ہم بھی میڈیا کے بھینٹ چڑھ گئے۔۔۔!

چند مخبوط العقل قبطیوں نے ملعون پادری کے ساتھ مل کر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین، اور امھات المومنین رضی اللہ عنھن کی شان میں گستاخانہ شرمناک فلم بنائی ہے، یہ فلم آن ائیر ہوئی اور یوٹیوب پراپ لوڈ کی گئی جس سے مسلم امہ سراپائے احتجاج بن گئی، آخر یہ مسلم دنیا مجسم احتجاج کیوں نہ ہو؟ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مسلمان کو بلا شک وشبہ، بلاتردد وتذبذب پوری دنیا حتٰی کہ والدین اور بچوں سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں، ان کی شان میں ادنی سی گستاخی کے تصور سے بھی ایک مسلمان کی روح کانپ اٹھتی ہے، ایسے میں یہ مسلمان کیسے اپنے جوش عشق کو اس گستاخی پر قابو رکھ سکتاہے؟۔

اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم راجہ پرویزاشرف نے باقاعدہ طورپر جمعہ کے دن کو "یو م عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم" کے طور پر منانے کا اعلان کیا، جس کا مقصد دفاتر، اسکولز، اور دیگر تمام مصروفیات سے چھٹی کرکے دنیا کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا تھا، اس اعلان کو ملک بھر کی سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کی مکمل حمایت حاصل تھی، کوئی ادارہ، تنظیم ایسی نہ تھی جس نے اس احتجاج کا حصہ بننے کا اعلان نہ کیا ہو۔

دوجہتوں سے اس اعلان کی دنیا بھر میں اہمیت تھی، ایک وجہ تو ابھی ہم نے ذکر کی' کہ اس اعلان کو ہرقسم اور ہر طرف سے حمایت حاصل تھی، ملک کے وزیر اعظم سے لیکر خاک روب تک شعبہ زندگی سے متعلق تمام افراد کی زبان پر ایک ہی لفظ "احتجاج" تھا۔دوسری وجہ تھی کہ پاکستان مسلسل ۱۲ سالوں سے عالمی دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے جنگ لڑ رہاہے اور ایسے ایٹمی قوت بھی حاصل ہے جس سےوجہ سے اس خطہ پر اس کی خاص اہمیت ہے

لہذا ملکی اثر اور اتحادی قوت کی وجہ سے احتجاج کا اعلان خاص اہمیت اختیار کرگیا، اب ہمارا خیال تھا کہ جمعہ کے دن انسانوں کا ایک سمندر ہوگا، جس میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طلاطم خیزموجیں ٹھاٹھے مارتی ہوں گی، اب کی بار تو اجتجاج کی کشتی کو ہوا موافق مل رہی ہے، لہذا یہ احتجاجی کشتی عشق کے سمندری موجوں پر تیرتی ہوئی بغیر کسی نقصان کے اپنی منزل مقصود کو پہنچی۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا، جمعہ کے روز گلی محلے سے لیکر ملک کی بڑی شوارع تک انسانوں کا ایک خوبصورت سنگم تھا، جن کی زبانیں ذکر حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے رطب تھیں، اور محسن انسانیت کے خلاف اس شرمناک جرات پر سراپائے احتجاج تھیں۔

ہمیں یہ خدشہ بھی تھا کہ لاکھوں کے اس مجمعے میں ضرور شیطانی خصلتوں کے مالک اپنی شیطانیاں کریں گے، تاہم ہم نے تہیہ کر رکھا تھا کہ ان شر انگیزیوں سے قطع نظر ہوکر ہم اس پراثر احتجاج کے بارے میں چند سطور حوالہ قلم کریں گے، لیکن افسوس صدافسوس دن بھر ٹی وی اسکرین پر احتجاج کے بجائے جلاؤ گھیراؤ، شیلنگ اور ہوائی فائرنگ سے بھر پور مناظر دکھائے جاتے رہے، ہر لمحہ جلی حروف میں لہولہان [سرخ] الفاظ کے ساتھ ایک نیوز بریک کی جاتی، مشتعل افراد نے نجی بینک کو آگ لگادی۔۔۔ نامعلوم افراد کی جانب سے ایک غیرملکی ہوٹل کو آگ لگادی گئی۔۔۔ مظاہرین نے پولیس پر فائرنگ کردی۔۔۔فلاں مقام پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں اتنے ہلاک اور اتنے رخمی۔۔۔

گھومنے والی کرسیوں پر بیٹھ کر قوم کی تقدیر کو اپنی انگلیوں میں گھومانے والے عقل ودانش کے سپوت طلوع شمس سے لیکر ڈھلتی شام تک اس ملک کے طول وعرض کی ہرگلی محلے، گاؤں اور شہر کے بےپایاں احتجاج میں سے انہی چند واقعات کو ہی ہائی لائٹ کرتے رہے، یہ خبر ضرور تھی، مگر خبر صرف یہی نہیں تھی۔

یہ اندازہ تھا کہ لوگ قونصل خانے ، سفارت خانہ کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کریں گے، مگرالفاظ کے سحر اور آواز کے جادو سے میڈیا نے لوگوں کو کیوں باربار سفارت خانہ اور قونصل خانہ کی جانب متوجہ کیا؟ پتہ چلتا ہے کہ کینٹینرز کی دیوار کو مظاہرین کیسے عبور کرتے ہیں؟ اور پولیس کس حدتک انہیں روکنے میں کامیاب ہوتی ہے، یہ صبح کے نوبجے ایک نمائندہ کمرے کے سامنے پرجوش انداز میں [دانستہ وغیر دانستہ] گویا قوم کو چیلنچ دے رہا ہے،سوال یہ ہے کہ آخر میڈیا کو کوریج کے لیے قونصل خانہ اور سفارت خانہ ہی کیوں ملا؟اور کیا دیگر مقامات کی نشریات بھی اسی تواتر سے دکھائی گئ جس تواتر سے ریڈزون میں "ٹوم اینڈ جیری" کا کھیل دکھایاجاتا رہا؟

دن تھا کہ اللہ اللہ کرکے سورج کے ساتھ ڈھلا، کچھ آسرا ہوا کہ اب دل خراش مناظر سے جان چھوٹی، مگر کیا معلوم تھا کہ ابھی تو ارباب حل وعقد نے "انہی خبروں" کے عقدوں کو حل کرنے میں فہم ودانش سے لبریز، مختلف زاویوں پر عقابی نگاہوں کے ساتھ پر مغز تبصرے شروع کرنے ہیں؟

پہلے ہم اس غلط فہمی میں تھے کہ جمعۃ المبارک کو ملک بھر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں فلم کے خلاف احتجاج ہے، مگر دن بھر کی نشریات اور رات گئے تک کے تبصروں سے ہمیں احساس ہوا کہ جمعہ کا دن 'لوٹ کھسوٹ اور مار دھاڑ'کے طورپر منایا گیا ہے، البتہ کہیں شاز ونادر احتجاج کی خبر بھی سننے کو ملی ہے۔۔۔!
habib salih
About the Author: habib salih Read More Articles by habib salih: 9 Articles with 21309 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.