اس سال ۱۱ ستمبر کا ماتم زور و
شور سے کیا جائیگا اس لئےکہ صدارتی انتخاب کا موسم ہے دو ماہ بعد ووٹ پڑنے
ہیں ۔ایک بار پھر ڈیموکریٹک گدھے کا مقابلہ ریپبلکن ہاتھی سے ہوگا اور ان
میں سے کوئی ایک کامیاب اور دوسرا ناکام و نامراد ہو جائیگا ۔ہندوستا ن میں
سیاسی جماعتیں اپنے لئے ہاتھی یا شیر کا نشان پسند کرتی ہیں جبکہ امریکہ
میں ہاتھی کے ساتھ گدھے پر اکتفا کیا جاتا ہے اس کے پسِ پشت ایک نظریاتی
نفسیات کاربند دکھلائی دیتی ہے ۔ ہندوتانی سیاستدان شتر بے مہار ہوتے ہیں
اور جنگل کا راج چلاتے ہیں اس لئے شیر ان کے شایانِ شان انتخابی نشان ہے ۔
اس کے بر عکس امریکی سیاستداں سرمایہ داروں کے پالتو جانور ہوتے ہیں اور ان
کے آگے ڈھینچو ڈھینچو کرتے رہتے ہیں ۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جمہوریت کے
اندر امیروں کے ذریعہ ، امیروں کے درمیان سے، امیروں کی خاطر صدر مملکت چنا
جاتا ہے ۔اسی لئے دونوں اہم سیاسی جماعتیں اپنا امیدوار نامزد کرنے سے قبل
یہ ضرور دیکھتی ہیں کہ کون سب سے زیادہ چندہ جمع کر سکے گا ؟ کسے بڑے
سرمایہ داروں کا سب سے زیادہ اعتماد حاصل ہے ؟اب ایسی جماعتوں کی مشابہت
وفادار گدھے سے زیادہ اورکس جانورسے ہو سکتی ہے ۔لوگ کہتے ہیں کہ براک
اوبامہ ایک غریب کے گھر میں پیدا ہوا تھا اس کے باوجود صدارت کی کرسی پر
فائز ہو گیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جس وقت اسے امیدوار بنایا گیااس و قت
وہ اپنے باپ کی طرح نہ غریب تھا اور نہ مسلمان تھا ۔ اگر ان دونوں میں سے
کوئی ایک بھی اڑچن ہوتی تو بیچارے براک اوبامہ کو صدارت تو کجا امیدواری
بھی نصیب نہ ہوتی ۔
امریکی جمہوریت کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہاں دو میقات
سے زیادہ کوئی صدر کے عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی
ایک حقیقت ہے ان آٹھ سالوں میں امریکی صدر اس قدر عیش کر لیتا ہے کہ دوسرے
ممالک کے سربراہ اسیّ سال میں بھی اس کا تصور نہیں کر سکتے نیز اپنی آنے
والی آٹھ پشتوں تک کیلئے وہ خوشحالی کا اہتمام کر کے جاتا ہے ۔ویسے جارج
بش نے تو اپنی اولاد کو اقتدار کا چسکا بھی لگا دیا ۔ کلنٹن نے اپنی اہلیہ
کیلئے یہی کوشش کی لیکن نمبر ایک کے بجائے دو پر اکتفا کرنا پڑا ۔ امریکی
انتخاب داخلی اور خارجی دونوں محاذ پر لڑا جاتا ہے ۔ لیکن اگر غور سے دیکھا
جائے تو یہ انتخاب پارٹی کے نظریہ کی بنیادپر نہیں بلکہ اقتدار یا اختلاف
کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ حزب اختلاف جو اپنے حریف کو اقتدارسے بے دخل کرکے
اقتدار پر قابض ہونا چاہتا رائے دہندگان کو رجھانے کی خاطر داخلی مسائل
یعنی عوامی فلاح و بہبود کا راگ الاپتا ہے اور حزب اقتدار امورِ خارجہ میں
اپنے کارہائے نمایاں بیان کر کے ووٹ مانگتا ہے ۔
دونوں سیاسی جماعتوں کا مذکورہ طرز عمل ان کی پسند نہیں بلکہ مجبوری ہوتی
ہے ۔ مثلاً براک اوبامہ نے گزشتہ مرتبہ معیشت کو سدھارنے اور صحت عامہ کی
بنیاد پر انتخاب لڑا اور کامیک کین عراق و افغانستان کا گانا گاتے رہے
۔براک اوبامہ نے معیشت کے میدان میں یہ کیا کہ قومی قرض میں کمی کرنے کے
بجائے اس کی تحدید میں اضافہ کیا تاکہ زیادہ قرض حاصل کیا جاسکے۔ پہلےدوسال
