پچھلے چند سالوں سے ٹی وی کھول
کر دیکھیں یا اخبار کھول کر پڑ ھیںتو دل جلا دینے والی خبر وں کے علاوہ کچھ
سننے کو ملتاہے نہ پڑ ھنے کو۔
دل چاہتاہے، ٹی وی کھول کر دیکھوں نہ اخبار خرید کر پڑ ھوں، مگر پھر سو چتا
ہوں کہ اگر کبو تر بلی دیکھ کر آ نکھیں بند بھی کر لے تو بلی اسے کھانے سے
باز تو نہیں آ ئیگی۔ہم ٹی وی دیکھیں یا نہ دیکھیں ، اخبا ر پڑ ھیں یا نہ
پڑھیں ،حکمرا نون کی بے حسی اور ظالمانہ سلوک سے ہم بچ تو نہیں سکتے۔اب
گزرے شام کو ٹی وی وی کھول کر دیکھا یا ابھی چند لمحے پہلے اخبا ر کھول کر
نظر دوڑائی تو ایک ہی سر چکرا دینے والی خبر دیکھنے اور سننے کو
ملی۔کہپٹرول 7.77 روپے ڈیزل 5.94 روپے فی لیٹر اور سی این جی 7.11فی کلو
مہنگا کر دیا گیا۔
عید کی چھٹیا ں ابھی ختم نہیں ہو ئی تھیں کہ حکو مت نے پٹرولیم مصنو عات
اور سی این جی کی قیمتو ں میں اضافے کا ا علان کر کے گویا عوام پر پٹرول بم
گرا دیا۔ ہر کو ئی جا نتا ہے کہ پٹرولیم مصنو عات کی قیمتوں میں اضافے کی
وجہ سے تمام اشیا ئے ضرورت کی قیمتو ں میں اضا فہ ہو جاتاہے جو ہمیشہ عام آ
دمی کو متا ثر کرتی ہے۔ ڈیزل کا استعمال بھا ری گا ڑیوں اور جنریٹر وں میں
ہو تا ہے۔ جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے کر ایوں اور دوسرے اخراجات میں
اضافہ نا گزیر ہو جاتاہے۔رکشوں، ٹیکسیوں اور دیگر چھو ٹی گا ڑیوں میں عموما
سی این جی کا استعمال ہو تا ہے۔جس کا اثر بھی عام آدمی پر ہی پڑھتا ہے۔ابھی
صرف ایک ذہفتہ ہی گزرا ہے کہ حکومت نے دوسری مرتبہ تمام پٹرول مصنوعات اور
سی این جی کی قیمتوں میں اضافے کا ا علان کر دیا اور عا لمی منڈی میں نر
خوں میں اضا فے کا سارا بو جھ پہلے سے بوجھ تلے کمر توڑ عوام پر ڈال دیا
گیا۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ پٹرولیم مصنوعات کے قیمتو ں میں پے در پے ،ہر ہفتے
اضافہ حکو مت کی مجبوری ہر گز نہیں ہے۔ بلکہ ایک ظا لما نہ ا قدام ہے۔
حکومتی خزانہ میں رقم بھرنے کا چونکہ یہ ایک آسان ذ ریعہ ہے۔اس لئے حکومت
بڑی بے رحمی کے ساتھ محصولات بڑھانے کے لئے پٹرولیم مصناعات میں اضافہ کر
لیتی ہے۔ورنہ حکو مت کے پا س محصولات بڑھانے کے اور کئی ذ رائع مو جود ہیں۔
مگر افسوس کہ مو جو دہ حکومت کو نہ تو کر پشن کے ذ ریعے قو می خزانے کو
پہنچا نے والے بھا ری نقصان کی پرواہ ہے اور نہ ہی و سا ئل پر قا بض
اشرافیہ سے ٹیکسوں کی وصولی ان کی تر جیحات میں شا مل ہے۔جس کی بڑی وجہ یہ
ہے کہ حکومت او ر اپو زیشن بنچوں پر بیٹھنے والے ذیادہ تر افراد کا تعلق
اسی طبقہ سے ہے۔ لے دے کے حکومت نے ایک ہی طر یقہ اختیا ر کئے ہو ئے ہے کہ
پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کر کے،مہنگا ئی اور افراط زر کا سہارا لیا جائے
جو محصولات کی بد ترین او انتہا ئی ظا لمانہ صورت ہے۔حا لانکہ ہمارے پاس بے
شما ر معد نی دولت مو جود ہے،انہیں بروئے کا ر لا یا جا سکتا ہے،حکومت اپنے
شا ہا نہ اخراجات میں کمی کرکے یا اپنے وزراءکی تعداد میں کمی کرکے حکومتی
خزانے میں اضافہ کیا جا سکتا ہے مگر افسوس ک حکومت ایسا کرنے کو تیار ہی
نہیں ۔اپنی صنعت،زراعت اور تجا رت کو سہا را دینے کی بھی کو ئی ھکمت عملی
بھی نہیں ۔ غبن ، لوٹ مار، کک بکس،کمیشن، بھتہ وصولی،ملا زمتوں کی فروخت
اور املاک پر نا جا ئز قبضوں کی روک تھام حکومت کے امکان سے با ہر کی چیزیں
تو نہیں ہیں۔دنیا بھر میں تیل کے نر خوں میں اضافے کے باعث اگر کئی چیز یں
مہنگی ہوتی ہیں تو وہ غذ ائی اشیاءکے قیمتوں کو عام آ دمی کے رسائی میں
رکھنے کی تد بیر کرتے ہیں ۔
اور ان کی قیمتوں پر سخت کنٹرول رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ما ضی میں غذائی
اشیاءکے نر خوں میں معمولی اضافے کا بھی نو ٹس لیا جاتا تھا۔کا بینہ اور
ایکنک کا اجلاس بلا کر صورت حال پر قابو پانے کی تدا بیر کی جاتی تھیں مگر
مو جو دہ حکومت کو عوام کے مشکلات کا کو ئی احساس ہی نہیں۔اور بڑی بے رحمی
کے ساتھ عوام پر مسلسل پٹر ول بم گرا رہی ہے۔مگر مو جودہ حکمرانوں کو یہ
بات نظر انداز نہیں کر نی چا ہئے کہ 18´ فر وری 2008 کے انتخا بات میں
انہیں بر سر اقتدار لانے والے عوام اپنے حالات میں اچھی تبد یلی کی تو قع
رکھتے تھے۔ آ نے والے عام انتخابات میں انہیں پھر عوام کے پاس جانا ہے۔اس
لئے عوام پر مزید بو جھ بڑھانے سے اجتناب برتیں۔ بار بار پٹرول بم گرانے سے
باز آ جا ئیں۔خلق خدا کا بہت ذ یادہ امتحان ہو چکا ہے۔اب بس کریں ۔کو ئی
ایسی تدابیر اختیا کریں، جن کے ذریعے غریب اور متو سط طبقے کے لئے کچھ تو
سانس لینے کی گنجا ئش مو جود ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |