بتلادوگستاخ ِ نبی(ﷺ) کو
غیرت مسلم زندہ ہے
آقا پہ مرمٹنے کاجذبہ کل بھی تھااورآج بھی ہے
آقاﷺکی ذات گرامیِ وجہ تخلیق کائنات اوردین کی اساس ہے ۔آپ سمیت تمام
انبیاءکرام علہیم السّلام کی تعظیم وتوقیربجالاناہرمسلمان پرفرض ہے ۔
دین اسلام میں منصب رسالت کومرکزی حیثیت حاصل ہے ۔منصب رسالت کی یہی
مرکزیت اس امرکی متقاضی ہے کہ آپﷺ کی ذات گرامی ہر مسلمان کے لئے تمام
محبتوں اورالفتوں کامرکزومحورقرارپائے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی لاریب کتاب
قرآن مجیدفرقان حمیدمیں بہت سے مقامات پرصراحتہً اوراشارة ًرسول اللہﷺکی
حرمت اورمنقبت کوبیان کیاہے اورامت محمدیہ کے ہرفردپرلازم کردیاکہ رسول
اللہﷺکی پورے طریقے سے تعظیم وتوقیر بجالائیں کیونکہ یہ ایمان کی
بنیادی شرط ہے۔علامہ نبہانی ؒ فرماتے ہیں "جوشخص قرآن کریم میں گہری
نظرسے غوروفکرکرے گااسے قرآن مجیدعظمت نبی ﷺسے معمورنظرآئے گا۔آپؒ
مزیدلکھتے ہیں کہ قرآنی آیات کی روسے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ
توقیرنبیﷺمحض عام سی بات نہیں بلکہ یہ توایمانیات اوردین کی اساسیات
میں داخل ہے ۔"ہم پرلازم ہے کہ آپﷺکی تعظیم وتوقیرمددونصرت اورآپﷺسے
محبت کریں"۔
کی محمدسے وفاتونے توہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیزہے کیالوح وقلم تیرے ہیں
ارشادباری تعالیٰ ہے ۔وَتُعِزَِّرُوہُ وُتُوَقّرُوہُ وَتُسَبِحُوہُ
بُکرَةًَََ وَاَصِیلاً۔ ترجمہ کنزالایمان :اوررسولﷺکی تعظیم
وتوقیرکرو۔اورصبح شام اللہ پاک کی پاکی بولو۔ (پارہ26سورة الفتح )درج
بالاآیت کریمہ کے پہلے حصے میں اللہ رب العزت نے یہ حکم دیاہے کہ رسول
اللہ ﷺکی تعظیم وتوقیرکروان کاادب واحترام کرو۔اس لئے کہ اگرادب ہے
توسب کچھ درست ہے اگرایک مسلمان کے دل میں آقائے دوجہاں سرورکون مکانﷺکاادب
نہیں ہے۔ توچاہے وہ لاکھوں نمازیں پڑھے کروڑوں روپے کی سخاوت کرے ،
کعبة اللہ کاحج کرے ،قربانی کرے الغرض جتنی بھی عبادت وریاضت کرے توسب
کچھ بے کارہے ۔کیونکہ آقائے دوجہاںسرورکون ومکانﷺکی محبت دین حق کی شرط
اّول ہے۔
محمدﷺکی محبت دین حق کی شرط اوّل ہے
اسی میں ہواگر خامی توسب کچھ نامکمل ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے ۔"اے ایمان والو!اپنی آوازیں اونچی نہ کرواس غیب
بتانے والے (نبی)کی آوازسے ان کے حضوربات چّلاکرنہ کہوجیسے آپس میں ایک
دوسرے کے سامنے چّلاتے ہوکہ کہیں تمہارے اعمال اکارت نہ ہوجائیں
اورتمہیں خبرنہ ہو۔(سورة الحجرات )
علامہ اقبالؒ ربط رسالت اورمحبت امام الانبیاءخاتم الانبیاءکوتمام
