چھوٹا منہ بڑی بات

شرمناک بُہتان بازی

طالبعلمی کے زمانے میں اکثر دورانِ بحث و مباحثہ بولے جانے والا ایک شعر آج بہت یاد آرہاہے۔مخالفین کو زِچ کرنے کے لئے بولے جانے والا یہ شعر یقینا اسی قسم کی صورتحال کے لئے کسی درد مند دل کی آوازہے اور ایک اٹل سچائی بیان کرتاہے کہ
بات کرنے سے پہلے ہمیشہ بات کو پکڑ کر تولو
بے سروپا بات ذلت ہوتی ہے سوچ سمجھ کر بولو

یہ الفاظ میرے دماغ میں گونج رہے تھے اور میں حیرت زدہ صدمے سے ساکت tv اسکرین کو تَک رہی تھی جہاں ایک پڑی لکھی نام نہاد عوامی لیڈر کس قدر بے رحمی سے بانی پاکستان ہمارے عظیم رہنما بااُصول لیڈرکے بارے سخت گمراہ کُن تاریخی حقائق پیش کر رہی تھی ۔ قائِد اعظم کو پاکستان میں پہلی بار آمریت متعارف کروانے والا اور جمہوریت پر شبِ خون مارنے والا کہا جا رہا تھا ۔ آج ہم نے اس عظیم جمہوریت کے یہ بے مثال نظارے بھی دیکھنے تھے۔ یہ ہرزہ سرائی کرنے والی نام نہاد جمہوریت کی عظیم علمبردار حکمران پارٹیPPP) )کی ایک خاتون رُکنِ اسمبلی فائزہ رشید تھی ۔ خاتون جس طرح دیدہ دلیری سے دروغ گوئی کا مظاہرہ کر رہی تھی وہ نہایت افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔ اِس خاتون کی تاریخ سے لاعلمی کا ماتم کیا جائے یا اس قدر تعصب برتنے کی جسارت پرحیرانگی کا اظہار کیاجائے؟

بقول اس عوامی لیڈر "جمہوریت پر پہلا شب خون قائدِ اعظم نے مارا سندھ اسمبلی کو غیر جمہوری طریقے سے توڑا آمر یت کی بنیاد رکھی جس کا خمیازہ ہم اَج تک بھگت رہے ہیں-

1958تک آئین ہی نہیں بن سکا تھاساری مسلم لیگ کو قائدِ اعظم نے centeralized کردیا اُن کے غیر جمہوری اقدامات کا خمیازہ ہم آج تک بُھگت رہے ہیں وغیرہ وغیرہ"-

لمحہ بھر کو تو یوں لگا جیسے میں کوئی بھارتی چینل سُن رہی ہوں زندہ قومیں اپنے محسنوں کا اپنے نجاتِ دہندہ کا یہ "ادب و اخترام"کرتی ہیں؟ جس طرح نئی نسل کی برین واشنگ کی جارہی ہے صوبائیت کو ہوا دی جارہی ہے۔ کیا یہ بیان وفاقِ پاکستان کے خلاف سازش نہیں؟ آج نام نہاد جمہوری پارٹیوں نے تاریخ بھی بدل دی ہے ۔ " خاص خوشنودی " کے لئے مطالعہ پاکستان بھی مرضی کا بنا لیا ہے ؟ کسی نے اس لاعلم تعصب زدہ خاتون کو یہ نہیں بتایا کہ سندھ اسمبلی قائدِ اعظم کے زمانے میں ختم نہیں ہوئی تھی 1948 میں کھوڑو صاحب سندھ کے CMتھے۔ NWFPکی اسمبلی کو 22-08-47 کوremove کیاگیا تھا اور یہ انتظامی فیصلہ تھا اور ضروری تھا ۔ڈاکٹر خان صاحب نے ہار کر بھی استعفی نہیں دیا تھا اور اسمبلی میں کانگرس کی اکثریت تھی جو ریفرنڈم کی وجہ سے اعتماد کھو چکی تھی ہارنے کے بعد ڈاکٹر خان صاحب کو خود اسمبلی توڑ دینی چایئے تھی ۔ اب اگر لاکھوں جانوں کی قُربانی دے کر یہ مُلک کانگرس نواز لیڈروں کے لئے بنا تھا تو فائزہ بی بی اُس عظیم قائد نے واقعی غلط فیصلہ کیا تھا۔ اور پاکستان کا پہلا آئین بھی 1958تک بنا تھا غلط ہے بلکہ پہلا آئین 1956میں بنا تھا۔تشویش ناک بات ہے یا تو مُطالعہ پاکستان کا نصاب بدل دیا گیا ہے یا ہر صوبہ اپنا نصاب پڑھارہا ہے؟ اسی دن کے لئے جمہوریت کے بلندوبانگ دعوے کیے جا رہے ہیں؟

