دنیا بھر میں ایک طرف استعماری
ممالک امریکہ یورپی یونین ورلڈ بنک کی ناقص مالیاتی پالیسیوں کے کارن روئے
ارض پر فاقہ کشی کا تخمینہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے تو دوسری جانب اسلحے کی
تجارت کا گراف آسمانوں کو چھو رہا ہے۔ یہودیوں اور صہیونیت پرست اماموں کی
ملکیت وار انڈسٹری ہر سال اسلحے کی خرید و فروخت اور غیر قانونی اسمگلنگ سے
کھربوں ڈالرکا منافع کماتی ہے۔ مغرب میں یہی دولت عوامی فلاح و بہبود پر
خرچ کی جاتی ہے جبکہ امت مسلمہ کے معدنی وسائل سے حاصل کردہ دولت اور عوامی
خزانے کی بیش بہا رقم ہتھیار خریدنے پر غرق کی جاتی ہے ۔ٹائمز کے رپورٹر
کینتھ لینس نے ریسرچ رپورٹ تیار کی ہے کہ موجودہ صدی کے آخری مہینوں میں
دنیا کی آبادی50٪بڑھ جائے گی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ایک
ارب لوگ فاقہ کشی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان سمیت پسماندہ اور
تیسری دنیا کے درماندہ ملکوں میں قریہ قریہ گلی گلی ناجائز اسلحے کے ڈھیر
موجود ہیں۔امریکہ اور مغربی ایجنسیاں سمگلڈ اسلحے کو دنیا کے ہر کونے کھدرے
میں بغیرکسی حیل و حجت اور رکاوٹ کے بغیر ہر قسمی ہتھیار مطلوبہ ٹارگٹ تک
ڈیلیور کرتی ہیں۔یوں دنیا بارود کے ڈھیرپر ایستادہ ہے۔ اسلحے کی بہتات نے
جہاں ایک طرف بنی نوع انسان کو سیکیورٹی رسک کا تحفہ د ے رکھا ہے تو وہاں
دوسری طرف اہل اقتدار غربت و افلاس اور فاقہ کشی کے خاتمے کے لئے درکار اور
ناگزیر قومی دولت کو جنگی بجٹ کے اکاؤئنٹ میں شامل کرکے قوم کو سسکنے اور
بلکنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ انسانیت نوازی حقوق ادمیت اور عدل و انصاف کی
ہاہاکار مچانے والی سپرپاور اور اسکے اتحادی اللہ کی زمین کو جوہری بمبوں
سے پاک صاف کرنے کا راگ تو الاپتے رہتے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ گاہے بگاہے
تخفیف اسلحہ نام کی کانفرس کا سرکس شو لیپا پوتی مکرکرنی اور دھوکہ دہی کی
غمازی کرتا ہے۔ تخفیف اسلحہ کا تازہ ترین شاہکار شو نیویارک میں چند ہفتے
پہلے منعقد ہوا مگر ائے بسا آرزو کہ خاک شد 172 ملکوں کے سفرا اور مندوبین
کی امد کے باوجود یہ شو ناکام ہوا۔ تخفیف اسلحہ کمیٹی کے گرو گنٹال رابرٹ
ٹو گارشیا نے دانتوں میں انگلی دبا کر ناکامی کا اعلان کیا اسکی لڑکھتی
ہوئی زبان بڑبڑا اٹھی کہ ہم uno چارٹر میں weapons trading کے لئے طے کردہ
اصول و ضوابط کے مطابق کوئی متفقہ قرارداد منظور کرنے میں کامیابی حاصل کر
لیں گے۔ چین جرمنی روس اور برطانیہ نے کانفرنس کے ایجنڈے کی چند شقوں پر
خدشات کا اظہار کیا اور غور و خوض کی خاطر مہلت طلب کی تھی۔ رابرٹو گارشیا
کی خدمت میں جبران کا یہ فکر آموز جملہ دیدہ عبرت کی دعوت د ے رہا ہے کہ
زنگ آلود لوہے پر چاہے جتنی مرتبہ سونے کا پانی چڑھاتے رہیں مگر سچ تو یہ
ہے کہ وہ زنگ آلودہی رہتا ہے۔گارشیا صاحب کی خدمت میں دست بستہ عرض ہے کہ
جن بڑے ملکوں کی معیشت کا انحصار جنگی کاروبار پر مبنی ہے وہ بھلاکس طرح
اسلحے کی تجارت کم کرنے پر رضامند ہونگے۔ uno پہلے ہی تخفیف اسلحہ وار