کے عرصہ میں جبکہ ان کی اپنی جماعت کو کانگریس یعنی پارلیمان میں اکثریت
حاصل تھی صحت عامہ کا بل ہی نہیں پیش کیا اس کے بعد جب ریپبلکن کو اکثریت
حاصل ہوگئی تو اسے پیش کر کے ناکام کروا دیا ۔ اب وہ اس کا الزام ریپبلکن
پر لگا چھوٹ جائے گا حالانکہ یہ بھی کہا جارہا ہے انشورنس کمپنیوں نے میک
کین کو ۷ ملین ڈالراوبامہ کی مخالفت کیلئے دئیے تھے لیکن جب وہ داؤں نہیں
چلا تو اوبامہ کو ۲۱ ملین ڈالر دے کر خرید لیا گیا ۔اس طرح عوام بے چاری
محروم کی محروم ہی رہی ۔ اس بار معیشت اور عوامی فلاح و بہبود کے وعدے مٹ
رومنی کریں گے اور اوبامہ اپنی دلیری ثابت کرنے کیلئےاسامہ بن لادن کے فرضی
قتل کی دہائی دے کر عوام سے ووٹ مانگیں گے ۔ یہی سلسلہ انتخاب در انتخاب در
انتخاب چلتا رہے گا ۔عوام کا استحصال جاری رہے گا نیزدس فیصد سے کم
بڑےسرمایہ داروں اور ان کے آلۂ کار سیاستدانوں کے وارے نیارے ہوتے رہیں
گے ۔
امریکہ کی معاشی صورتحال کا جائزہ حال میں ڈیوک یونیورسٹی کےڈان اریلی اور
ہارورڈ یونیورسٹی مائک نارٹن اس طرح لیا ہے کہ اگر اس عظیم جمہوریت کی
آبادی تو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ۔۴۰ فیصد غریب، ۴۰ فیصد متوسط طبقہ
اور۲۰ فیصد امیر تو دولت کی تقسیم کچھ اس طرح سے ہوتی ہےکہ ۲۰ فیصد امیروں
کے پاس ملک کا ۸۴ فیصد سرمایہ ہے ۔ متوسط طبقہ کی تعداد ان سے دوگنی ہے اس
کے باوجود ان کوصرف ۷ء ۱۵ فیصد پر اکتفا کرنا پڑتا ہے اور ۴۰ فیصد غریبوں
کے پاس صرف ۳ء۰ فیصد دولت ہے یعنی ایک فیصد کا ایک تہائی ۔ یہ کس قدر
شرمناک صورتحال ہے کہ بڑے ذوق و شوق سے ووٹ دے کر خوش ہونے والے عوام دن
بدن کسمپرسی کا شکار ہوتے جارہے ہیں ۔
امریکہ کا ایک مسئلہ یہ ہے وہاں مہنگائی کی شرح بہت زیادہ ہے ۔ اس لئے اگر
کسی خاندان میں تین افراد ہوں اور ان کی سالانہ آمدنی ۱۹۰۰۰ ہزار ڈالر سے
کم ہو تو اس کا شمار غریبوں میں کیا جاتا ہے ۔ ماہرین کی رائے میں یہ
اعدادو شمار نظرِ ثانی کے مستحق ہیں اس لئے اس میں ایک خاندان کا گزارہ
یعنی گھر کا کرایہ، بجلی کا بل ، غذا اور پانی کا بندوبست نہیں ہو پاتا ۔
امریکہ میں ۲۵ فیصد لوگ غریبی کی سطح سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
ایڈلمین کے مطابق امریکہ میں فی الحال دوکروڈ سے زیادہ لوگوں کی آمدنی
۹۵۰۰ ڈالر یعنی غریبی کی لکیر کے نصف سے بھی کم ہے ۔ ساٹھ لاکھ امریکی بے
گھر ہیں اور وہ فٹ پاتھ یا اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں ۔ ان
کو حکومت کی جانب سے غذا فراہم کی جاتی ہے لکن مٹ رومنی علی الاعلان ان
مجبوروں کو مفت خور قرار دے کر اس سہولت سے محروم کرنے کا نعرہ لگا رہے ہیں
۔
عوام کی اس ابتری کے مقابلے ان کے نمائندوں کی برتری بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
اخبار دی ہل کے مطابق پارلیمان یعنی کانگریس کے ۱۷ ارکان کی دولت سو کروڈ
روپیہ کے برابر ہو گئی ہے اور ۳۵ ارکان نے ۵۰ کروڈ روپیہ جمع کیا ہے ۔ اس
فہرست میں سب سے اوپرریپبلکن پارٹی کے مائیل مکول ہیں جنھوں نے ۱۵۰ کروڈ
روپیہ جمع کیا اس کے بعدڈیموکریٹک پارٹی کے جان کیری کا نمبر آتا ہے جو
۱۰۰ کروڈ کے مالک بن گئے ہیں ۔ اس میں سے ۲۵ کروڈ تو گزشتہ ایک سال کی
آمدنی ہے ۔ ویسے ان امیر عوامی نمائندوں میں اکثریت یعنی ۶۰ فیصد ریپبلکن
پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اگر سب سے زیادہ دس امیر لوگوں کو الگ کیا جائے تو
اس میں سات کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے ۔ اس کے معنی ٰ یہی ہوئے کہ اس
معاشی بحران میں بھی جب کہ ملک دن بدن قرض کے بوجھ تلے دبا جارہا ہے ۔ عوام
نت نئی مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں ان کے جمہوری نمائندوں کی عیش و عشرت میں
اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔اس لوٹ مار میں نہ تو پارٹی سے کوئی فرق پڑتا ہے اور
نہ ہی اکثریت و اقلیت میں ہونے سے ۔اس لئے کہ ایک طرف جہاں صدر ڈیموکریٹک
گدھا ہے وہیں پارلیمان اکثریت ریپبلکن ہاتھیوں کی ہے ۔ اس طرح دونوں کو
کھانے کمانے کے یکساں مواقع حاصل ہیں اور وہ لوگ اس سے بھرپور استفادہ کر
رہے ہیں ۔
اس صورتحال کے نتیجے میں امریکہ کے اندر ایسے دانشوروں کی ایک اچھی خاصی
تعداد موجود ہےجو عوام کو انتخاب کا بائیکاٹ کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ان
میں جے جی فائب بھی شامل ہیں جن کی ۸۶ ابواب پر مشتمل ضخیم کتاب ’’جدید
نشاۃ الثانیہ کا نسخۂ کیمیا‘‘ کافی مقبول ہوئی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ
دونوں جماعتیں ایک ہی سکہ کے دوپہلو ہیں ۔ پارٹی کے رہنما بدل جاتے ہیں
لیکن ان کے پس پشت کام کرنے والے پالیسی ساز دانشور اور ان کا سرمایہ داروں
سے تعلق نہیں بدلتا اس لئے کسی ایک کے آنے اور دوسرے کے چلے جانے سے عوام
کو کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوتا ہے ۔ چہرے ضرور بدلتے ہیں لیکن حکمت عملی
اور طریقۂ کار وہی رہتی ہے ۔ان کی دلیل یہ ہے کہ جب وہ لوگوں سے کہتے ہں
کہ اپنی توانائی انتخاب پر صرف نہ کرو تو اس کامطلب یہ لیا جاتا ہے کہ میں
انہیں اپنے مسائل کو حل کرنے سے روکتا ہوں اور بے عملی کی دعوت دیتا ہوں
حالانکہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔عوام انتخاب میں ووٹ دے کر اپنے آپ کو
مطمئن کر لیتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر سکتے تھے کر چکے اب انہیں کچھ اور کرنے
کی مطلق ضرورت نہیں ہے ۔ ان کے مسائل اب ان کے نمائندے حل کریں گے حالانکہ
عوام جانتے بوجھتے اپنی رائے ان لوگوں کے حق میں دینے پر مجبور ہیں کہ جو
ان کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت اپنے اندر نہیں رکھتے ۔جن کا نااہل ہونا
نہ صرف ثابت ہو چکا ہے بلکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو اکثر وبیشتر مسائل کو حل
کرنے کے بجائے مشکلات پیدا کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے حوالے اپنے مسائل کو
کرکے مطمئن ہوجانا سراسر حماقت ہے ۔
امریکی عوام کے اندر بےچینی اور مایوسی کا جو آتش فشاں پک رہا ہے وہ وقتاً
فوقتاً پھٹتا رہتا ہے ۔ اس سال اپریل سے اگست کے دوران چار ایسے واقعات
رونما ہوئے جس میں کسی نہ کسی بندوق بردار سر پھرے نے عوام پر بلا وجہ گولی
چلا دی ۔ان حادثات میں کل ۲۷ افراد ہلاک اور ۷۰ زخمی ہو چکے ہیں ۔ اس کے
علاوہ ابھی حال میں سابق فوجیوں پر مشتمل ایک ایسے گروہ کو حراست میں لیا
گیا جس کا ارادہ نہ صرف حکومت کا تختہ الٹنا تھا بلکہ وہ صدر کو ہلاک بھی
کرناچاہتا تھا ۔بائیں بازو کے اس انتہا پسند گروہ کا نام ’’صدا تیا رہمیشہ
