27,220کلومیٹررقبے اور56
لاکھ سے زائد نفوس کی آبادی پرمشتمل فیڈرل ایڈمنسٹریٹ ٹرائبیل ایریا (فاٹا)
کے زیر انتظام باجوڑایجنسی،مہمندایجنسی،خیبرایجنسی ،کرم ایجنسی،شمالی وزیر
ستان ، جنوبی وزیر ستان اور اورکزئی علاقوں پر مشتمل ہیں۔قبائلی علاقوں میں
1901ءسے رائج فرنٹیئر کرائم ریگولیشن یا ایف سی آر کے قوانین میں ترمیمی
آرڈر کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے اور لوکل گورنمنٹ
کا نظام کا نافذ کرنے کی قانون کی منظوری دی جاچکی ہے۔افغانستان کی
سرحدوںسے منسلک یہ علاقے بین الاقوامی سرگرمیوں کا مرکز بنے ہوئے
ہیں۔پاکستانی فوج کے اہلکاروں کو اغوا اور انھیں ہلاک کئے جانے کے واقعات
کے علاوہ افغان سرحدوں پر دونوں ممالک کی جانب سے در اندازی اور بیرونی
مداخلت کے الزامات اور چیک پوسٹ پر حملے آئے دن کا معمول بن چکے ہیں۔امریکہ
اور نیٹو افواج کی جانب سے شمالی وزیر ستان میں فوجی آپریشن کے مطالبے اور
جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملوں میں مسلسل تیزی نے قبائلی عوام کو پاکستان
مخالف سوچ کی جانب مائل کرنا شروع کردیا ہے۔یقینی طور پر ڈرون حملے حکومت
کی اجازت کی بغیر ممکن نہیں ہوسکتے ، کیونکہ ایسا نہیں ہوتا تو حکومت
پاکستان ، پارلیمنٹ کی قرادادوں کی پامالی اور بیرونی جارحیت کے خلاف اپنا
مقدمہ اقوام متحدہ میں لے جا سکتی تھی لیکن وہ ایسا اس لئے نہیں کرسکتی
کیونکہ پختہ میثاق کے تحت سینکڑوں بےگناہوں کے خون سے تر ہونے والی زمیں کے
باسیوں کو سوچی سمجھی سازش کے تحت دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔قبائلی عوام
پاکستان حکومت کی جانب سے فاٹا قوانین میں ترمیم یا سیاسی آزادی دینے کے
تمام تر اقدامات کو محض نمائشی سمجھتے ہیں۔1893میں برٹش حکومت کے ساتھ
افغانستان کے امیر عبدالرحمن اور مورٹیمر ڈیورنڈ نے نے تقسیم افغانستان کے
سو سالہ معائدے پر دستخط کئے۔یہ معائدہ تاریخ میںڈیورنڈ لائن کے نام ے شہرت
پایا۔معائدے کی رو سے برٹش بلوچستان میں پختون علاقے شامل اور شمال مغربی
سرحد علاقے انتظامی طور پر جداکردئےے گئے جبکہ اس کی مزید تقسیم فاٹا اور
پاٹا کے قبائلی علاقے جات بنا کر کردی گئی۔جہاں فاٹا میں 1901ءکے تحت ایف
سی آر کا نفاذ کردیا گیا جو تقسیم ہندوستان بننے کے بعدبھی موجود ہے اور آج
تک پاکستانی حکومت کی رٹ وہاں قائم نہیں ہو سکی۔ پشاور کاافغانستان کے شہر
ہونے کا دعوی اسی ڈیورنڈ لائن کے معائدے کی مدت کے خاتمے کے بعد قوم پرستوں
کے بنیادی ایجنڈے پر شامل ہے۔خدائی خدمت گار کی روح رواں خان عبدالغفار خان
کی تحریک آزادی کا بنیادی نقطہ بھی یہی ڈیورنڈ لائن کا معائدہ تھا کہ
انگریز ہندوستان سے جانا چاہتا ہے تو جائے لیکن تین جنگوں کی شکست کے بعد
جب وہ افغانستان پر تسلط حاصل کرے میں ناکام رہا اور ایک معائدے پر عارضی
سرحد متعین کرکے انتظامی معالات مخصوص مدت تک کے لئے سنبھالے تواب استصواب
رائے میں ، بھارت یا پاکستان کے علاوہ پختون عوام کی یہ مرضی بھی شامل کی
جائے کہ وہ اپنی سابقہ جغرافیائی حیثیت میں واپس جانا چاہتے ہیں کہ نہیں ۔لیکن
کانگریس کی جانب سے دستبرداری کے بعد خدائی خدمت گاروں کا "لر و بر یو
افغان"یعنی پختونستان کا خواب پورا نہیں ہوسکا ۔چونکہ پختون سرحدی علاقوں
