آجکل اخبارات و رسائل میں سیاسی
ڈائریاں تو آئے روز دیکھنے کو ملتی ہیں مگر ہم نے سوچا کہ پیٹرن تھوڑا
تبدیل کرتے ہیں اور ایک سیاہ۔ سی ۔ڈائری تحریر کرتے ہیں, شاید عوام کو دیدہ
بینا عطا ہوجائے۔ ڈاکٹر اقبالؒ کے نام سے کون ناواقف ہے ، وہ بیچارے تو
جمہوریت کو بھیڑ بکریوں کے گننے سے تشبیح دیتے مگر اُنکا یہ شکوہ پارٹی ٹکٹ
دیتے وقت دور کردیا جاتا ہے ،کیونکہ ٹکٹ دیتے وقت عیاری اور مکاری کے بڑے
بڑے ترازو نصب کیے جاتے ہیں اور ہر امید وار کے کالے کرتوت اُس میں تولے
جاتے ہیں کہ فلاں نے ملک کا کتنا پیسہ لوٹا کتنے ہنگامے کروائے کتنے کیسوں
میں مطلوب ہے وغیرہ وغیرہ اور جسکا پلڑا بھاری ہو اُسے ٹکٹ عنا یت ہوجاتا
ہے۔ایک بات اور جو آپ نے بھی نوٹ کی ہوگی کہ ہر وزیر مشیر حکومت میں ساڑھے
چار سال سوئے ہوئے ضمیر کے ساتھ عیش اُڑاتا ہے،مگر آخری پانچ مہینو ں میں
اُسکا ضمیر جاگ جاتا ہے اور وہ انقلابی بننے کی کوشش کرتے ہوئے استعفی دے
دیتا ہے ۔یہ سیاست کا گورکھ دھندا ہے !
ایسے ہتھکنڈوں پر کبھی بھی بھروسہ نہ کریں۔کیونکہ مشرف کے وزراءنے بھی یہی
ڈھونگ رچایا تھا" ابھی کل کی بات ہے" ۔
اب آتے ہیں آزادی کی طرف کیونکہ جمہوریت کا سب سے بڑا نعرہ ہی آزادی ہے اور
سرمایہ داری نظام کی اس لونڈی کے پہلو میں اس سے بڑا اور پُر اثر نعرہ کوئی
دوسرا ہے ہی نہیں۔
آزادی کتنی ہوتی ہے دل تھام کے سُنیے۔۔۔!
٭وزیر یا نمائندہ صاحب نے علاقے کے تمام ترقیاتی فنڈز دور ِ حکومت کے آخری
چند مہینوں کے لئے مختص کیے ہوتے ہیں ،اور پھر ایک ایک ٹیوب ویل کے عوض
پورے کے پورے گاﺅں خریدے جاتے ہیں۔ یہ بات شاید شہروں میں رہنے والوں کی
سمجھ میں نہ آئے مگر دیہاتوں میں رہنے والے اس سے بخوبی واقف ہیں۔
٭کہیں پر یہ نمائندے قتل اور دوسرے سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کے مقدمات
ختم کرنے کے وعدے کرکے بھی ووٹ اینٹھتے ہیں۔
٭بڑے بڑے محکمے جیسے سوئی گیس اور واپڈا کو یہ نمائندے الیکشن کیمپین میں
بطورِ Tool استعمال کرتے ہیں(میرے علاقے میں آج بھی سوئی گیس کے نئے
کنیکشنزالیکشن کے منتظر ہیں،کہ الیکشن آئے اور کوئی نمائندہ صاحب ہم پہ
احسان جتائے)۔
٭الیکشن میں ملازمتیں ریوڑھیوں کی طرح بٹتی ہیں ۔ یعنی پچاس ووٹ ہیں تو
اتنی ملازمتیں آپ کے خاندان کے لئے مختص ہوگئیں۔(آپ خود اردگرد دیکھ لیں
اللہ نے آنکھیں دی ہوئی ہیںاب میں ایک ایک سکول اور ہسپتال کا نام کیوں
گنواﺅں)۔
٭دین کو کرسیوں کے حصول کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔(جس پہ مزید تبصرہ نہیں
کرناچاہتا)
٭دیہاتوں کے لیول پر مشران (بڑے) خریدے جاتے ہیں ، اور ہر ایک کا اپنا
مقررہ ریٹ ہوتا ہے۔۔ یہ مشران مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے بھیڑ بکریوں کو
پولنگ سٹیشنوں تک لاتے ہیں۔۔
٭ان ہی دنوں میں بقولِ احمدفراز" نعرہ ئِ حُبِ وطن مالِ تجارت کی
طرح۔(بکتاہے) اور ، جنسِ ارزاں کی طرح دینِ خُدا کی باتیں " کی جاتی ہیں۔
٭پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھیعوام کو ان نمائندوں کے تلوے
چاٹنے پر مجبور کرتے ہیں ۔۔
اگر اب بھی جمہوریت سے آزادی کی توقع ہے ۔ تو آپ کی خام خیالی ہی ہوسکتی
ہے۔ کیونکہ یقین نہ آئے تو الیکشن آنے ہی والے ہیں ، کسی بھی پولنگ سٹیشن
جاکر دیکھ لیں کہ جعلی ووٹ کیسے کاسٹ ہوتے ہیں، پولنگ سٹیشنوں کے باہر
نوٹوں سے بھرے ہوئے تھیلوں کا کیا کام ہے۔علاقائی تعصب کی کالی پٹی کس طرح
آنکھوں پر بندھوائی جاتی ہے۔۔ نوکریوں کے وعدے ، ٹھیکوں کے جھانسے، ہزاروں
قسم کے پرمٹ، اور گریڈوں میں ترقیاں یہ سب آزادی کے نام پر پھندے ہیں۔۔مگر
ایک بات اور بھی ہے کہ میرے ملک میں تو خالص چیزاب کوئی بھی نہیں۔ مزدوروں
کی بات کرنے والے بھی مِل مالکان بن گئے۔ اور انقلاب کی بات کرنے والے چند
وزارتوں کے بھوکے نکلے۔چند لوگوں سے انقلاب کی توقع تھی مگر وہ بھی اس گھن
چکر میں پھنس چکے ہیں اور خوانین و وڈیروں کو ہی پارٹی ٹکٹوں سے نوازا
جارہا ہے،جو پشت در پشت سیاسی اجارہ دار اور ٹھیکیدار ہیں۔ یا کم از کم
کالے دھن والے تو ضرور ہیں۔۔ اگرچہ دُنیا کا دستور بن گیا ہے کہ جمہوریت کے
خلاف بولنے والے کو سرمایہ داری نظام چین سے بیٹھنے نہیں دیتا مگر:
ہمیں ضمیرِ صداقت نے یہ سکھایا ہے۔
کہ ناروا کو بہرحال ناروا کہیے! |