یہودی فلم ساز کی گستاخانہ اور
شرانگیز فلم کے خلاف پوری مسلم دنیا میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ہر جگہ
کلمہ گوسراپااحتجاج ہیں ۔مسلمان دینی احکامات پر عمل کرنے کے سلسلے میںسست
اور لاپرواہ ہوسکتے ہیں مگر تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی کسی گستاخ اور بد بخت
نے نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفےﷺ کی ذات اقدس پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی
یا توہین پر مبنی کوئی کتاب سامنے آئی توعام اور بے عمل مسلما ن بھی احتجاج
اور ردعمل میں دوسرے مسلمانوں سے کبھی پیچھے نہیں رہے۔اب کے دنیا کی واحد
سپر پاور کے ایک یہودی نژادامریکی نے دل آزار اور قابل اعتراض فلم کے ذریعے
اپنی دریدہ دہنی کا ثبوت دیا ہے۔جس پر مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک
دنیا کے کونے کو نے میں مسلمان سخت اشتعال میں ہیں اور گذشتہ کئی ہفتوں سے
احتجاج کا یہ سلسلہ جاری ہے۔لیبیا٬ مصر ٬ تیونس اور دیگر عرب ممالک سے
اٹھنے والی احتجاج کی یہ لہر اب ہر جگہ پہنچ چکی ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری
جنرل بان کی مون نے بھی اس فلم کو توہین آمیز قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی
ہے اور کہا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کا یہ غلط استعمال کیا گیا ہے۔اس کو
ہرگز تحفظ فراہم نہیں کیا جا سکتا۔روس اور بھار ت سمیت کئی دیگر غیر مسلم
ممالک میں بھی اس گستاخانہ فلم کو شر انگیز قرار دیتے ہوئے یو ٹیوب پر
پابندی عائد کی گئی ہے۔
امریکا کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ ایک شخص کا ذاتی فعل ہے اور امریکی
حکومت کا اس کے خیالات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہا ں سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری کرنے والے شخص کے خلاف امریکی حکومت نے
کیا اقدامات اٹھائے ہیں ؟ یہودیوں کے ہولو کاسٹ کے بارے میںاگر کوئی بات
کرے تو وہ مستوجب سزا ہے۔برطانوی شہزادی کے بارے میں خبر دینے والے اخبار
کو بند کر دیا جاتا ہے۔مگر مسلمانوں کی سب سے عظیم ترین اور مقدس ہستی اور
اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفےﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی کھلی اجازت
ہے ۔نام نہاد مہذب ممالک اسے آزادی اظہار رائے اور ایک شخص کا ذاتی فعل کہہ
کر نظر اندازکر دیتے ہیں ۔ مغرب کا یہی وہ دوہرا معیار اوردوغلا پن ہے کہ
جس کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمان امریکی پالیسیوں کے خلاف ہیں اور ہر جگہ
امریکیوں کے بارے میں نفرت پائی جاتی ہے۔کیونکہ امریکا نے اپنے لیے الگ اور
دوسرے انسانوں ٬ملکوں اور اقوام کے لیے دوسرے قانون بنائے ہو ئے ہیں۔امریکا
کے ان دوہرے معیارات کا شکار ہونے والے اس کے بارے میں کلمہ خیر کیسے کہہ
سکتے ہیں؟۔امریکا سپر پاور کے نشے میں مست ہو کر دیگر اقوام بالخصوص
مسلمانوں کے خلاف جو کچھ کر رہا ہے ۔ اس سے اس کو کوئی فائدہ پہنچنے کے
