کسی بھی مملکت یاریاست کے وجود
اور بقاءکے لیے عوام ریڑھ کی ہڈی اور قلب کی مانند ہوتے ہیں ۔عوام کے بغیر
نہ کوئی ملک ملک کہلا سکتا ہے اور نہ ریاست ریاست کہلا سکتی ہے ،کیونکہ
مملکت کی تشکیل میں بنیادی عوامل و عناصر یہی افراد ہوتے ہیں اسی وجہ سے
عوام کی حقیقت اورطاقت کا انکارناممکن ہے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عوام اپنے
لیے جو چاہے کرسکتی ہے ،پرامن معاشرہ کا خواب ہویاتعلیم وتعلم کے لیے
سازگار ماحول کی خواہش،عادل ،دردمند اورمحب وطن حکمرانوں کی ضرور ت ہویا
پھر انصاف اوردیانتدارقضاةکی حاجت ،دشمنوں کے سامنے کلمہ حق کہنے والے نڈر
بے باک اورشجاع سپہ سالار ہوں یا بھٹکی ہوئی قوم کو راہِ راست پر لانے والے
دردِدل صوفیاءہوں‘ عوام اپنے لیے ان سب عقدوں کی گرہیں باآسانی حل کرسکتی
ہے۔کیونکہ عوام ایک طاقت ہے جواپنی قوت ،بہادری،جوانمردی کے بل بوتے پراپنے
ملک کے لیے خارجی وداخلی خطرات سے نمٹ سکتی ہے اوردشمنوں کو زیرکرسکتی ہے ۔
عوام کی سوچ ،فکر،محنت اورجدوجہد ہی سے ممالک بلندیوں کی اوجِ ثریا تک
پہنچتے ہیں اورترقی کا پروانہ تھامے سر پر دنیاکی حکمرانی کا تاج سجاتے ہیں
۔لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ریاستوں کی تباہی اوربربادی کی ذمہ داربھی
غفلت میں ڈوبی ہوئی عوام بنتی ہے، کیونکہ کوئی ملک اس وقت تک تباہ حالی اور
غلامی کا شکار نہیں ہوتا جب تک وہاں بسنے والی عوام بیدارمغزاورمحب وطن
ہو۔دنیاکی پانچ ہزار سالہ تاریخ گواہ ہے کہ اقوام کی خوشحالی اورآزادی
غداری،لاپرواہی اورسستی کی وجہ سے پستی اورغلامی میں بدلیں۔
ملکوں میں بسنے والی عوام امیر ،متوسط اورغریب کے بندھن میںبندھی ہوتی
ہے۔دنیا کے تمام خوشحال اورترقی یافتہ ممالک اپنے باشندوں میں اتحاد واتفاق
اور مساوات کی خاطرمساوی معاشی پالیسیاں اورانصاف پرمبنی قوانین وضع کرتے
ہیں اوراس فارمولے کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر تمام تر وسائل اورتوانائیاں
خرچ کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج دنیامیں ترقی یافتہ ممالک انہی مساوی
پالیسیوں کی بدولت دنیاپر حکمرانی کررہے ہیں اوراِن اسلامی واخلاقی قوانین
سے پہلوتہی کرنے والی اقوام آزدی کا لیبل لگائے خوش فہمی میں مبتلاہیں
اورغلامی کی بدترین زندگی گزار رہے ہیں ۔امت مسلمہ عموما اور پاکستان خصوصا
اس پرآشوب دردناک کیفیت سے دوچارہے ،بیدار یِ مغز جیسی عمدہ صفات سے کوسوں
دورہے ۔ انصاف پر مبنی قوانین اور مساوات جیسے اسلامی اصولوں سے قطع تعلق
کیے ہوئے ہے اورغفلت کی چادر اوڑھے لمبی تان کر خواب ِغفلت میں محو ہے،یہی
وجہ ہے کہ آج کفر یکجا ہوکر عالم اسلام کو مٹانے کے لیے اپنے وسائل اورطاقت
کااندھا دھنداستعمال کر رہاہے ۔جلتی پر تیل کا کام ملت فروش بے ضمیر حکمران
کر رہے ہیںجو اسلام دشمنان کے ساتھ چولی دامن کاساتھ نبھا کر امت مسلمہ کی
تباہی کے مکمل ذمہ دار اور قصور وار ہیں۔
ملکِ پاکستان بھی ان اسلامی واخلاقی اصولوں سے انحراف کی بدولت بدامنی
،مہنگائی ،بیروزگاری اور ناانصافی جیسے گمبھیر اوراَن گنت مسائل میں
گھِراہواہے جس سے ہر پاکستانی محب وطن پریشان ہے۔ان مسائل کے ذمہ دار جہاں
