برصغیر ہندو پاک کی تاریخ میں
حضرت شاہ ولی اﷲ رح کی شخصیت مرکز ثقل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس حقیقت سے
انکار نہیں کہ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رح سے پہلے بھی برصغیر میں ہر
علم و فن کی بڑی بڑی شخصیتیں پیدا ہوئیں اور انہوں نے اپنے روشن کارناموں
سے برصغیر کی عظمت میں چار چاند لگائے اور حضرت شاہ ولی اﷲ رح کے بعد بھی
بلند قامت شخصیتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ برصغیر ہی نہیں پوری دنیا میں
مسلمانوں پر برصغیر کی سرزمین سے اٹھنے اور یہاں پروان چڑھنے والی شخصیات
کے احسانات رہے۔ لیکن حضرت شاہ ولی اﷲ رح کی جامعیت و آفاقیت ان کا اعتدال
و توازن ان کے فکر کی گہرائی اور رسائی ان کی افراد سازی کی نظیر برصغیر کی
تاریخ میں بہت مشکل سے ملے گی۔
حضرت نے یہ بات محسوس کی کہ ایک طبقہ تقلید جامد میں غلو کر رہا ہے اور اس
کے رد عمل میں امت میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہور ہا ہے جو سرے سے تقلید کا
انکار کرتا ہے اور عامۃ الناس کے لیے بھی تقلید کو حرام کرتا ہے، حضرت شاہ
ولی اللہ نے راہ اعتدال بتانے کی کوشش کی اور امت کے مختلف گروہوں کو علمی
و فقہی طور پر ایک دوسرے سے قریب لانے اور ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن
پیدا کرنے کے لیے اپنی علمی و فکری توانائیاں صرف کردیں۔ ہر طبقہ میں پائی
جانے والی بے اعتدالیوں کی نشاندہی اور ہر طبقہ کو اس کی ذمہ داریاں یاد
دلائی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر طبقہ نے اپنا انتساب حضرت کے ساتھ جوڑنا
شروع کردیا اور جس راہ عمل کی نشاندہی کی تھی اس پر عمل کرنے کے بجائے حضرت
کی شخصیت پرتنازعہ شروع کر دیا۔ زیر نظر رسالہ میں اس کشمکش کو حل کرنے کی
کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ اللہ سے دعاہے کہ ہماری رہنمائی فرمائے ۔ آمین
https://islamicbookslibrary.wordpress.com/2010/12/23/1774 |