ویپنز ٹریڈ اورہتھیاروں کی خرید و فروخت کے لئے چند رہنما اصول طئے کرچکی
ہے جسکی ایک شق یہ ہے کہ اسلحہ سازی پرائیویٹ سیکٹر میں ہو یا حکومتوں کی
نگرانی میں ہو ویپن ٹریڈرز اور سیکیورٹی اداروں کو پابند کیا گیا ہے کہ
جنگی ہتھیاروں اور دفاعی ساز و سامان کی فروخت اور دو ملکوں کے مابین ہونے
والے معاہدوں کو جانچ پڑتال اور تحقیق و تفتیش کے بعد فائنل کیا جاوے تاکہ
دہشت گرد ٹولے اسلحہ خریدنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔امریکہ چین فرانس جرمنی
برطانیہ اور یورپی یونین ہر سال وار انڈسٹری سے کھربوں ڈالر کا منافع لوٹتی
ہے مگر موت کے سوداگر دولت کی ہوس میں عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پورے بنے
ہوئے ہیں مغربی ایجنسیوں نے اسلحے کی فروخت کے لئے ایسی چین قائم کررکھی ہے
کہ جنگی میدانوں میں استعمال ہونے والے ہتھیار بچوں تک کے ہاتھوں لگ چکے
ہیں۔۔ امریکہ سمیت یورپی یونین اور روس میں صنعت حرمت اور معیشت نے تعمیر و
ترقی اور سائنسی انقلابات کی اوج ثریا تو حاصل کرلی مگر حیف تو یہ ہے کہ
ایسے انقلابات کے قلعے کی تعمیر میں وار انڈسٹری کی بلیک منی اور خون
انسانیت کا استعمال ہوا ۔ روئے ارض کو اپنا باج گزار مسلمانوں کو اچھوت
سمجھ کر صفحہ ہستی سے مٹادینے کی درفطنیوں میں غلطاں یورپی ممالک امریکہ
اسرائیل روس اور چین بھلا کس طرح ایسی کسی قرارداد کو پاس ہونے دیں گے جو
انکی کھربوں ڈالر کی امدنی کا صفایا کرنے کے لئے نوٹی فائی کی گئی ہو۔ دنیا
کے کسی کونے میں منٹوں میں غیر قانونی ویپنز اپکے قدموں میں ہونگے۔ سویڈن
کے انٹرنیشنلPEACE RESERCH CENTRE نے رپورٹ شائع کی ہے کہ ہتھیاروں کی
سمگلنگ اور پیداوار میں اضافہ روز افزوں ہے۔ براعظم ایشیا میں سب سے زیادہ
اسلحہ فروخت ہوتا ہے جن میں انڈو پاک بھی شامل ہیں۔ پچھلے 5 برسوں میں
مجموعی عالمی پیداوار کا 44 فیصد اسلحہ ایشیائی ملکوں میں درامد کیا گیا۔
یہ جان کر حیرت بھی ہوتی ہے اور دل سے خون کے فراٹے نکلنے لگتے ہیں کہ انڈو
پاک کی عسکری اور شاہی اورجرنیلی قیادت امریکی سازشوں کے جال میں گردن تک
جکڑی ہوئی ہے کہ خطے میں ویپن دوڑ کا جنون نیلے آکاش کو چھو رہا ہے۔ بھارت
دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔بھارت مجموعی پیداوار کا 10فیصد
درامد کرتا ہے۔ اسکے علاوہ گزرے 5 برسوں میں یورپ نے 19٪مشرق وسطی نے 17٪شمالی
و جنوبی امریکہ نے 11٪اور جنوبی افریقہ نے9٪ ہتھیار جنگی سازو سامان درامد
کیا۔جنوبی کوریا نے 6٪ پاکستان اور چین نے 5فیصد اور سنگاپور نے4٪ ہتھیار
درامد کئے۔ انٹرنیشنل پیس کی ریسرچ کے مطابق2007 تا2011 کے 5 برسوں میں
اسلحے کی خریداری میں44٪ اضافہ ہوا۔ امریکہ روس برطانیہ فرانس جرمنی کے بعد
چین اسلحہ بنانے اور فروخت کرنے والی فہرست کے 6 نمبر پر آچکا ہے۔ سابق
برصغیر کے باسی ہونے کے ناطے تشویش اور خدشات و توہمات نے ہمارے دماغ کو
گھیر رکھا ہے کہ آخر بھارت پے درپے کھربوں ڈالر کی دولت سے جنگی سٹور بھرنے
کا شوق کیوں پالتا ہے ؟ پاکستان کی عسکری قیادت کو جونہی بھارت اور کسی ملک
کے مابین جنگی معاہدوں کا پتہ چلتا ہے تو اسلام آباد اور جی ایچ کیو میں