عبادات کی روح قراردیتے ہوئے بارگاہ رسالت مآبﷺ میں عرض کرتے ہیں ۔
شوق تیراگرنہ ہومیری نمازکاامام
میراقیام بھی حجاب میراسجودبھی حجاب
معززقارئین کرام !یہودونصاری جوازل سے دین ِ اسلام اورمسلمانوں کے دشمن
آرہے ہیں ۔دشمن ہمیشہ دشمن ہوتاہے ۔پہلے یہودونصاریٰ نے قرآن پاک کی بے
حرمتی کی آقاﷺکی شان میں گستاخی کے لئے خاکے اور کارٹون بنانے کے
مقابلے کرائے اورکرارہے ہیں ۔کفرمتحدہوکرآقاﷺکی شان میں کسی نہ کسی
طریقے سے گستاخی کررہاہے اورکرتاآیاہے ۔ہرشخص جانتاہے کہ ایک مرتبہ
پھرامریکہ کے ایک لعین سام باسال نامی یہودی نے آقاﷺ کی شان میں
گستاخانہ فلم بنا ڈالی ہے اوراس کے چندکلپس یوٹیوب پرجاری بھی کیے
ہیں۔یہودونصاریٰ باربارمسلمانوں کے دلوں کوٹھیس پہنچارہے ہیں یہ مسئلہ
مسلم حکمران اقوامِ متحدہ کی قومی اسمبلی میں پیش کریں اورتمام ممالک
کے سربراہان ،علمائے کرام ،مشائخ عظام اس میں اپناکردارادا کریں۔اب وقت
آگیاہے کہ مسلمان متحدہوکرگستاخی کرنیوالے حکمرانوں،ملکوں کامکمل
طورپرمعاشی بائیکاٹ کریںتاکہ ان کی معیشت بربادہوان ملکوں میں جانے
کاان کی مصنوعات کامکمل طورپربائیکاٹ کریں۔اگراب مسلمان متحدنہیں ہوتے
ہیں توقیامت کے دن اللہ اوراسکے محبوبﷺکی بارگاہ میں کیامنہ دکھائیں گے
۔مومن کسی صاحبِ ایمان کی گستاخی نہیں برداشت کرسکتاہم آقاﷺکی شان میں
کیسے گستاخی برداشت کریں گے کیونکہ آقاﷺکی محبت ہی ہمارے ایمان کی
بنیادہے ۔علامہ اقبالؒ کیاخوب فرماتے ہیں۔
قوت عشق سے ہرپست کوبالاکردے
دہرمیں اسمِ محمدﷺسے اُجالاکردے
آقائے دوجہاںسرورکون ومکاںﷺکے ساتھ حضرت عمرفاروقؓ تھے توسرکارعلیہ
الصلوٰة والسلام نے ارشادفرمایااے عمراس وقت تک کوئی شخص مومن نہیں
ہوسکتاجب تک اپنی ہرچیزسے مجھے محبوب نہیں سمجھتا۔بڑی مشہورحدیث پاک ہے
۔
"تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتاجس وقت تک وہ اپنے
والدین،عزیزواقارب اورہرچیزسے مجھے محبوب نہیں سمجھتا"۔
حضرت عمرؓ کیونکہ بڑے صاف گُوآدمی تھے کہنے لگے ۔یارسول اللہﷺ!آپ مجھے
ہرشئے سے پیارے ہیں سارے رشتہ داروں سے پیارے ہیں سارے بیٹوں سے پیارے
ہیں کائنات کی ہرچیزسے پیارے ہیں مگرمیری جان سے آپ مجھے پیارے نہیں جب
انہوں نے یہ کہاتوسرکارعلیہ الصلوٰة والسلام نے ارشادفرمایاتم میں سے
کوئی اس وقت تک ایمان کی حلاوت کونہیں پاسکتاجب تک کہ اپنی جان سے بھی
زیادہ مجھے محبوب نہیں سمجھتااسی لمحہ میں حضرت عمرؓ نے نعرہ لگایااس
خداکی قسم!جس کے قبضے میں میری جان ہے آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ
عزیزہیں ۔سرکارعلیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایااب تمہاراایمان کامل ہوا۔
