ہمارے ملک میں ملک و قوم کی
بہتری کے لئے اگر کوئی اچھی حکمت عملی یا لائحہ عمل اپنایا جاتا توشاید اب
تک ملک کے یہ حالات نہ ہوتے۔نہ جانے ہماری موجودہ حکومت کس خوش فہمی ہے یا
انہوں نے کون سی ایسی عینک پہن رکھی ہے جس سے ان کو ”سب ٹھیک“ دِکھتا
ہے۔امریکہ نوازی کا ریکارڈ توڑنے والی موجودہ حکومت ملک میں نہ تو سیوریج
سسٹم بنا پائی ہے،نہ ہی دریاﺅں اور ندی نالوں میں برسات کے حوالے سے کوئی
پیش قدمی ہوئی ہے،نہ ہی لوڈشیڈنگ پر کنٹرول حاصل کر پائی ہے اور نہ ہی ملکی
مہنگائی جس میں پٹرول،گیس،بجلی اور اشیائے ضرورت کی اشیاءکی قیمتیں شامل
ہیں ان کو کچھ کم کرپائی ہے بلکہ انہوںنے ہفتہ وار ریٹ بڑھانے پر مستقل زور
رکھا ہوا ہے۔
عام الیکشن سے پہلے بلدیاتی الیکشن کروانا عوامی پیسے کا سراسر ضیاع
ہے۔حکومت شاید عام الیکشنوں میں ان نو منتخب بلدیانی نمائندوں کو اپنی ڈھال
بنا کر الیکشنوں میں دھاندلی یا یاکامیابی کا کوئی دوسرا رستہ اپنانا چاہتی
ہے۔ملکی دولت کوئی فری میں لٹانے والا مال تو نہیں ہے کہ جو آئے یوں ہی اس
کو ضائع کرتا رہے۔عوام سے وصول کیا جانے والا ٹیکس اور پیسہ عوام کے خون
پسینے کی کمائی ہے ۔اس پیسے کو اگر عوام کی خدمت پر لگایا جائے تو ہی انصاف
بنتا ہے۔مگر یہ عوامی پیسے کو پانی کی طرح بہانا حکومتوں کی روایت ہی بن
چکی ہے۔حکومت سمیت اس کی اتحادی جماعتیں سبھی اس گیم پلان کا حصہ بننے کو
ہیں۔حالات و واقعات سے لگتا ہے کہ محض اے این پی ایسی پارٹی ہے جو حکومت کی
اس متوقع بے ایمانی اور فضول خرچی سے نالاں ہے لیکن حکومت سب کو منانے میں
اپنے تمام حربے استعمال کر رہی ہے۔
تصویر کے ہر رخ کو سامنے رکھ کر ہر بات کا سوچنا نہایت ضروری ہے ۔کسی بھی
چیز کو محض ایک زاویے سے دیکھنا کہاں کی عقل مندی ہے۔عوام کی سوچ اور عوام
کی نظر میں یہ حکومت بہت ہی زیادہ حد تک ناکام ہو چکی ہے اور اس حکومت کو
واضح اور اشارتاً سپریم کورٹ نے بھی ”گِلٹی“ قرار دیا ہے۔ایک وزیر اعظم حکم
عدولی پر گھر جا چکے ہیں اور دوسرے کی قربانی ”قریب“ ہے۔حکومت پر بلوچستان
سمیت ”گم شدہ افراد“ کا کیس بھی جاری ہے۔صدر صاحب پر بھی توہین عدالت کا
کیس ہو سکتا ہے اور دفعہ 41کے تحت انہیں بھی گھر جانا پڑ سکتا ہے۔ظاہر ہے
آج یا کل اس حکومت نے تبدیل ہونا ہے اور کوئی نگران سِٹ اپ ضرو ر آنا ہے۔اس
کے بعد عام الیکشنوں کی صورت حا ل سب کے سامنے ہوگی۔اب حکومت اگر خواہ
مخواہ یا زبردستی عوامی توقعات کا خون کرے تو بھی حقیقتاً یہ عوام و ملک سے
بہت بڑی زیادتی ہو گی۔کسی بھی ملک میں الیکشن کروانا کونسا آسان کام ہے۔اس
کام پر کسی بھی قوم کا کثیر سرمایہ اور بہت سا وقت چاہیئے ہوتا ہے۔علاوہ
ازیں پولیس ،فوج اور انتظامیہ کو بہت ہی پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔الیکشن کمیشن
کو دن رات ایک کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کے فیئر الیکشن ہوتے ہیں۔
ابھی پاکستانی الیکشن کمیشن کی تیاری باقی ہے ۔جس میں ووٹروں کے لئے ووٹر
لسٹیں اور ووٹرز کے ایڈریس کی ویری فیکشن بہت ضروری ہے۔بہت سے سمجھدار لوگ
یہی کہ رہے ہیں کہ حکومت کا اپنے اتحادیوں سمیت زبردستی بلدیاتی الیکشن
کروانا دراصل عام الیکشن سے فرار ہے۔پاکستان میں آج تک جتنے بھی الیکشن
ہوئے ہیں ان میں محض پیسے کا ضیاع ہوا ہے۔الیکشن مہم اور سیاسی نمائندوں پر
اربوں روپیہ بہا دیا جاتا ہے۔کئی افراد اور سیاسی افراد کی خریدو فروخت
بھیڑ بکریوں کی مانند ہوتی ہے اور پھر ایک منڈی مویشیاںکی صورت حال ہوتی
ہے،الیکشنوں میں سر عام دھاندلی ہوتی ہے۔فیئر الیکشن ہونے کی نوید بہت ہی
کم سنائی دیتی ہے۔
ہمارے ملک میں آرڈیننس لانے اور عوام کی امنگوں پر پانی پھیرنے والے تو بہت
ہی زیادہ افراد آئے لیکن افسوس عوامی پریشانیوں کے لئے کوئی مسیحا منظر عام
پر نہیں آیا۔اگر کوئی یہاں عوامی درد لیکر میدان عمل میں اترے تو اس کو پکڑ
کر کال کوٹھڑی کی نظر کر دیا جاتا ہے۔ابھی وقت بہت کم ہے دیکھنا یہ ہے کہ
عوام کے ساتھ گیم کرنے والے لوگ عوام کو کس طرح ڈاج دیتے ہیں۔عوامی درد کے
نام پر سیاسی مفادات لینے والے صاحبا کی ساری ادائیں ہی بڑی نرالی
ہیں۔مارشل لاءیا فوج کسی بھی پاکستانی کو ہر گز ہر گز پسند نہیں لیکن لوگ
موجودہ حکومت کی طرح بے ایمان اور نام نہادسیاستدانوں سے بھی نالاں ہیں۔لوگ
سڑکوں پر بھلا کیسے آئیں ہر کسی کو دال روٹی اور مہنگائی کے چکر میں ڈال
دیا گیا ہے۔بلدیاتی الیکشن کرانے والے ذرا الیکشنوں سے پہلے اپنے گریبان
میں تو جھانک کر دیکھیں شاید انہیں کوئی شرم یا حیا آ ہی جائے۔
عوام کی ہر سو فقط درگت ہو گی
ارے صاحب یہ تری سیاست ہوگی |