اسلحے کی فوری خرید کی بھاگ دوڑ شروع ہوجاتی ہے۔ حکام بالہ پر جونہی یہ
سربستہ راز کھلتا ہے کہ بھارت وار ویپنز فلاں ملک سے درامد کئے ہیں تو ghq
میں اسی ملک سے اسلحہ خریدنے کی ہنگامی تیاریوں کا آغاز ہوجاتا ہے۔ بھارت
نے اسی سال دفاعی بجٹ میں میں17٪ کا اضافہ کیا جسکا حجم38 ارب ڈالر ہے۔
پاکستان اور بھارت روز اول سے مسئلہ کشمیر کے تنازعے پر نہ صرف ایک دوسے کے
حریف رہے ہیں۔ دونوں ہمسایہ ریاستوں کے درمیان تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں
علاوہ ازیں جنگوں کے علاوہ سانحہ کارگل انڈو پاک کے عیاں چہرے پر بدنما داغ
کی طرح انمٹ ہیں۔طرفین جوہری طاقتیں ہیں۔ جنوبی ایشیا میں جوہری جنگ کی فضا
سارا سال مسلط رہتی ہے۔ بھارت جب سے امریکہ کا لے پالک بنا ہے تب سے آج تک
انڈین سیاسی حکومتی اور جرنیلی تاریخ کے ابواب کا طائرانہ جائزہ لگایا جائے
تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلحہ خریدنے کی انقلابی اور طوفانی دوڑ جمی ہوئی ہے۔۔
امریکہ بھارت کو اپنا کوارڈری نیٹر بنا چکا ہے ۔امریکہ نے چین ایسی سپرپاور
کی ابھرتی ہوئی عالمی قیادت کی جولانیوں کے سامنے بھارتی فورسز کی دیوار
چین بنانے کی کاوشیں کررہا ہے۔ شامل ہیں۔ پاکستان کے کھلاڑی چین دفاعی جنگی
صنعتی میدان میں ترقی کرچکا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کی لشکر
دہلی100 ارب بجٹ رکھنے والے چین کو کبھی مات نہیں دے سکتی۔تاریخ عالم گواہ
ہے کہ مغربی اور استعماری طاقتیں اپنے زاتی مفادات کی خاطر دو ملکوں میں
جنگ چھڑا کر اپنا الو سیدھا کرسکتے ہیں۔ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ امریکہ
اپنے مفادات و فوائد کی خاطر اپنے حلیفوں کو بیچنے میں دیر نہیں لگاتا۔
لیبیا کے قذافی عراق کے صدام اور مصر کے حسنی مبارک تیونس کے زین العابدین
کسی دور میں انکل سام کے دل کی دھڑکن آنکھوں کا نور دل کا سرور تھے مگر
وائٹ ہاؤس کے پنچ پیاروں کا جو حشر خود رقت امیز حشر ہوا وہ دیدہ حسرت و
یاس بھی اور دیدہ عبرت سبق بھی ہے۔پاکستان اور بھارت کو چاہیے کہ وہ امریکی
ایجنسیوں کے شر سے محفوظ رہیں اور برصغیر پاک و ہند میں فوجوں کے لشکر پر
بے جا قومی دولت کے اصراف کو ختم کریں۔ ہزاروں سالوں تک ایک ساتھ رہنے والے
ہندو مسلمان اور سکھ دوبارہ یکسو ہوجائیں؟ کیا بھوک و ننگ غربت اور مفلوک
الحالی فاقہ کشی کے خاتمے کے لئے پاک بھارت کنفیڈریشن کے امکانات کو عملی
شکل دی جائے۔نیو دہلی کے منتریوں اور آسلام اباد اور جی ایچ کیو کے
مہاراجوں کا اولین کام تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ پاکستان کے سابق وزیراعظم
بھٹو کے قول کی روشنی میں کنفیڈریشن قائم کریں ویپن دوڑ کا خاتمہ ہونا
ناگزیر ہے۔قائدعوام نے کہا تھا حکمرانوں غریب عوام کی آواز پر کان دھرو یہ
اللہ کی آواز ہے اگر اسے سنا ان سنا کرنے کا گناہ ہوا تو تم اللہ کے باغی
کہلاو گے۔ خدا راہ ویپن دوڑ پر خرچ ہونے والے کھربوں ڈالر بھوک فاقہ کشی
اور پسماندگی کے خاتمے کے لئے مختص کرو ورنہ عذاب الہی اموختہ اور الم نشرح
ہوچکا ہے۔ |