ارشادباری تعالیٰ ہے "اے ایمان والو!راعنانہ کہواوریوں عرض کروکہ
حضورہم پرنظررکھیں اورپہلی ہی سے بغورسنواورکافروں کے لئے دردناک عذاب
ہے ۔(سورة البقرة آیت104)
ارشادباری تعالیٰ ہے۔تواے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہونگے
جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھرجوکچھ تم حکم
فرمادواپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اورجی سے مان لیں"۔(سورة
النساءآیت65)
اس آیت کریمہ کاشان نزول یہ ہے کہ دوآدمی آقاﷺکے پاس اپناکیس لے گئے ۔آپﷺنے
ان کافیصلہ کردیاجس کے خلاف فیصلہ ہواتھا اس نے کہاہمیں حضرت عمرؓ کے
پاس بھیجورسول اللہ نے فرمایاہاں پس چلے حضرت عمرؓ کی طرف جب حضرت عمرؓ
کے پاس آئے جس کے حق میں یہ فیصلہ ہواتھا اس نے کہااے ابن خطاب آقاﷺنے
میرے حق میں فیصلہ کیاہے اس نے کہاہمیں حضرت عمرؓ کی طرف بھیجودوآپ نے
آپؓ کی طرف بھیج دیاحضرت عمرؓ نے جس کے خلاف فیصلہ ہواتھاسے کہاکیاایسی
ہی بات ہے اس نے کہاہاں پس حضرت عمرؓ نے کہابس اپنی اپنی جگہ بیٹھومیں
آکے تمہارافیصلہ کرتاہوں آپؓ تلوارلیکران کی طرف نکلے جس نے رسول اللہ
سے کہاتھاہمیں حضرت عمرؓ کی طرف بھیج دواس کاسرقلم کردیادوسرابھاگ
کررسول اللہ کے پاس پہنچااس نے کہا(یا)رسول اللہ خداکی قسم حضرت عمرؓ
نے میرے ساتھی کوقتل کردیااوراگرمیں بھی جلدی سے نہ نکلتا تومجھے بھی
قتل کردیتے رسول اللہ نے فرمایامیں تویہ گمان نہیں کرتاکہ حضرت عمرؓ
مومنین کے قتل کی جرات کریں ؟اس پراللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت "فلاوربک
لایومنون"الایہ نازل کردی پس رسول اللہ نے اس بندے کاخون باطل قراردے
دیااورحضرت عمرؓ کواس جرم سے بری قراردیا۔(بحوالہ
تفسیردرمنثورج۲،تفسیرابن کثیرج۱)
میرے مسلمان بھائیو!جس شخص کوحضرت عمرؓ نے قتل کیاتھااس نے زبان سے
کوئی گالی نہیں دی تھی بلکہ رسول اللہ کے فیصلے کے بعداسے مستردکرتے
ہوئے حضرت عمرؓ کی عدالت میں اپیل کی تھی۔حضرت عمرؓ نے اس کی تصدیق کی
کہ اس نے رسول اللہ کے فیصلہ کومستردکیاہے اس کے بعدآپؓ نے اسکوقتل
کردیا۔قرآن پاک میں ارشادباری تعالیٰ ہے ۔"بے شک جوایذادیتے ہیں اللہ
اوراس کے رسولﷺکوان پراللہ پاک کی لعنت ہے دنیااور آخرت میں اوراللہ نے
ان کے لئے ذلت کاعذاب تیار کررکھاہے ۔(سورة الاحزاب57)
اللہ رب العزت کوایذادینایہ ہے کہ اس کی ایسی صفات بیان کرناجس سے وہ
منزہ ہے یااس کے محبوب بندوںکوستانا آقاﷺکوایذادینایہ ہے کہ آقاﷺکے کسی
فعل شریف کوہلکی نگاہ سے دیکھنا یاکسی قسم کاطعن کرنا یا آپﷺکے