حکمران ہیں وہیں عوام بھی ہیں۔کیونکہ عوام ہی کے فیصلوں سے یہ” حکمران“ بے
تاج بادشاہ بنتے ہیں اور پھر عوام کی قسمتوں کی سودے بازی کرتے ہیں،عوام
چاہے تو اپنے لیے عادل ،منصف، محب وطن حکمران منتخب کرسکتی ہے جو ملک کو
خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیںاورملک کواسلامی فلاحی ریا ست
بنا نے کا خواب پو راکرسکتے ہیں ۔لیکن عوام کی ”زندہ دلی اوربیدارمغزی“ کی
حالت تو یہ ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر پشیمانی کی بجائے اب بھی اِن کھوٹے
سکوں سے تبدیلی کی آس لگائے بیٹھی ہے اورمظلومیت کا راگ الاپنے والے ظالموں
کومظلوم تصور کررہی ہے۔بہرحال حقیقت تو یہی ہے کہ عوام کے ووٹوں اورمنصف
اداروں کی سخاوت سے پلنے والی یہ” جمہوری حکومت “چار سال سے زائدکے عر صے
میں عوام کے لیے کوئی قابلِ ستائش کارنامہ سرانجام نہیں دی سکی جس پر اسے
داد دی جائے یا اس کی مدح سرائی میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جائیں،اگرچہ
بعض قلم فروش اورزباں فروش اپنے قلم اورزبان کی تما م ترتوانائیاں ان کی
ستاری اورخوش نمائی پر بے دھڑک صرف کررہے ہیں۔ان چار سالوں میںمنتخب جمہوری
حکومت نے عوام کے لیے اگرچہ کچھ نہیں کیامگراپنے لیے بہت کچھ کیاہے ،”اور
کرنا بھی چاہیے کیونکہ عوام نے ان کو فری ہینڈجودیاہے“۔ایک اندازے کے مطابق
حکومت کی کشتی میں سوار مسافروں نے چارسالہ سفرکی مشقتیں اورصعوبتیں سہنے
کے بعد اپنے لیے اتنی دولت ذخیرہ کرلی کہ ان کی آنے والی کئی نسلیںباآسانی
زندگی گزارسکتی ہیں۔
گذشتہ چارسالوں میں حکمرانوں کی ضمیر فروشی اورشاہ خرچیوںسے پاکستان جن
”ذہنی وجسمانی اذیتوں“ کاشکار ہوا اس پرتمام اہل ِ پاکستان غمگین اورنوحہ
کناں ہیں۔عوام کی غفلت اورسستی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں آئے روز بے ہنگم
مسائل بڑھ رہے ہیں ،ملک کی ابتری اورپسماندگی کاگراف بلند ہورہاہے ،معیشت
تنزلی کے آخری حدوں کو پار کررہی ہے ،سرمایہ دار اورصاحب ِ ثروت لوگ اپنا
سرمایہ بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں اور قوم کے نوجوان جو ملک کوبحرانوں سے
نکال سکتے تھے‘ وسائل اور حوصلہ افزائی کے فقدان کے باعث اپنے افکار اور
صلاحیتیں اغیار کے دامن میں گروی رکھنے پر مجبورہوگئے ہیں۔یہ بھی عوام کی
لاپروہی کا ثمرہ ہے کہ ملک کا درد رکھنے والے اہل فراست اورعقلمند دانشوروں
کا سرِعام تمسخر اڑایا جارہا ہے،ملک کی جڑوں کواپنے خون سے مضبوط کرنے والے
اہل ِ علم حضرات کو دہشت گرد ی کے طعنے دے کر ہرجگہ بدنام کرنے کی مذموم
کوششیں کی جارہی ہیں۔قوم کے محسنوں کوغدار ِوطن کے جھوٹے القاب دے کرملک کی
خدمت کرنے سے روکا جارہاہے۔قومی خزانے کودولت سے بھرنے والے ریلوے ،پی آئی
،اورسٹیل مل جیسے مالی اداروں کو ہوس کے پجاری دیمک کی طرح چاٹ گئے ہیں
،اوراب ملکی خزانے اور غریب عوام کو گنے کی طرح چوس رہے ہیں ۔چوسنے کے
انداز ہربارمختلف ہوتے ہیں ،کبھی ظالمانہ ٹیکسوںکی مد میں یہ ہوس پوری کی
جاتی ہے تو کبھی بجلی کے نرخ بڑھا کر، کبھی پیڑول ،ڈیزل اورایل پی جی کے
ریٹ ہائی کرکے جیبوں کو بھراجاتاہے توکبھی سرکاری دوروں کے نام پر قوم کے
کروڑوں روپوں کوہضم کیاجاتاہے۔اس سے بڑھ کرلوٹنااورچوسناکیاہوسکتاہے کہ
