امریکی اور سرمایہ دار یہودیوں
کی ملی بھگت سے بنائے جانے والی گھٹیا توہین آمیز فلم کے ردعمل میں دنیا
بھر میں عاشقان رسول ﷺ کا احتجاج تا حال جاری ہے۔ اگرچہ امریکہ کے ٹکڑوں پر
پلنے والے اور ان سے ڈکٹیشن لے کر اپنے دن کا آغاز کرنے والے حکمران طبقے
نے توہین رسالت ﷺ پر بھی اپنی روایتی بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔اکثر اسلامی
و عرب ممالک کی حکومتوں نے با لعموم اور عالم اسلام کی امنگوں اور آرزوؤں
کے مرکز حجاز مقدس کی سعودی حکومت نے بالخصوص جو خاموشی اختیار کر رکھی ہے
وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ حکومت سعودیہ نے تو اس سلسلہ کے مظاہروں کو غلط
قرار دے کر کروڑوں مسلمانوں کا دل دکھایا ہے اس موقع پر عوامی دباﺅ کے آگے
گھٹنے ٹیکتے ہوئے حکومت پاکستان نے سرکاری سطح پر اس نفرت انگیز قدم کےخلاف
یوم عشق رسولﷺ منانے کا قابل تحسین فیصلہ کیا جو یقینا پاکستانی قوم کے دل
کی آواز تھی لیکن اس سلسلہ میں تمام تر نزاکتوں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا اول
تو نام ہی عجیب رکھا گیا کیونکہ مومن کا ہر دن یوم عشق رسولﷺ ہے کہ اس کے
بغیر ایمان مکمل ہی نہیں ہو سکتا جو قرآن و سنت سے واضح ہے اگر یہی نام
رکھنا تھا تو یوم فروغ عشق رسول ﷺ یا یوم تحفظ ناموس رسالت ہونا چاہیے
تھااور پھر سربراہ حکومت کو بجائے بند کمرے میں خطاب کرنے (جو یقینا ایمانی
جذبات سے لبریز اور قوم کے دل کی آواز تھی اور ان کی بدن بولی بھی اس کی
گواہی دے رہی تھی کہ یہ محض محرر کی لکھی ہوئی تقریر نہیں بلکہ ان کے دل کی
آواز ہے کاش صدر زرداری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی یہی انداز اپنا
کر پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانی کر سکیں ) ۔ کھلے عام ریلی کی قیادت
کرتے ہوئے مخاطب ہونا چاہیے تھا جیسا کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر نے کیا تا ہم
اس کے باوجود حکومت پاکستان و آزاد کشمیر اور تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں
مبارکباد کی مستحق ہیں جنہوں نے دینی حمیت کا مظاہرہ کیا ۔ اس موقع پر اعلیٰ
سیاسی لیڈر شپ تو اکثر غائب رہی ما سوائے عمران خان کے جنہوں نے اسلام آباد
میں عظیم الشان مظاہرے کی قیادت کی اور خطاب کیا۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں
پر مشتمل مظاہرین جو کسی قیادت کے تحت تھے انہوں نے انتہائی پر امن انداز
میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تا ہم شتر بے مہار قسم کے لوگ جن کا مقصد
کچھ اور ہی تھا انہوں نے لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کر کے اس
مقصد کو شدید نقصان پہنچایا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ ان میں
ایک تو ایسے مواقع کی تلاش میں رہنے والے پیشہ ور لٹیرے شامل تھے اور دوسرے
ایک مخصوص جھنڈا مافیا اور دہشت گرد گروہ کے لوگ تھے جنہوں نے اس سے پہلے
بھی بعض موقعوں پر اس عنوان کے پروگراموں میں گڑ ،بڑ کی ہے جیسا کہ سانحہ
نشتر پارک اور میلاد مصطفیٰﷺ کے دیگر جلوسوں پر فائرنگ وغیرہ کے واقعات ۔
ان لوگوں کو مقصد سے زیادہ اپنے جھنڈوں کی نمائش سے دلچسپی ہوتی ہے
مظفرآباد میں بھی ایک موقع پر ایسی کوشش کی گئی تھی لیکن الحمد للہ !راقم
نے بر وقت اسے ناکام بنا دیا۔ اس عظیم مقصد کی ہمہ گیریت کو سامنے رکھتے
ہوئے یہ ہونا چاہیے تھا کہ تمام شرکاءجلوس بعض فضول اور بے ہودہ نعروں اور
اپنے اپنے جھنڈوں کی نمائش کے بجائے با وضو ہو کر ذکر و درود شریف اور نعت