بجائے الٹا نفرت اور انتقام کے جذ بات میں اضافہ ہو رہا ہے۔امریکا جتنا
جلدی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جاری پالیسیوں پر نظرثانی کرلے
اتنا ہی اس کے اپنے حق میں بہتر ہو گا۔
توہین آمیز فلم کے خلاف سب سے زیادہ پر زور احتجاج پاکستان میں ہوا
ہے۔دراصل امریکاکے خلاف یہاں کے لوگوں کے دلوں میں نفرت کا لاوہ ابل رہا
ہے۔پاکستان کے مسلمان فلسطین ٬ کشمیر ٬عراق اور افغانستان میں جاری ظلم و
بربریت کا ذمہ دار امریکا کو گردا نتے ہیں۔خود پاکستان کے اندردہشت گردی کے
واقعات ہوں یا ڈرون حملے ٬اسامہ بن لادن کی شہادت ہو یا ریمنڈ ڈیوس کا
واقعہ ہو ۔ان تمام حالات و واقعات اور معاملات کے حوالے سے عوام میں سخت غم
و غصہ اور اشتعال پایا جاتاہے۔گستاخانہ فلم کے حوالے سے عوام کو امریکا کے
خلاف نفرت ٬ غصے اور جذبات کے اظہار کا ایک موقع مل گیا تھا۔امریکی حکومتوں
نے اپنی غیر منصفانہ اور تعصب پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے خود ہی نفرت کے
بیج بوئے ہیں۔آج برسہا برس سے بوئی جانے والی نفرت کی وہ فصل پک کر تیار ہو
چکی ہے۔جہاں بھی لوگوں کو آزادانہ رائے کا موقع ملتا ہے ٬وہ امریکا اور اس
کی پالیسیوں کے خلاف اپنی نفرت اور غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔تاہم امریکی
سرکار اپنی نامنا سب پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کے بجائے دیگر اقوام اور
ممالک کو طاقت اور دھونس کے ذریعے دبانے کی کوششوں میں لگی رہتی ہے۔
اگرچہ ہماری وزیرخارجہ حنا ربانی کھرنے اپنی ہم منصب امریکی وزیر خارجہ
ہیلری کلنٹن سے حالیہ ملاقات میں یہ کہا ہے کہ پاکستا نی عوام کا غم وغصہ
گستاخانہ فلم کے خلاف ہے ٬ امریکی حکومت کے خلاف نہیں ہے۔حنا ربانی کھر جس
ڈیوٹی پر ہیں ٬ انہیں یہی کچھ کہنا چاہیے تھا۔مگر زمینی حقائق اس کے بالکل
برعکس ہیں۔کیونکہ ہر جگہ مشتعل مظاہرین گستاخ یہودی فلم ساز کے ساتھ ساتھ
امریکی صدر کے پتلے اور امریکی پرچم بھی نذر آتش کرتے رہے ہیں۔امریکی
سفارتخانوں اور قونصل خانوں پر حملے کیوں کیے جا رہے ہیں؟۔صاف ظاہر ہے کہ
عوام سمجھتے ہیں کہ گستاخانہ فلم کے پیچھے ایک خاص ذہن ٬سوچ اور فکر کار
فرماہے۔یہ وہی سوچ ٬ فکر اور ذہن ہے کہ جس کی سر پرستی امریکی حکومت اور اس
کے تھنک ٹینک کر رہے ہیں۔تہذیبوں کے تصادم کا فلسفہ کھلم کھلاکار فر ما نظر
آرہا ہے۔شاید اسی تناظر میں امریکا نے نے عندیہ دیا تھا کہ وہ اپنے
سفارتخانوں اور عملے کی حفاظت کے لیے کمانڈوز اور فوجی بجھوانے پر غور کر
رہا ہے۔امریکا نے اگر ایسی غلطی کی تومزید مسائل پیدا ہوں گے۔
اسی اثنا ءمیں حکومت پاکستان نے احتجاج کا رخ موڑنے اور اسے کمزور کرنے کے
لیے 21ستمبر کو یوم عشق رسولﷺمنانے اور عام تعطیل کا اعلان کر دیا
تھا۔حکمرانوں کا خیال تھا کہ وہ شاید اس طرح عوامی غیظ وغضب سے بچ جائیں
گے۔تاہم اس دن جمعہ کی نماز کے بعد ہر مسجد سے عاشقان مصطفےﷺ امڈ کر باہر
آئے۔ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کی سڑکیں عوام سے بھر گئیں۔اسلام آباد