ذکرخیرکوروکنا یاآپﷺکوعیب لگائے یاآقاﷺکی شان میں گستاخی کرے۔ارشادباری
تعالیٰ ہے۔ترجمہ:"اوران میں کوئی وہ ہیں کہ ان غیب کی خبریں دینے والے
(نبی)کوستاتے ہیں اورکہتے ہیں وہ توکان ہیں تم فرماﺅ تمہارے بھلے کے
لئے کان ہیں اللہ پرایمان لاتے ہیں اورمسلمانوں کی بات پریقین کرتے ہیں
اورجوتم میں مسلمان ہیں ان کے واسطے رحمت ہیں اورجورسول اللہﷺکوایذادیتے
ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔تمہارے سامنے اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ
تمہیں راضی کرلیں اوراللہ ورسول کاحق زائدتھا کہ اسے راضی کرتے
اگرایمان رکھتے تھے ۔کیاانہیں خبرنہیں کہ جوخلاف کریں اللہ اوراس کے
رسول کاتواس کے لئے جہنم کی آگ ہے کہ ہمیشہ اس میں رہے گایہی بڑی
رسوائی ہے ۔(پارہ 10سورة التوبہ61تا63)غزوہ تبوک میں جاتے ہوئے تین
منافقوں میں سے دوآپس میں بولے کہ آقاﷺکاخیال ہے کہ ہم روم پرغالب
آجائیں گے یہ بالکل غلط ہے تیسراشخص خاموش تھامگران کی باتوں
پرہنستاتھاآقاﷺنے ان تینوں کوبلاکرپوچھاتووہ بولے کہ ہم توراستہ کاٹنے
کے لئے دل لگی کرتے جارہے تھے اس مقام پریہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔ترجمہ:"اوراے
محبوبﷺ اگر تم ان سے پوچھوتوکہیں گے کہ ہم تویونہی ہنسی کھیل میں تھے
تم فرماﺅکیااللہ اوراس کی آیتوں اوراس کے رسول سے ہنستے ہوبہانے نہ بناﺅتم
کافرہوچکے مسلمان ہوکراگرہم تم میں سے کسی کومعاف کریں تواوروں کوعذاب
دیں گے اس لئے کہ وہ مجرم تھے "۔(سورة التوبہ۶۵آیت ۶۶)
آقاﷺ کی توہین اللہ تعالیٰ کی توہین ہے کیونکہ ان منافقوں نے
توبظاہرآقاﷺکی توہین کی تھی مگراللہ پاک نے فرمایاکیااللہ اوراس کی
آیتوں اوراس کے رسول سے ہنستے ہو۔ہروہ شخص جونبی کریم کی توہین کرے
یاآپپرکوئی عیب لگائے یاآپ کی ذات ،آپ کے نسب آپ کے دین یاآپ کی عادات
مبارکہ میں سے کسی عادت کی طرف کوئی نقص منسوب کرے یاان میں سے کسی عیب
کاآپ کی طرف اشارہ کرے یاتوہین کرتے ہوئے کسی ایسی چیزسے آپکوتشبہیہ دے
یاآپ کی تحقیرکرے یاآپ کی شان کوکم کرے آپ کااستخفاف کرے یاآپ کی طرف
کسی عیب کی نسبت کرے تووہ آپ کی توہین کرنے والا شمارہوتاہے اس کاحکم
بھی وہی ہے جوتوہین کرنے والے کاہوتاہے ،اسے قتل کردیاجائے دورصحابہ
کرام علہیم الرضوان سے لیکرآج تک اسی پر تمام علماءاوراصحاب فتویٰ
کااجماع ہے ۔ خطابی کہتے ہیں" میں مسلمانوں میں سے کسی ایسے شخص کونہیں
جانتاجس نے نبی کریم کے گستاخ کے واجب القتل ہونے میں اختلاف
کیاہو۔محمدبن سحنون کہتے ہیں کہ اس پرعلماءکااجماع ہے کہ نبی کریمﷺکی