ایوانِ صدرکا ایک دن کا خرچ تقریباچودہ لاکھ ہے اوروزیراعظم ہاﺅس پرروزانہ
گیارہ لاکھ کے لگ بھگ خرچ ہوتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اِن حالات کا قصوروار کس کو ٹھہرایا جائے ؟عوام کو یا
حکمرانوں کو؟ظاہری آنکھ سے دیکھا جائے تو ان مسائل کے ذمہ دارحکمران ہیں
لیکن باطنی نظر دوڑائی جائے تو یہ الزام عوام کے سرجاتاہے کیونکہ عوام ہی
ان حکمرانوں کو اپنے اوپر مسلط کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل غور اور تعجب
خیز ہے کہ عوام ہی ان مسائل کا سبب ہے اور عوام ہی نجات دہندہ ہے ۔رہایہ
سوال کہ” عوام تو بیچاری خود مظلوم ہے وہ بھلاکیسے ظلم کے پہاڑتوڑسکتی ہے“؟
۔یہ سوال نبی اکرمﷺ کے اس فرمان مبارک سے حل ہوجاتاہے کہ” ظالم حکمران عوام
کے اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں جیسے اعمال ہوں گے ویسے حکمران اللہ مسلط کرےں
گے“ ۔اس جواب کی مزید تائید اس ارشادربانی سے ہوجاتی ہے کہ”اللہ اس قوم کی
حالت نہیں بدلتے جو اپنی حالت خود نہ بدلے “۔اگرچہ عوام خود کمزوراورمظلوم
ہے لیکن ذمہ داربھی یہی عوام ہے۔ہمارا مقصد اس سے ہرگزکسی کومورد ِالزام
ٹھہرانانہیں بلکہ خواب غفلت میں محولوگوں کو رجوع الی اللہ کی یاددہانی
اوراس کی طرف متوجہ کرناہے،تاکہ ہم میں سے ہرکوئی اپنے گریبان میں جھانکے
اور رب کے حضور سجدہ ریز ہوجائے۔ موجودہ حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ توبہ
استغفارکی جائے ،سستی ،کاہلی اورغفلت کی چادر کو اتار پھینکا جائے اوراِن
مفاد پرست حکمرانون کے چنگل سے نجات حاصل کی جائے ۔نجات کا واحد راستہ رجوع
الی اللہ ہے اورساتھ ساتھ عملااسباب بھی تلاش کرنے ہیں اورمسلسل جدوجہد بھی
کرنی ہے۔مردہ دل عیش پرست حکمرانوں سے نجات کے اسباب توبہت ہیں مگر خاص
طورپر آنے والے انتخابات میں اہل ِحق کا ساتھ دیناسب سے بڑا سبب ہے جس کے
لیے عوام کوابھی سے تیار رہنا ہوگا۔ان مسائل سے چھٹکارے کے لیے آنے والے
انتخابات میں”فصلی بٹیروںاور ازلی لٹیروں“کوقطعامستردکرنابھی اہم
ہتھیارہوگا ۔ناامیدی چونکہ کفر ہے اس لیے یہ کہنابے حد ضروری ہے کہ یہ کام
اتنا مشکل نہیں جو عوام سے نہ ہوسکے اورعوام ہاتھ پہ ہاتھ دھرے خاموش
تماشائی بن کربیٹھ جائے بلکہ یہ تو چٹکی بجانے سے بھی زیادہ آسان ہے،
کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ عوام اپنے لیے بڑے سے بڑامحاذسرکرسکتی ہے،ضررورت
صرف بیداری کی ہے۔
پاکستانی عوام کو بلادِعرب میں حالیہ برپا ہونے والی انقلابی تحریکوں سے
خصوصا قاہرہ کی سڑکوں پر نکلنے والی عوام اورالتحریر سکوائرمیں جمع ہونے
والے انسانوں کے سمندر سے سبق سیکھناہوگا کہ کس طرح وہا ں کی عوام نے ملت
فروش ظالم وعیش پرست حکمرانوں سے نجات حاصل کی ؟اوروہاںرہنے والی عوا م کی
بیداری اوربہادری کوبھی اپنے سامنے رکھناہوگا تب جاکر ان حکمرانوں سے نجات
ملی گی اوراَن گنت نہ ختم ہونے والے مسائل سے چھٹکار ملے گا۔ پاکستان
خوشحالی اورترقی کی راہ پر گامزن ہوگااورصحیح معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت
بننے کا خواب پوراہوگا اور”پاکستان کا مقصد کیا ؟لاالہ الا اللہ “کی صداﺅں
کی گونج پھرسے پورے عالم میں سنی جانے لگیں گی۔
|