٬ کراچی اور لاہور میں تو عوام کا رخ ہی امریکی سفارتخا نوں کی طرف
تھا۔اتنی بڑی تعداد میں عوام کے سڑکوں پر نکل آنے سے حکومت کے اوسان خطا ہو
گئے۔پھر اسلام آباد٬ کراچی اور پشاور میں خاص طور پر مظاہرین پر آنسو گیس
پھینکی گئی اور لاٹھی چارج کیا گیا۔جس پر مظاہرین مشتعل ہو گئے اور انہوں
نے آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ اس پر کراچی اور پشاور میں پولیس نے مظاہرین
پرفائرنگ کر دی ٬جس سے تیس افراد ہلاک اور دو سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔اس
دوران توڑ پھوڑ اور جلاﺅ گھیراﺅ کے واقعات بھی ہوئے۔اس سلسلے میں خاص بات
یہ ہے کہ دو ہفتوں سے جاری احتجاج میں کہیں بھی توڑ پھوڑ اور جلاﺅ گھیراﺅ
کا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس دن مظاہرین میں ایسے
افراد کو خصوصی طور پر شامل کیا گیا تھا کہ جن کا کام ہی توڑ پھوڑ اور جلاﺅ
گھیراﺅ تھا۔خود حکمرانوں کا یہ حال تھا کہ وہ یوم عشق رسول ﷺ کا اعلان کر
کے کسی شہر میں بھی باہر نہیں نکلے ۔اسلام آباد میں پہلے کنونشن سنٹر میں
کانفرنس کا اعلان کیا گیا تھا ¾مگر پھر ڈرکے مارے وزیر اعظم ہاﺅس میں ہی
کانفرنس کر ڈالی۔ جس میں حاضری نہایت محتصر رکھی گئی تھی اور صرف وزیراعظم
راجہ پرویز اشرف نے ہی لکھی ہوئی تقریر پڑھ کر سنائی۔ پور ے ملک میں کہیں
بھی پاکستان پیپلز پارٹی ٬ اے این پی اور ایم کیو ایم نے کوئی ریلی نہیں
نکالی۔ان سارے احتجاجی مظاہروں میں کسی ایک دن بھی مسلم لیگ (ن) کے سربراہ
میاں نواز شریف بھی کہیں باہر نہیں نکلے۔دینی جماعتوں ٬ تنظیموں ٬ وکلاء٬
طلبہ٬ تاجروں اور عام شہریوں نے ہی گستاخانہ فلم بنانے والے ملعون یہودی کے
خلاف احتجاجی مظاہرے کئے اور جلوس نکالے ہیں۔اب حکومت گرفتار شدگان اور
دیگر نامعلو م افراد کے خلاف کیس رجسٹر کر رہی ہے ۔شاید یہ امریکا کا دباﺅ
ہے یا اپنی خفت مٹانے کے لیے ایسا کر رہی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان دیگر اسلامی ممالک کو ساتھ ملا کر اس
مسئلے کے حوالے سے ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کرے۔اقوام متحدہ اور دیگر تمام
عالمی اداروں میں تمام مذاہب کی بزرگ ہستیوں اور انبیاءکرام علیہ السلام کے
بارے میں قرار دادیں منظور کروائے اور ایسے قوانین بنوائے جائیں کہ بزرگ
ہستیوں کی شان میں کوئی گستاخی کا مرتکب نہ ہو سکے اور ایسا کرنے والے کے
لیے باقاعدہ سزا مقرر ہونی چاہیے۔مسلمان عوام کا جو کام تھا انہوں نے تو
پورے دینی جذبے اور عشق نبیﷺ کے ساتھ اپنی قلبی وابستگی کا پورا پورا اظہار
کر دیا ہے۔ اب حکومتوں اور او آئی سی کی سطح کا جو کام ہے وہ انہیں کرنا
چاہیے ورنہ آئندہ کسی بھی واقعے پر کوئی بڑا حادثہ یا سانحہ رونما ہو سکتا
ہے۔اب امید کی جانی چاہیے کہ مسلمان حکمران اپنی دینی ذمہ داریوں کو احسن
طریقے سے بجا لانے میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے۔ بصورت دیگر دنیا میں بھی
رسواءاور ذلیل ہوں گے اور آخرت میں حضور نبی کریم ﷺ کے سامنے کس منہ سے
جائیں گے۔ |