خوانی کا ورد کرتے ہوئے با وقار انداز میں اپنااحتجاج ریکارڈ کرواتے جو اس
دن کا حقیقی تقاضا تھا یقینا بہت سی جگہوں پر ایسا ہوا بھی ہے اس سلسلہ میں
خصوصاً الیکٹرانک میڈیا نے جو غیر ذمہ دارانہ کردار ادا کیا وہ انتہائی
افسوسناک ہے چار شہروں میں ہونے والے فساد کو تو سارا دن دکھاتے اور سیکولر
قسم کے لوگوں سے لا یعنی تبصرے کرواتے رہے بلکہ تا دم تحریر یہ سلسلہ جاری
ہے لیکن ملک بھر کے ہزاروں شہروں میں ہونے والے کروڑوں مظاہرین پر مشتمل
ہزاروں مظاہروں کو مکمل نظر انداز کر کے اقوام عالم تک پاکستانی قوم کا غلط
چہرہ پیش کیا گیا جو ایک اقلیت کا قابل مذمت فعل تھا۔ گویا یہ خاموش پیغام
دیا گیا کہ اگر ہمارے کیمرے کی آنکھ میں آنا ہے تو خوب لوٹ مار اور توڑ
پھوڑ مچاﺅ ۔ آزاد کشمیر میں ہونے والے پر امن اور مثالی مظاہروں کو بالکل
نظر انداز کر دیا گیا خصوصاً دار الحکومت مظفرآباد میں ہونے والا عظیم
الشان مظاہرہ نظر انداز کرنے میں کیا حکمت عملی کار فرما تھا اور یہاں مقرر
شدہ الیکٹرانک میڈیا کے نمائندگان کا معیار کیا ہے ۔ میلاد شریف کے جلوس کے
ہزاروں شرکاءبھی ان کی نظروں سے نا معلوم وجوہ کی بناءپر ہمیشہ اوجھل ہی
رہتے ہیں۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ لگتا ہے کہ دنیا کے سامنے
مسلمانوں کے کردار کو اس انداز میں پیش کیا جائے جس سے یہودی ملٹی نیشنل
کمپنیاں خوش ہوں جن کے اشتہارات کی بدولت ان کی اکثریت کا کاروبار چل رہا
ہے ۔ سیاست ، سیاستدانوں کے نام پر اور بھوک ، غربت اور افلاس سے روزانہ
سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں انہیں کوئی نمایاں نہیں کرتا خصوصاً کراچی
میں روزانہ درجنوں لوگ مختلف واقعات میں لقمہ اجل بن رہے ہیں لیکن اچھالا
جا رہا ہے توصرف اس دن جاں بحق ہونے والوں کے معاملے کو اس کا آخر کیا مطلب
ہے ۔ ایسی تحریکوں میں تو سینکڑوں لوگ جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ اس
کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ انسانی جان کی کوئی حرمت نہیں، انسانی جان یقیناً
بہت قیمتی ہے اور جوش کے ساتھ ہوش کو بھی قائم رکھنا ضروری ہے لیکن رسول
اللہ ﷺ کی ناموس سے زیادہ کوئی شے قیمتی نہیں اور شمع رسالت کا ہر پروانہ
ناموس رسالت کی خاطر اپنی جان ، مال و اولاد سب کچھ قربان کرنے کےلئے تیار
ہے ۔
سر کٹاتے ہیں تیرے نام پر مردان عرب
بعض سیکو لر ٹائپ حضرات ٹاک شوز میں آ کر یہ فلسفہ جھاڑتے ہیں کہ توہین
رسالت ایک فرد یا چند افراد کا ذاتی فعل ہے اور سارے مغرب کو نشانہ نہیں
بنانا چاہیے یہ کہتے ہوئے وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ نے
ماضی میں ہر شاتم رسولﷺ کو پناہ دی ۔ شیطان رشدی جیسے بد بخت کو خصوصی طور
پر وائٹ ہاﺅس میں مدعو کیا گیا،برطانیہ نے اسے ”سر “کا خطاب دیا ، ملعونہ
تسلیمہ نسرین کو پناہ فراہم کر کے دنیا بھر کے ایسی گندی سوچ کے حامل لوگوں
کو کیا پیغام دیا ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ اپنی اس ہزیمت کو کبھی
بھی نہیں بھُلا سکتے جو ماضی میں کئی موقعوں پر انہیں اٹھانا پڑی ۔خصوصاً
صلیبی جنگوں کے زخم تو وہ قیامت تک نہیں بھولیں گے آج تک ان کی مائیں اپنے
بچوں کو سلطان ایوبی کا نام لے کر ڈراتی ہیں۔ ہمارے میڈیا خصوصاً الیکٹرانک
میڈیا کو ان کا بھونپو نہیں بننا چاہیے اور اپنے اندا ز پر غور کرتے ہوئے
منہ زور اور بے لگام گھوڑا بننے کے بجائے معاشرے کا اصل چہرہ بننا ہو گا جو
اس کے کردار کا حقیقی تقاضا ہے ۔ |