آج ساری دنیا میں ہر جانب سے امن کی دہائی
دی جاتی ہے اور امن کے نام بد امنی پھیلانے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور
رفتہ رفتہ دنیا کو اپنے قبضہ قدرت میں لینے کی مذموم کو ششیں بھی ہورہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ دنیا میں بدا منی ہے بھی یا نہیں ؟ کیا آج جسے ہم ابدامنی
کہہ رہے ہیں کیا وہ واقعی کسی اہم کاز یا حقوق کی باز یابی کے لیے کسی
جامعت ، فرد یا ادارے کی کوشش ہے یا کسی جماعت ، فرد یا ادارے کی جانب سے
بدامنی پھیلانے کی غرض سے اس طرح کے مسائل کو کھڑ ا کیا جارہا ہے؟ اس
بدامنی کے نام کو استعمال کر دنیا کے چند ممالک اپنی طاقت و قوت اور اثر
رسوخ کو بڑھا نے کی سازش کر رہے ہیں؟ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا
لگتا ہے کہ بدامنی اور انسانی حقوق کی بحالی اور اس کی پامالی کے نام پر
کچھ سازشیں بھی ہورہی ہیں ۔
انھیں سازشوں اور منصوبوں کی وجہ سے آج دنیا کے بیشتر ممالک پریشان ہیں ۔
انھیں منصوبوں اور سازشوں کے وجہ سے دنیا کے اقتصاد پر بھی بڑا بوجھ پڑ رہا
ہے اسی لیے آج دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس کا معاشی نظام بہت مستحکم
ہو ۔ہر طرف ایک شور غوغا ہے اور اسی شور ہنگامے میں کچھ ممالک ایسے ہیں جو
اپنے منصوبوں کو رو بہ عمل لانے کی فکر میں ہیں ۔کسی بھی چھوٹے واقعے کو
ایسے ممالک بڑ ا بنا کی اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے اس سے بڑا واقعہ اور کچھ
ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس کی ادنیٰ سی مثال یہ ہے کہ کچھ دنوں قبل ہندستان
کی راجدھانی دہلی میں کسی شر پسند نے ایک اسرائیلی سفارتکار کی گاڑی میں
مقناطیسی بم نصب کردیا ۔ اس ایک دھماکے نے پوری دنیا میں ایران کے نام کو
اس طرح اچھالا جیسے ایران عالمی سطح پر امن کو بر باد کرنا چاہتا ہے ۔اس سے
پہلے کہ یہ پتہ چلے کہ یہ حرکت کس ہے اسرائیل کے وزیر اعظم نے اس میں ایران
کو ملوث بتا کر دنیا کو متنبہ کرنا شروع کردیاکہ اب ایران دنیا کے لیے خطرہ
ہے ۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل کے منصوبے ظاہر ہونے لگے کہ وہ ایران کو تباہ و
برباد کر دےگا ۔ سوال یہ کہ دنیا میں معدنی اور قدرتی وسائل کے استعمال کا
حق تو ہر ملک کو ہے اور ہر ملک کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے ۔ اگر امریکہ ،
اسرائیل ، ہندستان اور پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک کے پاس جوہری
توانائی ہے تو اگر اب کوئی ملک اس کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو کیا اسے
اسرائیل اور امریکہ سے اجازت لینی ہوگی؟ پھر اسرائیل اورامریکہ کو یہ حق کس
نے دیا کہ وہ ایسے خطرناک اسلحے بنائیں؟ کیا آج کی دنیا میں اسرائیل سے
زیادہ کوئی جنونی ہوگا جو تمام مسلم ممالک کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔
اب اگر اس کے پاس یہ خطرناک اسلحے ہیں تو اسرائیل دنیا کے لیے کیوں خطرہ
نہیں ؟ اسرائیل عالمی امن کو تباہ کرنے کے حوالے سے کیوں سب سے خطرناک ملک
نہیں ؟ یہ سوالات ہیں جو عالمی سطح پر پوچھے جانے چاہیے ۔ لیکن حیرت یہ ہے
کہ یہ وہ ممالک ہیں جو خود ساری دنیا میں امن وک تباہ کرنے کے منصوبے بنا
رہے ہیں اور خود کو امن کا ٹھیکیدار کہتے ہیں۔ابھی حال تازہ ترین دو واقعے