پائیدار‘‘ہے جس کا انگریزی مخٖفف خوف بنتا ہے ۔یہ سب مقامی دہشت گرد ہیں
اور سیب کی فصل کو تباہ کرنے کے علاوہ ایک پانی کے بند کو بھی گرا نے کا
منصوبہ بنا چکے تھے ۔وہ لوگ فوجی چھاؤنی سٹیورٹ قلعہ پرحملہ کر کے اس میں
موجود اسلحہ پر قابض ہونے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ اس گروہ کا پتہ اتفاق سے
چلا ۔ ان لوگوں نے ایک سابق فوجی مائکلق رورک اور اس کی محبوبہ ٹفنی کا محض
اس لئے قتل کردیا کہ اسے ان کے منصوبے کا پتہ چل گیا تھا ۔ پولس نےمائیکل
رورک کے قاتلوں کی تلاش میں ایک سابق فوجی مائیکل برنٹ کو گرفتار کرلیا اور
اس نے تمام راز افشا کرکےاپنے جرم کا اعتراف کرلیا ۔ اس نے بتایا کہ سٹیورٹ
قلعہ پر حملہ کرنے کی خاطر ۸۷۰۰۰ ہزار ڈالر کی بندوقیں اور آتش گیر مادہ
خریدا گیا تھا ۔اس کیلئے رقم اگویوی نامی رکن کی بیوی کی موت سے حاصل ہونے
والی انشورنس کے پانچ لاکھ ڈالرسے فراہم کی گئی تھی ۔ اس معاملے کا دلچسپ
پہلو یہ ہے کہ یہ بائیں بازو کے انتہا پسند امریکی حکومت کو صہیونیت کے
چنگل سے آزاد کرانا چاہتے ہیں ۔
ایک قیاس آرائی یہ بھی کی جارہی تھی کہ اوبامہ اپنی سیاسی دوکان کو چمکانے
کی خاطر اسرائیل کوانتخاب سے قبل ایران پر حملہ کرنے کی اجازت مرحمت کر دے
گا لیکن اب جو خبریں آرہی ہیں وہ اس کے بر عکس ہیں ۔ سنا ہے امریکی
انتظامیہ نے اسرائیل سے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ ایران پرحملہ کی صورت میں
وہ اس کا ساتھ نہیں دے گا ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اوبامہ انتظامیہ اپنے
یوروپی حلیفوں کے توسط سے ایران کے ساتھ رابطے میں ہے اور اس یقین دہانی پر
کہ وہ خلیج فارس میں اگر امریکی مفادات کو نقصان نہ پہنچانے کی ضمانت دے تو
اس صورت میں اسرائیل کو حملہ سے باز رکھا جائیگا ۔اس موقف کی ایک وجہ یہ
بھی ہے کہ اگر ایران کی جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچتا تو اس سے نہ صرف
ایرانی عوام بلکہ آس پاس کے خلیجی ممالک میں جوہری شعاوں کے اثرات کا
اندیشہ ہے اور امریکہ اپنے ان عرب حلیفوں کو اسرائیل کی خاطر ناراض کرنے کا
خطرہ فی الحال مول لینا نہیں چاہتا ۔
اس بیچ امریکہ سے اسرائیل کیلئے ایک اور اندوہناک خبر آئی ہے ۔امریکہ کی
۱۶ اہم ترین خفیہ ایجنسیوں کو۷ ہزار کروڈ ڈالر کا بجٹ فراہم کرکے ایک تحقیق
کا کام سونپا گیا اور اس کے نتیجے میں ۸۲ صفٖحات پر مشتمل رپورٹ کا مسودہ
تیار ہو چکاہے ۔ اس رپورٹ کا موضوع ہے اسرائیل کے بعد مشرق ِ وسطیٰ ۔ اس
رپورٹ کے مسودے میں ایسے چونکا دینے انکشافات کئے گئے ہیں جس کا تصور کرنا
بھی محال تھا ۔ اس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اسرائیل کی دوستی امریکہ کے
قومی مفادات کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ اسرائیل سے گہرے تعلقات کے باعث
امریکہ مسلم ممالک سے تعلق استوار نہیں کر پارہا ہے اور بین الاقوامی سطح
پر الگ تھلگ پڑتا جارہا ہے ۔ عرب دنیا میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں نے
امریکہ کے مسائل میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے اور ایک ایسے ملک کی خاطر
جو انسانی حقوق کی پامالی کیلئے ساری دنیا میں بدنام ہو چکا ہے ۵۷ مسلم
