توانائی بحران کا خاتمہ مگر کیسے؟

حال ہی میں ایک موقر جریدے میں شائع ہونیوالی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پاس بجلی کی پیداوار ایک لاکھ بتیس ہزار میگاواٹ تک بڑھانے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے لیکن اس کے مقابلے میں پاکستان صرف 14ہزارمیگاواٹ بجلی پیداکررہا ہے یعنی پیداواری صلاحیت کے مقابلے میں صرف گیارہ فیصد ۔یہ رپورٹ جہاں ایک طرف اس حقیقت کو واضح کررہی ہے کہ پاکستان میں وسائل کی ہرگزکمی نہیں وہیں ہمیں توانائی بحران پر حکمرانوں کے اخلاقی بحران کا بھی خوب اندازہ ہورہا ہے جن کی بدنیتی ،کوتاہ فہمی اور دماغ کی بجائے پیٹ سے سوچنے کی روش نے ارض وطن کو ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ملک کو اندھیروں میں ڈبودیا ہے آج پوری دنیا ہم پر ہنس رہی ہے کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں تھر کے کوئلے سے 60ہزارمیگاواٹ بجلی پیداکرسکتی ہے جس کا دعویٰ ملک کے نامور ترین سائنسدان متعدد بارکرچکے ہیںلیکن اس سے استفادہ نہیں کیاجارہا اور ایک سازش کے تحت اس عظیم منصوبے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیاگیاہے اس کے علاوہ شمسی توانائی کے ماہرین پاکستان کو شمسی توانائی پیداکرنیوالاآئیڈیل ترین ملک گردانتے ہیں جہاں کی شدید گرمی کو توانائی میں تبدیل کرکے سالانہ بیس لاکھ میگاواٹ بجلی پیداکی جاسکتی ہے ۔علاوہ ازیں پاکستان میں موجود پانی کے ذخائر سے بھی باآسانی چالیس سے پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیداکی جاسکتی ہے لیکن کیا کیجئے کہ حکومت اوراپوزیشن دونوںکو توانائی بحران سے تباہ ہوتی معیشت سے کوئی دلچسپی نہیںہے ایک اندازے کے مطابق صرف لاہور میں لوڈشیڈنگ بحران نے 15 لاکھ افراد کو بیروزگار کیا ہے اس کے علاوہ اس تباہ کن بحران نے عوام کو جس ذہنی اذیت اور فرسٹریشن میں مبتلا کیا ہے اس نے نوجوان نسل کو جرائم کی راہ پرگامزن کردیا ہے حالاں کہ جب موجودہ حکومت جب برسرِ اقتدارآئی تھی تو تو اس وقت یہ بحران اس قدرشدید نہیں تھا اور زیرِ گردشی قرضوں کو کنٹرول کرکے ہی اس بلا سے جان چھڑائی جاسکتی تھی اس کے ساتھ ہی ایک عام آدمی یہ سوچ رہا ہے کہ آئے روز اپنے مفادات کے تحت آئینی ترمیموں پر متفق ہوجانیوالی سیاسی تنظیمیں کیوں کالاباغ ڈیم جیسے اہم ترین منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنا رہیں یقیناََ اس قومی مفاد کے میگاپروجیکٹ پراتفاقِ رائے قطعی ناممکن نہیں ہے اورتمام سیاسی قوتوں کو اس اہم منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوںگی جس کی فزیبلٹی رپورٹ پر بھاری سرمایہ خرچ ہو بھی چکا ہے یہ منصوبہ توانائی بحران کے خاتمے اور ملکی تعمیروترقی کیلئے انتہائی سازگارثابت ہوگا جس سے نہ صرف عوام کو انتہائی سستی بجلی میسر آسکتی ہے بلکہ ملکی معیشت کو آئی سی یو میں پہنچادینے والے اس توانائی بحران سے ہمیشہ کیلئے نجات حاصل ہوسکتی ہے ماہرین کے مطابق کالاباغ ڈیم کی تعمیرسے 70ایکڑ بنجرزمین قابل کاشت بناکر اور10لاکھ ٹیوب ویلوں سے فصلوں کی پیداواری استعداد بڑھانے جیسے اقدامات کرکے سالانہ 500ارب روپے کمائے جاسکتے ہیںلیکن حکومتی وزرائے کرام اس اہم ترین پروجیکٹ کی تکمیل کی بجائے بجلی پر سبسڈی کی مد میں اربوں روپے مختص کرنے کو ترجیح دیتے نظرآتے ہیں۔بجلی کے بقایاجات کی رقم تین سوارب سے بھی تجاوز کرچکی ہے لیکن حکومت ان مگرمچھوں سے ان رقوم کی وصولی کی بجائے تمام تر بوجھ ایک عام آدمی پر ڈال دیتی ہے جو پہلے ہی اس بحران کے ہاتھوں عاجز ہوکرغربت و بیروزگای کی چکی میں پس رہاہے۔اب بھی وقت ہے حکومت ہوش کے ناخن لے اور روٹی کپڑااورمکان سے بھی زیادہ سنگین مسئلے کو فوری حل کرنے کیلئے ہنگامی اقدامات کرے۔
Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 100594 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.