کی اہمیت کا اندازہ بین الاقوامی قوتوں کو تھا اس لئے انھیں "ملَک" اور
پولیٹیکل ایجنٹوں کے ہاتھوں اس قدر کمزور بنا دیا گیا کہ پاکستان کی تشکیل
کے 63بعد بھی انھیں شخصی آزادی نہیں مل سکی۔ارباب اختیار کی جانب سے مسلسل
ایسی پالیساں بنائی جاتی رہیں کہ پاک ، افغان سرحد کی عوام سراٹھانے کے
قابل نہ رہے اوراپنے وسائل پر ہمیشہ بے اختیار رہے۔پاکستان مخالف نظریات کے
حامل شخصیات کا یہ ماننا ہے کہ ان تمام سازش میں پنجاب اسٹیبلشمنٹ کا سب سے
اہم رول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیشلسٹ پختون لیڈروں کی جانب سے پنجاب
اسٹیبلشمنٹ کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور اپنے وسائل پر
پنجاب اسٹیبلشمنٹ کے قبضے کے خلاف واحد حل ڈیورنڈ لائن کے معائدے کے مطابق
عمل درآمد کےلئے اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم تک استعمال کرنے کا عندیہ دیا جا
چکا ہے ۔حالیہ اقوام متحدہ مشن کی آمد پہلی جھلک ہے جو لاپتہ افراد کے نام
ر پاکستان کی دورے پر ہے جس سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ حکومتی عدم توجہ
نے علیحدگی پسندوں کو بین الاقوامی ادارے کو مداخلت کی دعوت دے دی ے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کی موجودگی اور شدت پسندوں کے خلاف کاروائیوںمیں
پاکستانی حکومت کی جانب سے مطلوبہ نتائج نہ دئےے جانے کی صورت میں "مستحکم
افغانستان "کے نام پر اپنے علاقے واپس لئے جانے کےلئے پاک افغان جنگ کا
خدشہ اور" حق ملکیت" کےلئے بعد از جنگ اقوام متحدہ کی "ثلاثی قرارداد "کے
بعد کسی بھی قسم کا غیر متوقع نتیجہ آنے کی صورت میں پاکستانی حکومت اتنی
استعداد نہیں رکھتی کہ وہ بین الاقومی قوتوں کی جنگ برداشت کرسکے۔یہی
صورتحال بلوچستان میں ہے جہاں قبائلی سرداروں کی جانب سے" حقوق بلوچاں" کے
لئے جاری جد وجہد آزاد بلوچستان کی تحریک میں تبدیل ہوچکی ہے اور ان کے
منشور کے مطابق بلوچستان کی آزادی کے بعد پشتونوں کا حق ہوگا کہ وہ کس کے
ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔کم و بیش کچھ ایسی صورتحال سندھ میں بھی ہے ، جہاں
سندھو دیش کی تحریک کو قوم پرست جماعتوں نے سیاسی جماعتوں کی نا اہلیوں کی
وجہ سے متحرک کیا ہوا ہے حالیہ 13ستمبر کی دن کراچی سانحہ میں 300سے زائد
افرا کے جاں بحق ہونے کے باجود سندھ علیحدگی کی ہڑتال نے خود تقسیم سندھ کی
بنیاد رکھ دی ہے۔ سندھ سے محبت کے دعوی کرنے والوں کی صوبائی عصبیت اور بے
حسی کس قدر افسوس ناک ہے کہ انھیں اس بات سے بھی سروکار نہیں تھا ک ہڑتال
کے نتیجے میں سینکڑوں ، ہزارووں ، لاکھوں کے دلی جذبات کیا ہونگے علیحدگی
پسندسیاست دان اپنے ذاتی مفادات کےلئے شرمناک اقدامات کو ہوا دینے سے بھی
گریز نہیں کرتے ، مسلم لیگ (ن) اور سندھ علیحدگی پسندوں کا غیر فطری اتحاد
ان حلقوں کے ان خدشات کو ابھارتے ہیں کہ پنجاب اسٹیبلشمنٹ کو اپنی حرکات کی
بناءپر خدشہ ہے کہ پختون علاقے جدا نہ ہو جائیں اس لئے صوبہ ہزارہ کا" شوشہ"
کھڑا کرکے، گلگت بلتستان صوبے کی آڑ میں کشمیر تک پنجاب کی سرحد کو محفوظ
بنانے حکمت عملی وضع کی گئی ہے۔سندھ قوم پرست جماعت، یا بلوچستان آزادی کی
تحاریک یا خیبر پختونخوا یا قبائلی علاقے جات میں جاری بین الاقوامی مفادات