ممالک سے تعلقات کو بگاڑ لینا گھاٹے کا سودہ ہے ۔ اس رپورٹ میں یہودیوں کی
امریکی امور میں دخل اندازی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور کہا
گیا ہے امریکی رائے عامہ اب اسرائیل کے خلاف ہو چکی ہے ایسے میں (معاشی
بحران کے چلتے ۱۹۶۷ سے جاری اسرائیلی امداد جو تین لاکھ کروڈ ڈالر سے
متجاوز ہے ) اسے جاری رکھنا ناممکن ہے ۔ اسرائیل کے بغیر مشرق وسطی ٰ کا
امکان دراصل اسرائیل کے صٖفحۂ ہستی سے مٹ جانے کے مترادف ہے اوراس پر
ایران میں نہیں بلکہ امریکہ غور میں ہو رہا ہے ۔ اس رپورٹ کا کیا حشر ہوگا
کوئی نہیں جانتا لیکن اس میں موجود امکان یقیناًایک دن حقیقت بنے گا اس میں
شک شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
خارجی محاذ پر امریکہ کی حالت آج کل بہت پتلی ہے ۔ افغانستان سے ۲۰۱۴ میں
نکل جانے سے قبل امریکی یہ چاہتے تھے کہ افغانی فوجیوں کی اس طور تربیت کر
کے جائیں کہ چلے جانے کے بعد بھی ان کے کٹھ پتلی ان کے اشاروں پر ناچتے
رہیں لیکن اب امریکی انتظامیہ نے اس کام کو بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔
اس کی وجہ یہ ہے جن کی وہ تربیت کرتے ہیں وہ نوجوان اپنی تربیت کا فی الفور
استعمال امریکیوں ہی کے خلاف کردیتے ہیں ۔ گزشتہ چند ماہ کے اندر اتحادی
فوجیوں کے خلاف ہونے والے پے درپے حملوں سے تنگ آکر یہ فیصلہ کیا گیا ہے ۔
امریکی حکام جن پر بھروسہ کر کے ان کی دعوت پر جاتے ہیں وہی انہیں موت کے
گھاٹ اتار دیتے ہیں ۔ افغانستان میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر
نرم چارہ پاکستا ن پر ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن اب وہ بھی زیادہ دن
نہیں چل سکتا ۔ سچ تو یہ ہے کہ افغانستان میں سوویت یونین کی جو حالت آج
سے چند سال قبل تھی اس سے بری حالت فی الحال امریکہ کی ہے ۔کینیڈا اور
فرانس اپنے فوجیوں کو واپس بلا چکے ہیں اور یہی صورتحال رہی تو امریکہ کا
نیا صدر ۲۰۱۴ کا انتافر کرنے کے بجائے درمیان ہی میں افغانستان سے بھاگ
کھڑا ہوگا جیسا کہ ان لوگوں نے عراق میں کیا تھا ۔
ایران کے اندر منعقد ہونے والی ناوابستہ کانفرنس میں بڑے پیمانے پر
سربراہانِ مملکت کی شرکت نے امریکہ کی بین الاقوامی ساکھ پر ایک بہت بڑا
سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔مصر کے صدرمورسی کو شرکت سے روکنے کیلئے امریکہ نے
اپنی ۱۳۰ کروڈ ڈالرکی فوجی امداد بند کرنے کی دھمکی دی لیکن اس کے باوجود
مورسی نے دباؤ میں آنے سے انکار کر دیا ۔ مصر کو سعودی عرب نے ۳۰۰ کروڈ
ڈالر اور آئی ایم ایف نے ۴۸۰ کروڈ دالر قرض کی فراہمی کا یقین دلایا ہے
نیز چین نے بھی اپنا تعاون پیش کیا ہے ۔ایسے میں ۱۱ ستمبر کے نوحہ خوانی
میں امریکہ کے صدارتی امیدوار کیا کہتے ہیں یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں
ہوگا ۔امریکی انتظامیہ کی اس حالت کو دیکھ کر افتخار عارف کی آزاد نظم
’’ستمبر کی یاد‘‘ کا پرندا یاد آتا ہے جو بہت اونچی اڑان بھرنے چلا تھا
مگر اس کے پر اس کا تابوت بن گئے ؎
اور تو کچھ یاد نہیں بس اتنا یاد ہے
اس سال بہار ستمبر کے مہینے تک آ گئی تھی
پھر دھوپ ہی دھوپ میں اتنی برف پڑی کہ بہت اونچا
اُڑنے والے پرندے کےپراس کا تابوت بن گئے |