معدنی وسائل سے مالامال بلوچستان
رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم صوبہ ہے۔ اس کا رقبہ 347190
مربع کلو میٹر ہے جو پاکستان کے 44 فیصد رقبے پر مشتمل ہے ۔ اس کی آبادی
ایک اندازے کے مطابق 90 لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان ہے جبکہ بلوچستان کی
آبادی پاکستان کی کل آبادی کا صرف پانچ فیصد ہے۔ اس کے شمال میں افغانستان
، جنوب میں بحیرہ عرب، مشرق میں پنجاب اور مغرب میں ایران واقع ہے۔
آثار قدیمہ کی دریافتوں سے ثابت ہو تا ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور
میں بھی آبادی تھی۔ پاکستان کا ساحلی علاقہ زیادہ تر بلوچستان پر مشتمل ہے۔
قیام پاکستان کے وقت یہ مشرقی بنگال، سندھ، پنجاب اور صوبہ خیبر پختون خواہ
کی طرح برطانوی راج کا باقاعدہ حصہ نہیں تھا بلکہ 1947 تک بلوچستان، قلات،
خاران، مکران اور لسبیلہ کی ریاستوں پر مشتمل تھا جن پر برطانوی نمائندے
نگران تھا۔ قلات کی ریاست سب سے بڑی ریاست تھی اس کے حکمران خان آف قلات
میراحمد یار خان نے قیام پاکستان سے دو روز قبل اپنی ریاست کی مکمل آزادی
کا اعلان کیا۔
1947 میں جب پاکستان قائم ہوا تو پاکستان نے ریاست قلات کے ساتھ ایک
سمجھوتہ کیا جس میں اس کی خودمختاری اور سا لمیت کو تسلیم کیا گیا۔ تاہم
قلات پارلیمان کے دونوں ا یوانوں نے 1947 میں آزادی کا دعوی کر دیا تھا
اوراحمد یار خان نے بعد میں تسلیم کیا کہ انہیں پاکستان کی طرف سے شمولیت
کا مطالبہ تسلیم کرنے کا کوئی حق حاصل نہ تھا ۔ اس وقت سے صوبے میںکئی
علیحدگی پسند گروپ پاکستانی حکومت کے خلاف مسلح تحریک چلا رہے ہیں۔بلوچستان
کے قوم پرستوں اور حکومت پاکستان کے درمیان بلوچستان ایک دیرینہ مسئلہ بن
کر رہ گیا ہے۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے فوراً بعد پاکستان کی فوج کو قلات
ڈویژن میں اپنی چھاﺅنی قائم کرنا پڑی کیونکہ قلات کے عوام نے خان آف قلات
کے پاکستان سے الحاق کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
بلوچستان میں سب سے پہلی تحریک پرنس کریم آغا خان نے 1948 میں شروع کی۔آج
بھی آغا خان فاؤنڈیشن مختلف منصوبوں کی صورت میں بلو چستان میں مصروف عمل
ہے ۔ بعد میں 1968 میں نواب نوروز خان نے اس کی قیادت سنبھال لی۔ یہ قبائلی
تحریکیں اپنے دائرہ کار کے اعتبار سے محدود تھیں۔ زیادہ شدید بغاوت 1973
اور 1977 میں مری اور مینگل قبائل کی زیرقیادت چلائی گئی۔
1963 سے لے کر 1969ءتک بلوچ رہنما شیر محمد بجارانی مری نے پاکستان کے خلاف
گوریلا جدوجہد شروع کی جس کا احاطہ 45 ہزار مربع میل کے علاقے پر پھیل گیا
بعد میں اس جدوجہد میں مینگل' مری اور بگٹی قبائل بھی شامل ہو گئے ۔ مقصد
محض بلوچستان کے علاقے سوئی سے دریافت ہونے والی گیس کے ذخائر سے ہونیوالی
آمدنی میں شراکت تھی ۔ گوریلا جدوجہد میں ریلوے ٹریکس تباہ کئے گئے اور
وفاقی حکومت کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا ۔ 1969ءمیں بلوچ شدت پسندوں اور
حکومت پاکستان کے درمیان فائر بندی کا معاہدہ عمل میں آ گیا۔
1970 ءمیں جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ ختم کر کے بلوچستان کو پاکستان کا
چوتھا صوبہ قرار دے دیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی
بلوچستان اور سرحد کی حکومتوں کو ختم کر کے مارشل لاءنافذ کر دیا ۔ اس موقع
پر بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ نامی تنظیم کے سربراہ نواب خیر بخش مری نے
دوبارہ پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا جس میں مینگل قبائل بھی
شریک ہو گئے ۔ اس مسلح جدوجہد میں تقریباً نو ہزار بلوچ شدت پسند اور تین
سو پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے ۔ حکومت پاکستان نے 1973ءمیں ان قوم پرستوں اور
