توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کا ذمہ دار کون؟

آفس وین میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ دن بھر کے تھکے ہارے لوگ جب گھروں کی جانب روانہ ہوتے ہیں تو عموماً ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہاں صبح سویرے جب انسان آفس کے لیے روانہ ہوتا ہے اس وقت کیفیت کچھ اور ہوتی ہے۔ اس وقت انسان کا موڈ خوشگوار ہوتا ہے، اس کو شوخیاں سوجھ رہی ہوتی ہیں فقرے لبوں سے خود بخود مچل رہے ہوتے ہیں لیکن واپسی پر ایسا نہیں ہوتا ہے ۔ پھر ہمار ا تو کام بھی ایسا ہے کہ رات کو واپسی ہوتی ہے۔ دفتر سے نکل کر وین موبائل مارکیٹ، ایم اے جناح روڈ سے ہوتی ہوئی اپنے مخصوص روٹ پر چلی جاتی ہے۔ اس خاموشی کو ایک ساتھی کی آواز نے توڑا’’ یار اتوار کو پھر ریلی ہے؟‘‘

دوسرے نے لقمہ دیا’’ لیکن حکومت نے تو آج ہی سے جلسے جلوس پر تین دن کی پابندی لگا دی ہے‘‘

’’ارے یار حکومت کی سنتا کون ہے؟ یہاں دیکھ لینا ریلیاں نکلیں گی اور پھر ہنگامہ ہوگا۔‘‘ ایک اور ساتھی نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔ ان سب کی گفتگو کا مرکز اتوار تیس ستمبر کو ایک مذہبی جماعت کی جانب سے منعقد کی جانے والے ریلی اور جمعہ اکیس ستمبر کو یومِ عشق رسول ؐ پر ہونے والی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ تھا۔

بلاشبہ اکیس ستمبر کو جو کچھ بھی ہوا وہ انتہائی قابل افسوس اور قابل مذمت فعل تھا بالخصوص اس حوالے سے کہ وہ دن پیارے حبیب ؐکے عشق کے طور پر منایا جارہا تھا۔ہمارے پیارے حبیب ؐتو سراسر رحمت ہی رحمت ہیں ، آپ ؐ کے نام سے موسوم دن کی حرمت کا تقاضہ یہی تھا کہ اس دن پر امن احتجاج ریکارڈ کرایا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔کراچی، اسلام آباد اور پشاور میں احتجاج پر تشدد رنگ اختیار کرگیا اور جلاؤ گھیراؤ شروع ہوگیا۔ یہ انتہائی قابل افسوس واقعات ہیں اپنے ہی ملک کی املاک کو نقصان پہنچانا، اپنے ہی لوگوں کے مال کو جلانا، اپنے ہی بھائیوں کو مارنا کسی طور بھی جائز نہیں کہا جاسکتا۔

لیکن افسوس تو میڈیا پر بھی ہے کہ وہ صرف اس دن ہونے والے جلاؤ گھیراؤ کی فوٹیج دکھاتا رہا جبکہ ان تین شہروں کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں تمام لوگوں نے بلا امتیاز رنگ و نسل اور بلا امتیاز عقیدہ و فرقہ لاکھوں افراد پر مشتمل پر امن ریلیاں اور جلوس نکالے جو کہ درود سلام کا ورد کرتے ہوئے پرامن طور پر منتشر بھی ہوئے۔کئی مقامات پر ایسا بھی دیکھا گیا کہ ایک دوسرے کے جلوسوں اور ریلیوں کا خیر مقدم بھی کیا۔ کراچی ہی میں دو مقامات پر میں نے خود ایسے مناظر دیکھے کہ مختلف مسالک کی ریلیوں کا جب آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے ایک دوسرے کے لیے راستہ بنایا اور ایک دوسرے کو خوش آمدید کہا۔لیکن دین بیزار میڈیا نے ایسی تمام ریلیوں کا بلیک آؤٹ کرتے ہوئے قصداً پوری دنیا میں صرف جلاؤ گھیراؤ اور توڑپھوڑکے مناظر دکھائے اور پھر انہی کی بنیادوں پر مذاکرے اور مباحثے بھی منعقد کیے ٗ اور پھر چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ماضی میں ہفتے ہفتے بھر کی ہڑتالوں اور مہینے میں پندرہ پندرہ پر تشدد ہڑتالیں منعقد کرانے والے بھی عوام کو پر امن رہنے اور جلاؤ گھیراؤ کی مذمت کرتے نظر آئے۔بہرحال بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔

اتفاق کی بات ہے کہ آفس وین میں بھی اکثریت ایسے ہی لوگوں کی تھی جو مذہبی جماعتوں سے الرجک رہتے ہیں۔ اس لیے جب موضوع چھڑ گیا تو پھر جس جس کو موقع ملا اس نے گفتگو میں حصہ ڈالنا ضروری سمجھا اور گفتگو کا رخ اب کچھ طرف مڑ گیا۔میں خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا اور کوشش کررہا تھا کہ بیچ میں دخل نہ دوں کیوں کہ میرا اصول ہے کہ یا تو خاموش رہو، یا پھر کھل کر بولو!
’’ارے یار کاہے کا احتجاج بس ان ملاؤں کو شور کرنا ہوتا ہے‘‘
’’اور کیا یار دیکھو ذرا اپنے ہی ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں‘‘
’’دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے لیکن ایسا تو کہیں نہیں ہوا یارجیسا یہاں ہوا تھا‘‘‘
’’سارے لٹیرے تھے بھئی ، چیزیں لوٹ رہے تھے‘‘
’’ارے بھئی توڑپھوڑسے بہتر ہے کہ ان کی چیزوں کا بائیکاٹ کرو، وہ تو کرتے نہیں اور چلے ہیں احتجاج کرنے‘‘

’’ بائیکاٹ! اگر آپ بائیکاٹ کریں اور جواب میں انہوں نے اپنی چیزیں بند کردی تو آپ کیا کرلیں گے، دوائیاں تک تو آپ امریکہ اور یور پ کی استعمال کرتے ہیں، داوائیاں تک تو آپ کے پاس نہیں ہوتی ہیں، مرنے لگیں گے سارے‘‘

’’اور کیا یار جب کچھ کرنہیں سکتے تو بیٹھ جاؤ بلا وجہ قوم کو ٹینشن میں مبتلا کیوں کرنا‘‘

ان کی باتیں ا ب برداشت کرنا مشکل ہوتا جارہا تھا۔پھر میں نے بولنا شروع کیا۔

’’احتجاج قوم کا حق ہے ۔ عوام نے اپنے احتجاج ریکارڈ کرایا۔دنیا بھر میں جب احتجاج ہوا تو وہاں کی حکومت نے اپنے ہی عوام کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا، ان کو احتجاج کا موقع فراہم کیا۔ تشدد کی بات کرتے ہیں تو پھر معلوم ہونا چاہیئے کہ لیبیا میں امریکی سفارتخانے میں توڑپھوڑکی گئی اور امریکی سفیر سمیت چار اہلکاروں کو قتل کردیا گیا، امریکہ نے کیا کرلیا وہاں؟؟ لیبیا کی حکومت نے امریکہ سے معافی مانگ لی اور بس بات ختم! یہ نہیں ہوا کہ اپنے ہی لوگوں کو مارنا شروع کردیا۔دنیا بھر میں جب احتجاج ہوتا ہے تو لوگ متعلقہ ملک سفارت خانے جاتے ہیں اس کے باہر احتجاج کرتے ہیں پھر وہاں کا کوئی نمائندہ ان سے بات کرتا ہے اور اس نمائندے یا سفیر کو یادداشت پیش کی جاتی اور احتجاج ریکارڈ کرایا جاتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے صاف کہہ دیا کہ امریکی سفیر کوطلب کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔غلام لوگ! ارے یار امریکہ ہمارا باپ ہے کیا؟ ان لوگوں نے امریکہ کو اپنا باپ بنا لیا۔اگر حکومت پہلے دن سے درست اقدام اٹھاتی ، امریکی سفیر یا ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کیا جاتا، اس سے احتجاج کیا جاتا ، اس کے ذریعے امریکی حکمرانوں تک اپنی بات پہنچائی جاتی تو شائد عوام اور سیاسی جماعتوں کو سڑکوں پر نکلنے کا کوئی جواز نہیں ملتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مہذب ملکوں کی بات کرتے ہیں تو معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا بھر میں حکومتیں امریکہ سے زیادہ اپنے عوام کے مفادات کو دیکھتی ہیں۔ عوام احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو ان کو سفات خانے جانے سے روکا نہیں یہاں تو امریکہ کی غلامی میں اپنے ہی لوگوں کو مارا جاتا ہے۔ امریکی سفارت خانے کو جانے والے راستے میلوں پہلے سے کنٹینر لگا کر بند کردیئے جاتے ہیں۔ ایسے میں عوام کیا کریں گے؟؟؟شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں یہ لوگ! اور جو لوٹ مار کی بات ہے نا میرے بھائی تو اگر ریلیوں میں شریک لوگ لٹیرے ہوتے، اگر ان کا مقصد صرف لوٹ مار ہی کرنا ہوتا تو کراچی میں نشاط سینما کے سامنے ہی کراچی کی سب سے بڑی موبائل مارکیٹ ہے۔ اس موبائل مارکیٹ میں بھی ایک سنیما جلایا گیا ہے لیکن سینما کے ساتھ موجود موبائل کی دکانوں کا بال تک بیکا نہ ہوا۔جلاؤ اور توڑپھوڑکی گئی بے شک کی گئی لیکن اگر مقصد صرف لوٹ مار ہوتا تو موبائل مارکیٹ کی ایک دکان بھی ثابت نہ بچتی، یہاں ایک ایک دکان میں لاکھوں روپے کے موبائل موجود ہیں۔لاکھوں کا مجمع تھا ریلیوں میں کون روک سکتا تھا ان کو اگر وہ موبائل مارکیٹ پر ہلہ بول دیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

میری ان باتوں کا جواب کسی کے پاس نہیں تھاوین میں خاموشی چھا چکی تھی۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520138 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More