے ذمے داران و کارکنان شب و روز
اپنے کارکنان کے جنازے اٹھا رہے ہیں صبح ایک کارکن کی نماز جنازہ پڑھ کر
آتے ہیں تو شام دوسرا جنازہ تیار ملتا ہے۔جرائم پیشہ قوتوں کی جانب سے ایم
کیو ایم کو جس طرح نشانہ وار ہدف کاشکار بنایا گیا ہے تو دوسری سیاسی
جماعتیں بھی اس شر سے محفوظ نہیں ہیں، اور رہی سہی کسر فرقہ وارانہ ہلاکتوں
نے پوری کردی ہے۔موجودہ حالات میں صرف ایک بات طے شدہ ہوئی ہے کہ جب بھی
لیاری میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کیا جاتا ہے توان دیکھی قوتیں
باہر نکل آتی ہیں اور پورے شہر میں ہدف بنا کر قتل کرنے کی واردتیں شروع
ہوجاتی ہیں۔مسئلہ کسی بھی دو فریق کا اپنا ذاتی ہو ایسے فوری طور لسانی رنگ
دےکر شہر میں امن کی فضا برباد کردی جاتی ہے۔
کراچی کے حالات پر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پروپیگنڈا کیا جاتا ہے جس سے
عام آدمی متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا۔مخصوص پروپیگنڈے کے تحت حساس
معاملات سے" کرم خوردہ کراچی "کو مزید چھلنی چھلنی کردیا جاتا ہے۔ملیر ،
فیڈرل بی ایریا، لانڈھی، کورنگی، جہانگیر روڈ ، مارٹن کوارٹر، اورنگی ٹاﺅن
میں سیاسی کارکنان کی بڑی تعداد میں ٹارگٹ کلنگ کی گئی سوائے ایک جماعت کے
کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ کی ذمے داری بر سر اعلان قبول کرنے کے دیگر جماعتوں
کے کارکنان کے قتل کی ذمے داری کسی نے قبول نہیں کی ۔ اگر اے این پی کے
کارکنان کے قتل کی ذمے داری بھی شدت پسندوں کی جانب سے قبول نہیں کی جاتی
تو کراچی کو لسانی قتل و غارت کی جانب موڑنے کی ایک بار پھر بھر پور کوشش
کی جاتی۔
ایم کیو ایم کی جانب سے" جلسہ پیغام محبت "کے بعد لسانی بھائی چارے اور
باہمی اخوت کے ساتھ دونوں قومیتوں (پختون، مہاجر) کے درمیان اعتماد کا رشتہ
پیدا ہونے شروع ہوا جیسے ہر خاص و عام نے جہاں محسوس کیا تو دوسری جانب
میڈیا اور قومی حلقوں میں ایم کیو ایم کی اس کوشش کو سراہا گیا جس کے نتیجے
میں برسوں سے پیدا کی جانے والی نفرتوں کی خلیج ختم ہوتے ہوئے محبت و اخوت
کا ایک نیا سلسلہ عوام کی نچلی سطح تک پہنچا لیکن امن کے دشمنوں کو کراچی
کا امن گوارہ نہیں تھا کیونکہ اس سے ان کے مذموم عزائم کو ناکامی کا سامنا
کرنا پڑ رہا تھا ، لہذا شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو نشانہ بنانے
کا سلسلہ تیز کردیا گیا تاکہ شہر میں فرقہ وارنہ فسادات کی فضا پیدا کی
جاسکے ، ناظم آباد ، رضویہ ، انچولی ، کے علاقوں اور ملک کے دیگر حصوں میں
فرقہ ورانہ قتل و غارت کا مقصد براہ راست کراچی کو متاثر کرنا تھا کیونکہ
کراچی کوکمزور کرنا پاکستان کی معیشت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
کراچی میں امن کے قیام کے لئے ارباب اختیار کو سنجیدگی سے کام کرنے کی
ضرورت ہے۔ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ "ایک گال پر تھپڑ کےلئے کسی کا ہاتھ
اٹھنے سے پہلے ہی اسے مکُا مارنے کی تلقین ملے اور حکومت اپنی ناکامی پر
"نو بیوہ عورتوں کی طرح بین کرتی نظر آئے اور کرم خوردہ کراچی کے عوام
اربابِ اختیار کے لئے قہر و غضب کا "اوتار"بن جائیں۔ |