توہین وتنقیص کرنے والاکافرہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کی وعیدہے
اورپوری امت کے نزدیک اس کاحکم قتل ہے جواس کے کفراورعذاب میں شک کرے
گاوہ خودکافر ہوجائے گا۔
ابوبکرابن منذرفرماتے ہیں اس پرتمام اہل علم کااجماع ہے کہ جونبی
کریمﷺکی توہین کرے اسے قتل کردیاجائے گایہی بات امام مالک بن انس،
اللیث ، احمداوراسحاق نے کہی ہے اوریہی امام شافعی ؓ ۔کہ حضرت ابوبرزہؓ
فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ کی شان میں نازیبا کلمات کہے تومیں نے
کہاآپ مجھے اجازت دیں تومیں اس کاسراڑادوں توآپ نے فرمایا"فلیس ذلک
لاحدالاالرسول ﷺ"کہ کسی کی توہین کرنے والے کوقتل کرناصرف توہین رسالت
کے ساتھ خاص ہے ۔ان آئمہ کے نزدیک ایسے شخص کی توبہ بھی قبول نہیں کی
جائے گی۔
امام بخاری،امام مسلم کے علاوہ ابن اسحاق ،ابن سعد اورابن الاثیرؒوغیرہ
نے نقل کیاہے کہ بنونضیرقبیلہ کاایک یہودی کعب بن اشرف تھاوہ
شاعرتھااور رسول اللہﷺاورآپﷺکے صحابہ کرامؓ کے خلاف ہجویہ
اشعارکہتااوریہ اشعارلوگوں کوسناکرانہیں رسول اللہﷺکے خلاف
بھڑکاتاتھاغزوہ بدر میں کفارکی شکست پراُسے بہت دکھ ہواوہ مدینہ سے مکہ
گیااوروہاں جاکراس نے مقتولین قریش کے مرثیے کہے جن کی لاشوں کوکنویں
میں ڈال دیاگیا تھا پھر واپس آکرکعب نے ایک مسلمان خاتون ام الفضلؓ بنت
حارث اوردیگرمسلم خواتین کے متعلق عشقیہ اشعارکہے ۔ رسول اللہﷺنے
فرمایا۔ یااللہ !ابن الاشرف کے اعلانِ شراورشعرکہنے کوتُوجس طرح چاہے
مجھ سے روک دے آپﷺنے یہ بھی فرمایاابن الاشرف کے خلاف کون میری مددکرے
گا اس نے مجھے ایذاپہنچائی ہے ایک روایت میں ہے کہ آپﷺنے فرمایاکعب بن
اشرف سے کون نمٹے گا؟اس نے اللہ اوراس کے رسولﷺکوتکلیف پہنچائی ہے
۔حضرت محمدبن مسلمہؓ نے کہا:اس کے لئے میں ہوں یارسول اللہﷺ!میں اسے
قتل کروں گاآپ نے محمدبن مسلمہ کو کعب بن الاشرف کے قتل کی اجازت دے دی
۔حضرت محمدبن مسلمہ ؓ نے اس کام کی فکرمیں کھاناپیناچھوڑدیا۔رسول
اللہﷺنے انہیں بلاکرپوچھا اے محمد!کیاتم نے کھاناپینا ترک کردیاہے
؟انہوں نے عرض کیایارسول اللہﷺ!میں نے آپ کے ساتھ جووعدہ کیاہے اس کے
قابل ہوں یانہیں آپﷺنے فرمایاتم پرصرف کوشش کرنافرض ہے ۔آپ نے محمدبن
مسلمہ کواس سلسلہ میں حضرت سعدبن معاذؓ سے مشورہ کرنے کی نصیحت کی ان
کے ساتھ حضرت عبادبن بشیرؓ ، حضرت ابونائلہ سلکانؓ بن سلامہ،حضرت حارث
ؓبن اوس اورحضرت ابوعبس ؓبن جبر بھی رسول اللہﷺکی اجازت سے اس مہم میں
شریک کارہوگئے ۔ جس رات کعب بن اشرف کوقتل کیاگیا۔رسول اللہﷺاس رات
حالت قیام میں رہے اورنمازادافرماتے رہے صبح جب آپ نے ان کے نعرہ ہائے