کی جنگ ، ان سب کا یکساں مقصد پاکستان کی وحدت اور یکجہتی کو نقصان پہنچانا
ہے۔ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ شودر کوئی قوم نہیں ، بلکہ کسی قوم کی وہ
کمزری اور حماقت ہے جو محکومیت سے غلامی کا باعث بنتی ہے و رنہ چندر گپت ،
اشک ، کنشک جیسے حکمران شودر تھے ۔برہمن یا آریہ قوم نہیں ، بلکہ طاقت اور
دانائی سے بھرپور وہ جوہر ہے جو آزادی سے حاکمیت کا باعث بنتی ہے۔ورنہ
انگریزوں کے دور میں ہند کے برہمن اور تاتاریوں کے غلبہ کے وقت اکثر آریہ
اقوام شودر سے بدتر مقام حاصل کرچکی تھیں۔ہمیں "ملَک"کو نوازنے کے لئے ماضی
کے وہ عمل ترک کرنا ہونگے جس میں نامی گرامی ملَک اپنی غیرت حمیت کا سودا
کرکے حکومت سے مراعات حاصل کیا کرتے تھے اور حکومتی اہلکاروں کے ساتھ ملکر
بے گناہوں کو گرفتار اور پھر رہائی دلا کر احسانمند بنالیا کرتے تھے۔مقام
افسوس یہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے محروم طبقے اور علاقوں کے مسائل کو حل
کرنے پر توجہ نہیں دی ، بلکہ ان کی تمام تر کوشش ا س امر پر رہی کہ کس طرح
عوام پر مسلط رہنے کے لئے پالیسیاں مرتب کیں جائیں تاکہ ان میں خوئے غلامی
سے آزادی کا ہنر پیدا نہ ہوسکے ، غلام در غلام ، اور غلام در غلام نسل کی
آبیاری ہی مراعات یافتہ طبقے کا بنیادی ایجنڈا ہے۔ بد اعتمادی ، اور احترام
ِ انسانیت کے فقدان نے اعتبار کے جذبے کو روند کر رکھ دیا ہے۔یہ ناقابل
یقین تصور ہوگا کہ خدانخواستہ بیرونی جارحیت کے ناپاک قدم پاک سرزمیں پر
اترے اور محب ِ وطن بلوچی ، سندھی صف اول کے مجاہد نہ بنیں۔یقینی طور
پرپختون بھی اپنی سرشت اور خرود بود و فطرت کے مطابق بیرونی جارحیت کے خلاف
کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا۔کیونکہ ا س کے نزدیک ان کا وطن
وہی ہوتا ہے جہاں وہ رہتا ہے ، جیتا و مرتاہے۔لیکن حکومت کی جانب سے عوام
دشمن پالیسیوں کا تسلسل جاری اور ایسی فضا قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی رہے
جس میں عوام کا استحصال ہو تو علیحدگی پسند قوتوں کی شر انگیزی کو دنیا کی
کوئی طا قت نہیں روک سکتی،سب سے پہلے قبائلی علاقے جات میں عوام کو پولیٹکل
ایجنٹ جیسے آمر سے نجات دلائی جائے اور ان تمام علاقوں کی عوام کو قومی
دھارے میں شامل کیا جائے۔بلوچستان میں اندرونی مداخلت میں بیرونی ہاتھوں کی
کار فرمائی سے پیشتر اپنے ہاتھوں سے اپنے لوگوں کا خون صاف کیا جائے۔سندھ
میں چند مفادات کے خاطر ملک کی قسمت داﺅ پرلگانے سے گریز کیا جائے جس سے
علیحدگی پسندوں کو عوام کی حمایت حاصل ہوجائے مگسی ، تو بلوچ ، درانی تو
پٹھان قومیت ے تعلق رکھتے ہیں لیکن خود کو سندھ میں رہنے کی وجہ سے فخر سے
سندھی کہتے ہیں اگر پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں انسانوں کا جانوں کی
قربانی شامل نہ ہوتی تو ایک کے بعدتمام دیواریں کب کی کرچکی ہوتیں ارباب
اختیار ہوش کے ناخن لیں عوام دشمن پالیسیوں کو ترک کردیں کیونکہ اسی میں
مملکت کی بقا شامل ہے۔قا بل غور بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا ، بلوچستان ،سندھ
میں ہی کیوں علیحدگی سند عناصر متحرک ہیں ، پنجاب میں نہیں ہے ۔ جس سے اس
نظرئےے کو تقویت ملتی ہے کہ پنجاب اسٹبلشمنٹ کچھ نہ کچھ تو گڑبڑ کر رہی ہے۔ |