ملکی تباہی کی اصل وجہ

ڈینگی کے مریضوں کی حالت انتہائی خراب ہے ۔مگر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ بیماری کی بجائے اگراس کی وجہ معلوم کی جائے اور اس پر قابو پانے کی کوشش کی جائے تو یہ ذریعہ علاج زیدہ موثر ثابت ہوتا ہے۔ہمارے ہاں جدید سہولیات کے فقدان کے باعث بیماریوں کی وجہ جاننے کے بعد مزید اس کو سمجھنے کے لیے مختلف سستے طریقے اپنائے جاتے ہیں۔جیسے ہم اس بیماری پھیلانے والی وجہ کا اثر دوسری جگہوں پر دیکھتے ہیں پھر اس سے ایک نتیجہ اخذ کرتے ہیں ۔کہ اس کی وجہ سے کتنی اور کیسی بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔پھر ان کے حفاظتی اقدامات بھی اس کے مطابق لیتے ہیں۔تدارک بھی اسی تحقیق پر مبنی ہوتا ہے۔مریضوں کی حالت تو خراب ہے ہی ملک بھی کچھ بہتری کا دعوے دار نہیں ہے۔ ملک میںبھی کافی اور موذی امراض کے حملے میں آئے دن اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔جیسا کہ دہشت گردی،چوری ڈکیتی ،قتل و غارت گری،بمب دھماکے اور ڈرون حملے وغیرہ۔جن سے بچنے کے لیے عوام پنے طور پر حفاظتی انتظامات تو کرتی نظر آرہی ہے مگر اس کا مناسب تدارک کرنے کے لیے حکومتی ہسپتال محض تنخواہوں کی وصولی تک مصروف عمل ہے۔اور حقیقی معنوں میں اس سے نجات کے لیے کوئی رد عمل تیار نہ کیا گیا۔ان میں سے سب سے خطر ناک بیماریاں جن کی شرح اموات بھی سب سے زیادہ ہے وہ ہیں بم دھماکے اور ڈرون حملے۔اب تک کی تحقیقات کے مطابق جو کہ غیر سرکاری یعنی ایماندار ذرائع کی جانب سے کی گئی ہیں ان امراض کی اصل وجہ امریکہ کی جانب سے آنے والی امداد ہے۔چاہے وہ سٹریٹیجک ہو یا وہ مالی ہو۔یہ سب بیماریاں اس سے پیدا شدہ ہیں۔اب اگر اس وائریس کا اثر دوسرے ممالک میں دیکھیں تو پاکستان میں موجود مسائل کے ساتھ ساتھ خانہ جنگی کے نام سے ایک وبا بھی پھیلتی ہے جس کا علاج عالمی ادارہ دہشت گردی کے واحد بے تاج بادشاہ امریکہ کے پاس اس ملک پر قبضہ کرنا ہے۔اور مزید اس کو اس سے بچانے کے لیے اس کو اندر سے کھوکھلا کرنا ہے۔حال ہی میں اس مرض کی علامات ہمارے ملک میں بھی دیکھنے کو ملی ہیں۔ان بیماریوں کا شکار ہونے والے ممالک میں فلسطین کا نام سر فہرست ہے۔یہاں یہ بیماری ایک خاص قسم کی سازش( جو کہ باوجہ مورثیت دہشتگردی اور انتہا پسندی کا دوسرا بڑا علمبردار ہے۔اور دنیاکے نقشے پر اسرائیل کے نام سے جانا جاتا ہے)سے پھیلائی گئی۔اب اگر اس کی اصل وجوہات کی طرف دیکھا جائے تو اس سے مقصد بظاہر تو امریکہ کو مظبوط کرنا تھا مگر دراصل امریکہ کے حامی اسرائیل کو مظبوط کیا گیا۔کیونکہ امریکہ کو پہلے بھی فلسطین سے کوئی خطرات نہ تھے محض حامی ممالک کو مضبوط کرنے کے لیے ایک چال چلی گئی۔اور اس بیماری کی لپیٹ میںآکر ہزاروں معصوم لوگوں کی جانیں اور عزتیں قربان ہو گئیں۔اب اگر انہیں ہاتھوں کو اپنے ملک میں جاری فسادات کے پیچھے رکھ کر دیکھا جائے تو حیرت انگیز طور پر یہی اس کی اصل وجہ ہیں۔محض ڈالروں کی لالچ میں ہمارے حکمران آنکھوں پر پٹی باندھ کر بیٹھ گئے ہیں اور اس طرف دیکھنے سے قاصر ہیں کہ افغانستان میں ہونے والے فسادات میں امریکہ کے ساتھ ساتھ بھارت اور اسرائیل کا ہاتھ شامل ہے ۔ہمیں چپ رہنے اور ان دہشتگرد عناصر کا ساتھ دینے کی سزامل رہی ہے۔اور اس کے نتیجے کے طور پر ہمارے ملک میں دھماکے اور حملے ہو رہے ہیں۔