اب ملاحظہ فرمائے یہ حال ہے نام نہاد جمہوری لیڈروں کا آج قائد کو آمر کہا گیا ہے کل کو کہ دیا جائے گا کہ اکستان تو اصل میں 1970 کو بھٹو نے بنایا تھا ۔

اب غیر کیوں ناں ہمارے جذبات کا مذاق اُڑایں دُنیا کو ہم کیا پیغام دیتے ہیں؟ اس قدر تذلیل اُس عظیم رہنما کی جس کی وجہ سے ہمیں آزادی جیسی نعمت نصیب ہوئی جس کی اُصول پسندی کے اُس کے سیاسی مخالفین بھی معترف تھے۔جس نے اُصولوں کی خاطر اپنی اکلوتی اولاد کو معاف نہ کیا اور حکم دیا اس لڑکی کو کبھی پاکستان کا ویزا نہ دیا جائے۔

ایسی ہی حرکتوں اورسیاسی جماعتوں کی ملک دشمن پالیسیوں کی وجہ سے آج تک کالا باغ ڈیم نہیں بن سکا اور صرف بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے وطن کو صحرا بنانے کے درپے غیر نہیں اِسی دھرتی کے سپوت ہیں۔بھارت اربوں روپے صرف اس ڈیم نہ بننے کیلئے غداروں میں تقسیم کرتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کس کے ایجنڈے پہ کام ہو رہا ہے یہ شر انگیز بیان کس کو خوش کرے گا ۔تباہی کےلئے کسی غیر کی ضرورت کیا ہے؟
گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

مرے پہ سو دُرے مزید افسوس یہ دیکھ کر ہوا کہ حا ظرین شرکاء میں کافی لوگ بھی موجود تھے اور سب خاموشی اور انہماک سے یہ مسخ حقائق پر مبنی بیان سُن رہے تھے۔کسی نے احتجاج یا تردید کی زحمت گوارا نہیں کی اور سننے والی نئی نسل تو اُس عظیم قائد کو وطنِ عزیز کو نوچنے وا لے لُٹیر وں آمروں غاصبوں کا جدِ امجد ہی سمجھے گی ناں ،
کون بتائے گا پاکستان کے نونہالوں کو

اے مسلم نوجواں کبھی تدبر بھی کیا تُونے
وہ کیا گردوں تھا توُ جس کا ہے اِک ٹوٹا ہوا تارا

اس صورتحال میں فوری طور پر سارے صوبوں کے نصابمیں پڑھائے جانےوالے مطالعہ پاکستان کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے ہرسطح پر مُطالعہ پاکستان کی تعلیم کو لازمی کیا جائے معیارِتعلیم کی ابتری کو اب بھی نہ سدھارا تو نہ جانے ہمارے ہاں تعلیم کا مستقبل کیا ہو گا۔

جو قومیں اپنے اسلاف کا مذاق اُڑاتی ہیں ۔ اپنے محسنوں کی تذلیل کرتی ہیں ۔اُن کو اپنی آذادی کی قدر نہیں ہوتی اور وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ ہمارا تشخص ہماری بقا ہماری پہچان اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے میں ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو آگاہ کرنا ہے کہ کس طرح برِصغیر میں مُسلمان ذلت اور رُسوائی سے دوچارتھے اور ہمیں انگریز اور ہندو بنیے کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے اسلام کے نام پر دُنیا کی سب سے بڑی مملکت وجود میں آئی ہمارے عظیم قائد نے واشگاف اعلان کیا کہ ہمارا دستُور 14سو سال پہلے طے ہو چُکا ہے۔ اگر غیر وں کے ایجنڈے کی تکمیل کرنی ہے تو یا د رکھیں یہ قائد کا پاکستان ہے یہاں نظریہ پاکستان کو جھٹلانے والا ذلیل و رُسوا ہوا ہے اور ہو گا دُشمن کے نقشِ قدم پر چلنے والا کوئی بھی ہو وہ ہمارا رہنما نہیں ہوسکتا ۔ اور پاکستان تا قیامت قائم دائم رہے گا ۔ انشااللہ
Nayyer Shafiq
About the Author: Nayyer Shafiq Read More Articles by Nayyer Shafiq: 9 Articles with 7699 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.