الیکٹرانک میڈیا کی شر پسندی

ہمیں تو پہلے ہی پتہ تھا کہ اپنے راجہ جی گوجر خانوی بہت سادہ اور معصوم ہیں لیکن ہم ٹھہرے نو وارد و نو آموز ،ہماری بھلا کون سُنتا ہے لیکن اللہ بھلا کرے راجہ صاحب کا جنہوں نے سپریم کورٹ میں معصومانہ بیان دے کرہماری باتوں کی تصدیق کر دی اور سامعین و ناظرین کے علاوہ پانچ رُکنی بنچ کے بھی دل موہ لئے اور بنچ نے بھولے بھالے راجہ جی کی مدتِ ملازمت میں بائیس روزہ توسیع کا اعلان کر دیا۔یہی نہیں بلکہ خلیل جبران کے فلسفے سے متاثر بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اُنہیں تسلیاں دیتے نظر آئے۔حاسد کہتے ہیں کہ یہ محض طفل تسلیاں ہیں اور عیدِ قُربان سے پہلے راجہ جی کی قُربانی ”ہووے ای ہووے“لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہماری مہر بان عدلیہ اتنے سادہ و معصوم وزیرِ اعظم ، جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ NRO کس بلا کا نام ہے کو وقفِ مصیبت کرنے سے گریز ہی کرے گی ۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اُنہیں جمعہ جمعہ ”ساٹھ“ دِن ہوئے وزیرِ اعظم بنے اِس لئے اُنہیں NROکو سمجھنے کا وقت ہی نہیں مِلا اِس لئے اُنہیں چار چھ ہفتوں کی مہلت دی جائے تاکہ اپنے اتحادیوں سے مشورہ کر سکیں۔یہ سُن کرکسی ستم ظریف نے آواز لگائی ”اتحادیاں نوں پُچھن دی کی لوڑ اے،گوجر خاں دے کسی ریڑھی والے نوں پُچھ لا اوہ وی دُس دیوے گا“۔لیکن بنچ کو اُن کا بھول پن اور معصومانہ ادا بھا گئی اور راجہ جی کو مہلت مِل گئی ۔

محترم اعتزاز احسن فرما رہے ہیں کہ موجودہ حالات میں صرف راجہ جی ہی نہیں بلکہ انتخابات سے پہلے پانچ چھ مزید وزرائے اعظم کی قُربانی بھی نا گزیر ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اعتزاز صاحب محض دل کے پھپھولے پھوڑ رہے ہیں کیونکہ اُن کے وزیرِ اعظم کو مہلت نہیں ملی اور راجہ صاحب کو عدلیہ تاریخ پہ تاریخ دیتی چلی جا رہی ہے البتہ یہ بات ضرورپریشان کُن ہے کہ ”اندر کی بات“ جاننے والے اعتزاز صاحب کے مطابق الیکشن سے پہلے مزید پانچ چھ قُربانیاں ہوں گی۔اگر عدلیہ فی وزیرِ اعظم قُربانی کا دورانیہ تین ماہ بھی رکھے تو پھر بھی الیکشن میں ابھی اٹھارہ ماہ ہونے چاہییں۔جب کہ حکومت کے پاس بس چھ ماہ باقی ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ تحریکِ انصاف والے صحیح پیٹ رہے ہوں کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی ملّی بھگت سے انتخابات ایک سال لیٹ کروانے کا منصوبہ بنایا جا چُکا ہے ۔اگر میاں شہباز شریف کے بیشمار ترقیاتی منصوبوں کو دیکھا جائے تو وہ تو چھ ماہ کجا ،اٹھارہ ماہ میں بھی مکمل ہوتے نظر نہیں آتے اور میاں صاحب ہر گز گوارہ نہیں کریں گے کہ اُن کی محنتوں کا ثمر کوئی اور سمیٹ لے ۔پہلے ہی اُنہیں بہت غصّہ ہے کہ عمران خاں صاحب نے شوکت خانم سے میاں نواز شریف کے نام کی تختی اُکھاڑ پھینکی ہے ۔وہ اب پکّا بندوبست کرنے کے موڈ میں ہیں اِس لئے مشتری ہشیار باش۔