شدت پسندوں کیخلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا اور جس میں بلوچ باشندوں کی
خاصی بڑی تعداد ہلاک ہو گئی ۔
1977ءمیں مارشل لاءکے نفاذ کے بعد پاکستان میں معاشی حالات بہتر ہوئے
کیونکہ فوج نے حکومت سنبھال لی جس کے سربراہ ضیاءالحق تھے ۔ انہوں نے
بلوچستان میں لاتعداد ترقیاتی منصوبے خصوصا تعلیمی منصوبے شروع کئے تاکہ
بلوچون کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے ۔2001ءمیں افغانستان پر حملے کے
بعد خیبر پختوانخواہ اور فاٹا کے علاقے میں بے چینی پھیلی تو اسکے اثرات
بلوچستان تک پہنچے ۔ 2005ءمیں ان مقاصد کے حصول کے لئے ایک اور تحریک چلائی
گئی۔ نواب اکبر بگٹی اور بالاچ مری نے حکومت پاکستان کو پندرہ نکاتی مطالبہ
پیش کر دیا ۔ مطالبات میں صوبے کے وسائل پر اختیارات اور فوجی چھاﺅنیاں بند
کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ ایک مسلح جدوجہد میں پاکستانی فوج کے جنرل
ضمیر ڈار اور بریگیڈئر نواز ہلاک ہو گئے جس کے بعد پاکستان آرمی نے بگٹی
قبائل کے شدت پسندوں کے خلاف بھرپور آپریشن شروع کیا۔
2006ءمیں بگٹی قبیلہ کے سربراہ اور بلوچستان کے رہنما نواب محمد اکبر خان
بگٹی کوہلاک کر دیا گیا ۔ اس واقعے کے دوران پاکستانی فوج کے ساٹھ فوجی اور
سات افسر بھی ہلاک ہوئے ۔ اگرچہ سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے بگٹی کو
مجرم قرار دیا جاتا تھا لیکن وہ اب علیحدگی پسندلوگوں کے ہیرو بن چکے ہیں
تاہم اکبر بگٹی پر صوبے کی ترقی کے لئے فراہم کئے جانے والے وفاقی فنڈز کے
علاوہ گیس رائلٹی ہڑپ کرنے اور علاقے میں نجی جیلیں قائم کرنے کا الزام بھی
عائد کیا جاتا ہے۔2006ءسے بلوچ قوم پرستوں نے غیر بلوچ عوام کو جو بلوچستان
میں برسوں سے قیام پذیر تھے انہیں قتل کرنا اور نقصان پہنچانا شروع کیا جس
کے نتیجے میں پرویز مشرف کی حکومت نے شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ
کیا جو ابھی تک جاری ہے اور بے چینی کا باعث ہے۔
2009 ءمیں چند بلوچ رہنماﺅں کی لاشیں ایک سڑک پر پائی گئیں جو گولیوں سے
چھلنی تھیں ۔ بلوچوں کا خیال ہے اس قتل میں پاکستان کی فوج ملوث ہے۔ نواب
اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی نے بلوچستان کی آزادی کیلئے بھارت سے مسلح
جدوجہد میں مدد مانگی ۔ حکومت پاکستان نے بھارت پر واضح الزام لگایا ہے کہ
وہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد کر رہا ہے ادھر ایران نے بلوچستان
میں سرگرم تنظیم جند اللہ کی مدد کرنے کا الزام امریکہ پر لگایا ہے ۔ واضح
رہے جند اللہ پاکستان کے سنی طالبان پر مشتمل تنظیم ہے جو شیعہ ازم کے سخت
خلاف ہے ۔بلوچستان کے شدت پسندوں نے دعوی کیا ہے کہ انہیں افغانستان کے
طالبان کی بھرپور مدد حاصل ہے عالمی تنظیمیں پاکستان کی حکومت پر بلوچ عوام
کے ساتھ انسانی حقوق کے مکمل نہ ہونے کا الزام لگاتی رہتی ہیں بھارت نے
دباﺅ ڈال کر امریکی کانگریس میں بلوچستان کے حق میں ایک قرارداد پاس کرالی
جس میں پاکستانی فوج کے آپریشن کی مذمت اور ڈائیلاگ کے ذریعے مسئلے کے حل
کی تلقین کی گئی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام اور پاکستان دشمن قوتیں پاکستان کے وجود کو برداشت
نہیں کرنا چاہتی۔ وہ پاکستان کو ختم کرنے کے در پر ہیں اگر وہ اپنے منصوبے
میں کامیاب نہیں ہوتے تو پھر وہ کم ازکم پاکستان کے ٹکڑے ضرور کرنا چاہتے
ہیں اوراسی لیے یہ لوگ ہمارے بلوچ بھائیوں کو ورغلا رہے ہیں تو دوسری طرف
ہمارے حکمرانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینا چاہیے۔ اگر بلوچ بھائیوں کے خدشات
دور کرنے میں ہماری ملکی قیادت سنجیدہ ہو تویہ سارے معاملے حل ہو سکتے ہیں۔
لیکن جب ایجنڈا ہی ذاتی مفادات کا ہوتو حالات بتاتے ہیں کہ خدا نہ کرے کہیں
مستقبل میں سقوط ڈھاکہ جیسے حادثات نہ ہوجائیں۔ |