کو دیکھیں ایک ہندستان ے حوالے سے اور دوسرا پاکستان کے حوالے سے ۔ تمل
ناڈو میں کڈنکلم جوہری پلانٹ کے حوالے سے ہندستان کے وزیر اعظم منموہن سنگھ
نے جو بیان دیا ہےوہ اسی بات کی غمازی کرتے ہیں کہ جیسے جوہری طاقت کا حصول
اور اس کی افزائش پر صرف اور صرف امریکہ اور اسرائیل کو ہی حق ہے کوئی اور
ملک ان کے منشا کے بغیر نہیں کر سکتا۔ ہندستان کا یہ جوہری پلانٹ کچھ
سازشوں کا شکار ہے جس کے بارے میں وزیر اعظم نے کہا کہ کڈنکلم کی کئی ماہ
سے مخالفت ہورہی ہے۔ اس مخالفت کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے
کہا ’آپ جانتے ہیں کہ کڈنکلم میں کیا ہورہا ہے‘۔انہوں نے کہا ’بھارت کا
ایٹمی توانائی پروگرام غیر سرکاری تنظیموں کی وجہ سے مشکل میں پڑ گیا ہے۔
میرا ماننا ہے کہ ان میں زیادہ تر امریکی ہیں جو ہمارے ملک کی توانائی
سپلائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو نہیں مانتے ہیں۔‘ کڈنکلم جوہری پلانٹ تمل
ناڈو کے ترنلویلی ضلع میں واقع ہے جہاں ایک ہزار میگاواٹ کے دو پلانٹ شروع
ہونے والے ہیں۔سیکورٹی خدشات کے تحت مقامی لوگوں کے احتجاج کی وجہ سے
كڈنكلم جوہری پلانٹ کا کام متاثر ہوتا رہا ہے۔ اس کے خلاف احتجاج کرنے والی
این جی ایوز وہ ہیں جو امریکی اشتراک سے چل رہی ہیں ۔ اسی لیے ان کے خلاف
فوری کاروائی کرتے ہوئے ان کے لائسنس منسوخ کردئے گئے ہیں۔
اب عالمی ٹھیکیداری کی دوسری مثال پاکستان کے حوالےسے ملاحظہ فرمائیں ۔
امریکی ایوانِ نمائندگان میں 17 فروری کو ایک قرارداد جمع کرائی گئی ہے جس
میں کہا گیا ہے کہ بلوچ عوام کو اپنے لیے آزاد ملک کا حق حاصل ہے۔اس
قرارداد کے مطابق بلوچی عوام کو تاریخی طور پر حقِ خود ارادیت حاصل ہے۔
قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ بلوچستان اس وقت پاکستان، ایران اور
افغانستان میں بٹا ہوا ہے اس بلوچ عوام کو حقوق حاصل نہیں ہیں۔یہ قرارداد
ریپبلکن جماعت کے نمائندے ڈینا روباکر نے جمع کرائی ہے۔ روباکر خارجہ امور
کی ذیلی کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ
پاکستان میں بلوچ عوام پر تشدد کیا جا رہا ہے اور وہاں ماورائے عدالت
ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔’بلوچی عوام کو حقِ خود ارادیت اور آزاد ملک کا حق حاصل
ہے اور ان کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنا فیصلہ کرسکیں۔ سیاسی اور لسانی
طور پر بلوچ عوام کو کچلا جا رہا ہے جو کہ افسوسناک ہے۔ اور یہ اور بھی
افسوسناک ہے کیونکہ امریکہ ان پر ظلم کرنے والوں کو اسلام آباد میں اسلحہ
بیچ رہا ہے۔‘( بحوالہ بی بی سی ) سوال یہ ہےکہ بلوچستان میں جو کچھ ہو ر ہا
ہے اس کے لیے ذمہ دار یقینا پاکستان ہے لیکن پہلے پاکستان پر دباو ڈالنے کی
ضرورت تھی نہ کہ اس طرح کی قرارداد لا کر پاکستان کی سالمیت پر حملہ بولنے
کی ضرورت تھی۔ اگر ایسا ہی ہے تو اسرائیل کے حوالےسے کیوں قراردادیں نہیں
آرہی ہیں جو ظلم پہ ظلم کیے جارہا ہے ۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ آج کی
دنیا میں ابھی طاقتور ملک یہی ہیں ۔
رہی بات بلوچستان کی تو اس حوالے سے یقینا پاکستان کی حکومتیں غیر سنجیدہ
رہی ہیں ۔ انھوں نے بلوچستان کو ہمیشہ حاشیے پر رکھا اور ان کے ستاھ ظلم و
زیادتی ہوتی رہی ۔ تمام مظالم خود پاکستان کی مختلف تنظیموں اور اداروں کی
جانب سے ہوتے رہے اور حملہ ہندستان پر بھی کیا گیا ۔ حالانکہ ہندستان کی
