غریب پھر مَر گیا

پاکستان کے نائن الیون سے کراچی میں گارمنٹ فیکٹریوں اور لاہور کی جوتے فیکٹری میں زندہ جل جانے والوں300 سے زائد افراد کےساتھ ہزاروں خاندانوں کے گھر وں کے چولہے بھی فیکٹریوں کی آگ کے ساتھ بجھ چکے ہیں۔ وزرات محنت اور سول ڈیفنس کے اہلکاروں کی کرپشن کی وجہ سے سینکڑوں لواحقین سمیت متاثرین کو سوشل سیکورٹی میں رجسٹرڈ نہ ہونے کی باعث مالی امداد سے محروم ہیں۔ وزیرا عظم ،وزیر اعلٰی سندھ کے روایتی امدادی اعلانات کب وفا ہونگے ؟ ،کوئی نہیں جانتا ۔ کیونکہ اس سے قبل بھی کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہونے والوں کےلئے مالی امداد کے بار بار بلند بانگ اعلانات ہوئے لیکن سالوں گذر گئے ان پر ابھی تک عمل در آمد نہیں ہوا۔

مجھے اس موقع پر جیو ٹی وی کے اینکر پرسن ،سہیل وارئچ کا ایک انٹرویو یا د آرہا ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ صرف امرا ء، سرمایہ دار ، دولت مندوں کے ساتھ ہی ایک دن جیو کے ساتھ "کا پروگرام کرتے ہیں غریب کے ساتھ کیوں نہیں ؟ تو انھوں نے پنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ" یہ غریب جو اُن کے ساتھ ہر پروگرام میں ہوتا ہے ۔"سہیل وارئچ صاحب نے بڑی معصومیت کے ساتھ کہہ دیا اور ہم نے تسلیم بھی کر لیا لیکن سوچنے کی بات ہے کہ آخر غریب کی زندگی میں ہے ہی کیا جس کے ساتھ ایک دن تو کیا ، ایک پل بھی گزرا جا سکے ۔۔دن بھر کی مصروفیات میںبے روز گار کی جانب سے روزگار کی تلاش ، اور باروزگار کو مالکان کی جھڑکیاں ،صبح بسوں کے دھکے ، تو شام کو بسوں کی چھت پر سفر ، یا پھر بس اسٹاپ پر کھڑے ہوئے بے گناہوں پر دہشت گردوں کی فائرنگ ، یا پھر شناختی کارڈ چیک ہونے پر قتل ، یا پھر غریب کی خودکشیاں ، ایک ماہ میں ملک بھر میں 259افراد خود کشی کرچکے ہیں ، جس میں زیادہ تعداد غربت کے ہاتحوں تنگ افراد کی ہے، یہ ایک غریب کا مقدر ہے ، جیسے میڈیا کیا دکھائے گا ،؟ اگر دکھائے گا تو ان غریبوں کی لاشوں کے سوختہ انبار۔

فیکٹریوں میں جلنے والے غریب تو نظر آگئے ، لیکن اب بھی لاکھوں غریب فیکٹریوں میں ٹھیکے داری سسٹم کے تحت سرمایہ داری کے جابرانہ نظام تلے دب رہے ہیں۔ انھیں پسا جا رہا ہے ، ان کا خون نچوڑا جا رہا ہے ،کوئی ان کی جانب متوجہ کیوں نہیں ہوتا ؟ ۔۔ ماربل فیکٹریوں میں ہزاروں محنت کش بغیر سیکورٹی اور مناسب آلات کے بغیر صرف چند سو روپوں کے خاطر روز مرتے اور کٹر مشینوں کی زد میں آکر ہمیشہ کےلئے معذور ہوجاتے ہیں ، لیکن انھیں انصاف فراہم کرے والا کوئی نہیں۔سریا فیکٹریوں میں بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے ہزاروں محنت کش اپنی جان سے کھیل رہے ہیں ، ان کا پرسان حال کوئی نہیں،ہزاروں محنت کش "بوائلر"اور "اُوون"میشنوں کے سامنے باریک دستانے پہنے کام کر کے زخمی در زخمی اور معذور ہوجاتے ہیں ، ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔

سرمایہ داروں کی عیش و عشرت کے لئے قانون کی دھجیاں اڑا دیں جاتی ہیں ۔ غریب مر جاتے ہیں لیکن ذمےداری کوئی نہیں لیتا ، فیکٹری میں جلے مرَے ، کون ذمے دار ، اس کا تعین کبھی نہیں ہوگا ،ان غریبوں کو افلاس ، بھوک ، خوف ،بد امنی کی آگ میں تو ویسے بھی مرنا تھا لیکن ا س دم گھٹے ماحول میں روز کتنے غریب مر رہے ہیں ۔
بقول عظیم راہی
کچھ انتظام تھا نہ کوئی دوڑ بھاگ تھی
یہ شہر جل رہا تھا کہ جنگل کی آگ تھی

وزیر تجارت روف صدیقی نے اپنی وزارت سے استعفی دیتے ہوئے کہا کہ ایسی وزرات کیا فائدہ کہ وہ حادثے کے وقت صوبائی وزیر اوقاف عبدالحسیب کے ہمراہ ہونے کے باوجود معصوم انسانوں کی جانوں تک نہیں بچا سکے کیونکہ کوئی ان کی بات تک سننے کو تیار نہیں تھا۔ان کا استعفی دینا اچھی روایت ہے لیکن کیا اس سے رائج فیکٹریوں میں استحصالی نظام کا خاتمہ ہو جائے گا ؟۔ صوبائی وزیر محنت سندھ امیر نواب نے نجی اخبار کو 13ستمبرکو اپنے انٹرویو میں کہا کہ وزیر اعلٰی سندھ نے فیکٹریز کے خلاف ایکشن لینے سے روک دیا تھا اور کیسز واپس لینے کو کہا ان کے مطابق کئی فیکٹریوں پر چھاپے بھی مارے لیکن مجھے اگر وزیر اعلی منع کرے تو میں کیا کرسکتا تھا کیا کوئی اس اعترافی بیان پر ان سے پوچھنے والا نہیں؟ ،نواب صاحب نے تو ساڑھے چار سال غریب لیبروں کے حقوق کے نام پر خوب مزے اڑائے،آخر انسکپیشن کے بجائے کروڑوں روپوں کرپشن لینے والوں کا احتساب کب ہوگا ، غریب بچوںکیساتھ جو ہمیشہ استحصال اورچائلڈ لیبر قوانین کی خلاف ورزی پر کون ایکشن لے گا،؟۔لیبر ڈیپارٹمنٹ کی ناک کے نیچے جو کچھ ہوتا رہا اور وزیر محنت نے وزیر اعلی سندھ کے خلاف جو سنگین الزامات سے صوبائی وزیر محنت بھی بری الزمہ نہیں ہوسکتے کیونکہ انھوں نے مفاہمت کے نام پر مجرمانہ خاموشی اختیارکرلی تھی۔کیا ان کرپشن کے عظیم میناروں کے خلاف کوئی انقلاب آسکتا ہے، نہیں اس کرپشن کے عظیم سماج میں ایسا ممکن نہیںپھر بھلا کیوں کھیت کے دہقان اپنے ہاتھوں سے اگائی ہوئی گندم کے خوشے کو اس لئے آگ لگائے کہ ایسے دو وقت کی روٹی میسر نہیں ۔ نہیں ۔۔ ایسا کبھی کسی غریب نے نہیں کیا بلکہ ایسی غریب نے ہمیشہ ان ہی سرمایہ دارں ، وڈیروں ، جاگیر داروں ، خوانین ، ملکَوں اور سرداروں کو منتخب کیا ، جو ہر روز ان کی غریبی سے اپنی امیری کا بنک بیلنس بڑھاتے ہیں۔ غریب خود اپنی غریبی کا دشمن ہے کیونکہ اس نے کبھی سرمایہ دارں ، وڈیروں ، جاگیر داروں ، خوانین ، ملکَوں اور سرداروں سے نہیں پوچھا کہ اس کا حق اسے کیوں نہیں دیا جا رہا ؟ آج سانحہ کراچی کو لیکر پھر سیاست کی جا رہی ہے ، کوئی ایسے بھتے کی جنگ قرار دے رہا ہے تو کوئی ایسے فیکٹر ی مالکان کا قصور سمجھتا ہے تو کوئی کچھ ۔ کیاحکومت کی کوئی ذمے دای نہیں ہے کہ کسی سرکاری اہلکار کے خلاف قتل کی ایف آر درج نہیںکرائی گئی ۔کیا سالوں سال سے چلنے والی ایسی فیکٹریاں حکومتی سر پرستی کے بغیر چل سکتی ہیں؟۔