اور ہم اس کو اپنی جنگ سمجھ کر لڑے جارہے ہیں۔حالانکہ یہ نہ تو ہماری جنگ ہے اور نہ ہی یہ امریکہ کی جنگ ہے۔جیسے ہم اپنے چند پوشیدہ ناپاک عزائم لیکر اس جنگ میں شامل ہوئے ایسے ہی امریکہ بھی ہوا۔عقل تسلیم نہیں کرتی کہ ایکطرف ایک ایٹمی سپر پاورہے اوردوسری طرف کئی ہزار میل دور ایک چھوٹا سا ملک اس کو ڈرا رہا ہے ۔اور اس کے ڈر سے خود کو محفوظ کرنے لیے سپر پاور نے اتحادی بلائے اور اس ملک پر اس نے حملہ کر دیا۔کہاں یورپ کہاں بر صغیر۔پھر اتنے دور سے جہاں سے وہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود کچھ نہیں کر پارہے۔تو محض بندوق کا سہارا لینے والے پسماندہ لوگ ان کا کیا بگاڑ لیتے ۔ان کی منافقت ان کے قول و فعل کے تضاد سے جھلک رہی ہے۔اب وقت کافی گزر گیا۔لکھ لکھ کر بھی۔چیخ چیخ کر بھی۔یہاں تک کہ جانیں قربان کر کے بھی۔فوج کو بدنام کر کے بھی۔آئی ایس آئی کو نشانہ بنا بنا کر بھی۔اور معذرت کے ساتھ حکمراں بھی دولت بنا بنا کر اور معصوم لوگوں کی جانوں کی قیمت کھا کھا کربھی۔اب تو وہ مارنے والے بھی تھک چکے ہوں گے مگر ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ قاتل تھک ہار کر اپنی قتل گاہ کی طرف لوٹ رہا ہے اور ہم ایک طوائف کی طرح سے اپنی عادتوں اور ڈھکے چھپے اشاروں سے اسے واپس بلا رہے ہیں۔اہل علم و ادب اور محافظین عصمت سے انتہائی معذرت کے ساتھ عرض ہے کی ایک طوائف کے کوٹھے پر بھی جب اس کا ناچ گانا اور اس کے جسم کی نمائش ختم ہوتی ہے تو تماش بینی کی طبیعت رکھنے والے لوگوں نے لکھا ہے کہ اس کے قدموں میں نوٹوں کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں۔مگر ہماری قابل احترام حکومت اور اس سے منسلک بڑے بڑے سمجھدار لوگ اس بات کی طرف بھی نہیں دھیان دے پا رہے کہ ان کا پتلی ڈرامہ او ر دوسروں کے اشاروں پر پیسوں کے لیے ناچ کا وقت ختم ہو گیا مگر جسم ،عزت اور نہ جانے کیا کیا لُٹا کر بھی ہمارے پیداہوتے بچے پیدائش سے ہی سے مقروض ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ ملک کی نا شعور اور لاعلم عوام کو اس بات سے آگاہ کر دیا جائے کہ جس جنگ میں ملک کے محافظ قربان کیے جا رہے ہیں وہ جنگ ہماری نہیں۔وہ جنگ بھارت کی حفاظت کی جنگ ہے۔جو کہ پاک افغان اتحاد سے پیدا شدہ ڈر کی بنا پر لڑی جا رہی ہے۔اور اس کا مقصد پاکستا ن کے اتحادیوں کو کمزور کرنا ہے۔ہمارے حکمران تو اپنا ضمیر اور ہمار ی جانیں خوشامد کر کے چند پیسوں کے عوض بیچ چکے ہیں۔مگر اس کے باوجود وہ خود حکمران بھی اس دھوکے میں ہیں کہ محج ان کے ضمیر بلے ہیں جب کہ ان کا جسم تک نیلام ہوچکا ہے جو کہ اس ملک سے اس وقت اٹھایا جائے گا جب ان کے نیچے سے کرسی نکلے گی۔تب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔بڑے بڑے چہرے بے نقاب ہو جائیں گے۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان چہروں کے اصلی روپ سامنے آنے کے بعد ان کو دیکھا بھی نہیں جا سکے گا کیونکہ وہ اپنے محسن ممالک کی گود میں جاکر بیٹھ جائیں گے پھر کوئی نیا آجائے گا اور پھر وہ بھی ایسا ہی کرے گا اور ہم اسکے خلاف بھی اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 54 Articles with 51502 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More