جانب سے کسی ایسے واقعے کو کوئی بین ثبوت فراہم نہیں کیا جاسکا۔ اب اس قرار
داد کے بعد خود بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل نے یہ سوال اٹھایا
کہ امریکی ایوان نمائندگان میں قرارداد پیش کرنے کے لیے حالات یا موقع کیوں
فراہم کیا گیا۔ان کا کہنا ہے کہ سابق اور موجودہ حکمرانوں کے کردار کی وجہ
سے بلوچ نوجوانوں اور بزرگوں کی جو لاشیں پاکستان اور بلوچستان کے بیچ میں
پڑی ہیں، جو خون بہایا گیا ہے، اس نے پاکستان اور بلوچستان کے درمیان بہت
سے فاصلے بنا دیے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ حکمرانوں کی نیت اور رویوں میں
کوئی تبدیلی آئی ہے اور اگر یہ رویے اور عزائم ایسے ہی رہے تو بلوچستان اور
بھی دور چلا جائے گا۔‘"پاکستان کی سیاسی جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں
تو بلوچستان کی زیادتیوں پر مگرمچھ کے آنسوں بہاتی ہیں اور آج جب ان
زیادتیوں کا ذکر ہورہا ہے تو اس پر یہ کیوں خفا ہورہے ہیں؟" ان باتوں اور
بیانات سے یہ تو ظاہر ہے وہاں کی مرکزی حکومتوں نے ان کے ساتھ تعصبات برتے
ہیں۔آج جو اقدامات فوری طور پر کیے جارہے ہیں وہی پہلے بھی کیے جاسکتے تھے
تو صورت حال یہ نہ ہوتی۔ ابھی پاکستان کے وزیر داخلہرحمٰن ملک جو اعلانات
کر رہے ہیں یہ پہلے کیوں نہیں کیا ؟ انھو ں نے اب یہ ہ کہا ہے کہ بیرون ملک
مقیم بلوچ سیاسی رہنماؤں پر قائم تمام مقدمات ختم کیے جائیں گے۔ حکومت
پندرہ ہزار بلوچ گریجوئیٹ نوجوانوں کو انٹرن شپ دے گی اور ہر ماہ انہیں
پندرہ ہزار وظیفہ ملے گا۔ انہوں نے اسلام آباد میں بلوچستان کے طلباء کی
رہائش گاہ کے لیے ہاسٹل تعمیر کرنے کا بھی اعلان کیا۔
اکثر بلوچ سیاسی رہنما کہتے رہے ہیں کہ بلوچستان میں صوبائی حکومت دکھاوے
کی ہے جبکہ اصل حکمرانی فرنٹیئر کور اور انٹیلی جنس حکام کی ہے۔ان کے مطابق
موجودہ دور میں بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کو اغواء کرکے قتل کرنے کے
واقعات میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔دوسری جانب بلوچ نیشنل نامی تنظیم کا کہنا
ہے کہ سنہ دو ہزار دس کی وسط سے اب تک چار سو بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ
لاشیں ملی ہیں۔بعض بلوچ قوم پرست رہنما الزام عائد کرتے ہیں کہ بلوچستان
میں سیکورٹی فورسز نے ’ڈیتھ سکواڈ‘ بنائے ہوئے ہیں تاہم سیکورٹی فورسز اس
الزام کو مسترد کرتی رہی ہیں۔اب حکومت نے اس جانب توجہ دی ہے اور بلوچستان
کے متعلق کل جماعتی کانفرنس بلانے اور دیگر اقدامات کا اعلان اس وقت کیا جب
امریکی کانگریس میں ایک ریپبلکن رکن نے آزاد بلوچستان کی حمایت میں قرارداد
پیش کی ہے۔اگر یہی ہم پہلے ہوتے تو کسی اور ملک کی مداخلت کی نوبت بھی نہیں
آتی ۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ تمام حالات کے باوجود کسی بھی ملک
کی سالمیت اور اس کے تقدس کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچا سکتا ، بلوچستان میں جو
بھی مظالم ہورہے وہ نہیں ہونا چاہیے او ر یہ سلسلہ جلد بند ہونا چاہیے۔
لیکن کسی ملک کو کسی ملک کے م اندرونی معاملات میں دل اندازی کو حق نہیں ۔
اص طور پر امریکہ اور اسرائیل کو علامی امن کے ٹھیکیدار بننے سے پہلے خود
کے مظالم کو دیکھنے کی ضرورت ہے جو انھوں نے پوری دنیا میں کیے ہیں ۔ آئینی
، اخلاقی اور کسی بھی طور پر طاقتور ممالک کو یہ حق نہیں ہے۔ |