اُدھر راجہ صاحب اپنی معصویت کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں اور اِدھر جنابِ آصف زرداری نے فیصل رضا عابدی نامی ایک مخبوط الحواس شخص کو اعلیٰ عدلیہ ، خصوصاََ جنابِ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بدنام کرنے کا ٹھیکہ دے دیا ہے جس میں ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا بھرپور تعاون بھی شامل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کھمبیوں کی طرح اُگے ہوئے شُتر بے مہار بیشمار نیوز چینلز نے ابھی تک تو ملک و قوم کا کوئی بھلا نہیں کیا ۔پوری دُنیا میں میڈیا کی آزادی کا مطلب عوامی شعور کی بیداری ہوتا ہے اور تحقیق کہ میڈیا درسِ بیداری میں ایک منجھے ہوئے اُستاد کا رول ادا کرتا ہے لیکن ہمارا یہ ”مشرفی میڈیا“ ساری صحافتی حدیں پار کرتا جا رہا ہے ۔چند ایک کو چھوڑ کرہمارے بیشتر اینکرز جان بوجھ کر (یا شاید مالکان کے دباؤ پر) ایسے لوگوں کو اپنے ٹاک شوز میں دعوت دیتے ہیں جنہیں ملک و قوم کی بجائے صرف اپنے ممدوح کے مفادات سے پیار ہوتا ہے ۔محترم آصف علی زرداری کی پٹاری میں ایسے کئی سانپ اور سنپولیے موجود ہیں جنہیں وہ وقتاََ فوقتاََ استعمال میں لاتے رہتے ہیں ۔اُنکی فنکاری یہی ہے کہ وہ خود پسِ پردہ رہ کرایسے لوگوں کے ذریعے سے اپنے مخالفین کے خلاف زہر اُگلتے رہتے ہیں ۔فیصل رضا عابدی اُنہی میں سے ایک ہے ۔جس طرح سے وہ عدلیہ کی تضحیک کرتا ہے وہ کسی بھی غیرت مند پاکستانی کے لئے نا قابلِ برداشت ہے ۔لیکن ہمارے نیوز چینل اُسے اپنے ٹاک شوز میں بُلا کر عدلیہ کی تضحیک کرواتے اور لطف اندوز ہوتے نظر آتے ہیں ۔اگر الیکٹرانک میڈیا کو اتنا ہی شوق ہے تو وہ پاگل خانے سے دو ، دو چار ، چار پاگل اپنے نیوز چینلز پر مستقل بٹھا لیں اور پھر سارا دن اُن کے ساتھ بحث کرکے لطف اندوز ہوتے رہیں۔مجھے یقین ہے کہ پاگل خانے کے پاگل فیصل رضا عابدی سے کہیں زیادہ اُن کی ریٹنگ میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیںاور مالکان کو اشتہارات بھی خوب ملیں گے۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ جب خود پیپلز پارٹی فیصل رضا عابدی سے لا تعلقی کا اظہار کرتی ہے تو پھر نیوز چینلز اُسے پیپلز پارٹی کے نمائیندے کے طور پر کیوں بُلاتے ہیں ؟۔کیا وہ خود بھی عدلیہ کی تضحیک میں فریق بننا چاہتے ہیں؟۔جو کچھ وہ مخبو ط الحواس شخص کہہ چُکا ہے اور متواتر کہہ رہا ہے اُس پر تو بیک وقت توہینِ عدالت کے کئی کیس بنتے ہیں لیکن آفرین ہے اعلیٰ عدلیہ پر جس نے ابھی تک صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔سبھی جانتے ہیں کہ جنابِ آصف زرداری اور حواری ایسے حربوں سے عدلیہ کو بدنام کرکے اپنے مکروہ عزائم کو پورا کرنا چاہتے ہیں ۔سوال مگر یہ ہے کہ کیا نیوز چینلز فیصل رضا عابدی جیسے لوگوں کے ذریعے جنابِ آصف زرداری کے ہاتھ مضبوط نہیں کر رہے ؟۔ کیا وہ عدلیہ کی بدنامی کی مہم میں اپنا بھر پور حصّہ نہیں ڈال رہے ؟۔اور ایسا کر کے کیا وہ ملک و قوم کا بھلا کر رہے ہیں؟۔اگر ہمارا الیکٹرانک میڈیا اتنا ہی طاقت ور ہے تو ایم کیو ایم کے قائد محترم الطاف حسین کے خلاف ایسے ہی دو چار ٹاک شوز کر کے دکھائیں ۔اُن کے خلاف بھی زہر اُگلنے والے بہت سے مِل جائیں گے لیکن وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ایسا کرنے کی کسی بڑے سے بڑے چینل کی بھی ہمت نہیں کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم کبھی اُدھار
نہیں رکھا کرتی ۔یہ نیوز چینلز عابدی جیسے لوگوں کو بُلا کر محض اِس لئے ”چسکے“ لے رہے ہیں کہ اُن کے خیال میں عدلیہ کے پاس ایسی کوئی توپ نہیں جس کے دہانے پرباندھ کر ایسے پروگرام کرکے اپنی ریٹنگ بڑھانے والے اینکرز کو اُڑایا جا سکے۔لیکن شاید اُنہیں ادراک ہی نہیں کہ ملکی سلامتی کا عدل کے بغیر تصّور بھی ممکن نہیں ۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 642977 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More