غریب تو غریب ہے اسے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کےلئے جہنم کی بھٹی میں کام کرنا پڑے توو ہ کرے گا ۔لیکن ریاست کی ذمے داری کیا ہے؟ غریبمارا جاتا رہے گا ؟ غریب مرتا رہے گا ، کیونکہ یہ نظام غریب کے لئے بنایا ہی نہیں گیا ، حکومتی ایوانوں میں بیٹھنے والے اراکین غریب تھوڑی ہیں جوغریبوں کی فلاح کے بارے میں سوچیں ۔ اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کرکے جانے والے اراکین پارلیمنٹ نے کسی غریب کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ، بڑے بڑے بیورو کریٹس ، غریب گھروں سے نہیں آئے ، بڑے بڑے سرکاری افسر ، پی ایس پی، سی ایس ایس کرکے آنے والے غریب گھر سے نہیں ہوتے ،بڑے بڑے قلمکاروں کے بڑے بڑے گھر ، غریب کے احساسات کو لکھ تو سکتے ہیں محسوس نہیں کرسکتے ، بڑی بڑی سیاسی جماعتیں غریبوں سے ووٹ لینے کے لئے بڑے بڑے دعوے کرسکتی ہے لیکن ان کی بہبود کے لئے کام کرنے میں پارٹی کے بڑے بڑے لوگوں کو موت آتی ہے ۔ سیاسی جماعت کے بڑے بڑے پالیسی سازوں کے پاس غریب کی غریبی دور کرنے کے لئے کوئی پالیسی نہیں ہے ۔ اگر کوئی کارکن ، یا عام آدمی ان کے بڑے بڑے گھروں کے سامنے خودکشی کرلے تو بڑے بڑے بیان لگانے کےلئے بڑی بڑی باتیں انھیں انسانیت کے سامنے چھوٹا بنا دیتی ہیں۔ ایک غریب کارکن کے لئے پارٹی فنڈ میں کوئی پیسہ نہیں ، لیکن عید ملن پارٹیاں ، سمینار، تقریبات ، جلسوں کے لئے کروڑوں روپے بند تجوری سے باہر آجاتے ہیں۔ غریب فنکار سسک سک کر مر جاتا ہے لیکن اس کی زندگی میں کبھی امداد تک نہیں دی جاتی لیکن اس کی موت کے بعد تعزیتی پروگراموں پر لاکھوں روپے خرچ کر دئےے جاتے ہیں۔غریب اسی لئے غر یب ہے کیونکہ اس نے اپنی غریبی کو قسمت سمجھ کر قبول کرلیا ہے ۔ ہماری پشتو میں ایک مثال ہے ۔ کہ" تجھے غریب تو خدا نے بنایا، لیکن بے غیرت کس نے بنایا " ا س نظام اور ظالم حکمرانوں کو بدلنا ہے تو خود کو پہلے بدلنا ہوگا ، اپنی قوت کو یکجا اور مفادات کے لئے مصنوعی محاذ آرائی کرنے والے موقع پرستوں سے جان چھوڑانا ہوگی ۔ ورنہ آج دو فیکٹریاں جلی ہیں کل صوبائیت ، لسانیت ، فرقہ واریت کی آگ میں گلی گلی ، گھر گھر جلے گا ، پھر غریب امیر کی تفریق بھی ختم ہوجائے گی۔ ہماری داستان بھی نہیں ہوگی کتابوں میں ۔۔ بڑی بڑی قومیں ،قوم عاد ، قوم ثمود ، قوم لوط کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے لیکن عبرت کےلئے ان کی نشانیاں تا قیامت محفوظ کردیں گئیں۔ہم نے توتاریخ میں زندہ رہنے کے لئے ایسا کوئی قابل ذکر کارنامہ بھی انجام نہیں دیا کہ آنے والی قوم کہہ سکے کہ یہ بھی قوم تھے جو خود کو ایٹمی طاقت کہلاتی تھی ۔کچھ نہیں کرسکتے تو غریب کو لمحہ بہ لمحہ کیوں مارتے ہو ، یہ جو ایٹم بنایا ہے اسے ہی غریب پر مار کر غریب کو مار دو ۔ اور کہہ دو کہ غریب پھر مَر گیا !!
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 263269 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.