تکبیرکی آوازیں سنیں توآپ جان گئے کہ کعب کوقتل کردیاگیاہے وہ لوگ واپس
پہنچے توانہوں نے آپ کومسجدنبوی کے دروازے پرکھڑاپایااورانہوں نے
آپکوکعب کے قتل میں کامیابی کی خوشخبری سنائی ۔قاضی عیاض ؒ کہتے ہیں کہ
رسول اللہﷺنے کعب بن اشرف کوقتل کرنے کی یہ وجہ بیان فرمائی "فَاِنَّہُ
قَداذَ اللّٰہ وَرَسُولَہُ"اس نے اللہ اوراس کے رسول ﷺکواذیت پہنچائی
ہے ۔یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ کعب کاقتل شرک نہیں بلکہ اللہ کے نبی
ﷺکوایذاپہچانے کی وجہ سے تھا۔
صحیح بخاری میں ہے حضرت علی المرتضیٰ شیرخداؓ نے ایک موقع پرشاتمین
رسول کوقتل کرنے کے بعدجلادینے کاحکم صادرفرمایا۔حضرت امام حسنؓ نے
ارشادفرمایاجوکسی نبی کوسبّ کرے اسے قتل کردواورجوکسی صحابی
کوبرابھلاکہے اسے کوڑے مارو۔
ابن ہشام ؒ (213ھ یا218ھ)کے مطابق قبیلہ اوس نے جب کعب بن اشرف یہودی
کوقتل کیاجورسول اللہﷺسے سخت عداوت رکھتاتھاتو خزرج والوں نے کہایہ
نہیں ہوسکتاکہ ہم اوس سے پیچھے رہ جائیں اوروہ ہم سے سبقت لے جائیں
۔انہوں نے آپس میں مشورہ کیاکہ اب کون ہے جورسول اللہﷺسے عداوت
رکھتاہوجیسے کعب بن اشرف تھاانہوں نے طے کیاکہ آپ سے ایسی عداوت رکھنے
والاابورافع سلام بن ابی الحُقَیق ہے جوخیبرمیں رہتاہے ۔قبیلہ خزرج
والوں نے رسول اللہﷺکی خدمت اقد س میں حاضرہوکراسے قتل کرنے کی اجازت
چاہی آپ نے اجازت دے دی ۔
مصنف عبدالرزاق کی جلدپنجم میں ایک حدیث مروی ہے کہ حضرت خالدبن ولیدنے
کچھ مرتدوں کوآگ میں جلادیاحضرت عمرؓ نے عرض کیا،اے ابوبکرؓ آپؓ نے
خالدکوکھلاچھوڑدیا۔آپؓ نے جواباًارشادفرمایامیں اللہ رب العزت کی
تلوارکونیام میں نہیں ڈال سکتا۔
حضرت براءبن عاذب ؓ سے مروی ایک روایت کے مطابق ابورافع اپنے قلعے واقع
حجازمیں رہتاتھایہ دشمن رسول تھااورآپ کے مخالفین کی مددکیا کرتاتھا
رسول اللہکوایذاپہنچاتااورآپ کے خلاف شرارتیں کرتارہتاتھارسول اللہﷺنے
ابورافع کوقتل کرنے کے لئے خزرج کے قبیلہ بنی سلمہ کے پانچ افرادکو
مامورکیاان میں حضرت عبداللہ ؓبن عتیک ،حضرت مسعودؓبن سنان ،حضرت
عبداللہؓبن انیس ،حضرت ابوقتادہ الحارث بن ربعیؓ اور خزاعی بن مسعودؓ
شامل ہیں ۔حضرت عبداللہ بن عتیکؓ نے ابورافع کواس کے قلعہ میں داخل
ہوکرقتل کردیااوررسول اللہﷺکواس کے قتل کی خوشخبری سنائی ابورافع کو3ھ
میں قتل کیاگیا تھا۔معززقارئین کرام!درج بالاواقعہ سے یہ پتہ چلتاہے کہ
رسول اللہﷺکی اجازت سے ابورافع کوقتل کیاگیاتھا آپ نے کچھ لوگوں
کوابورافع کوقتل کرنے کی مہم پرروانہ کیاتھا۔مقتول کاجرم یہی تھاکہ وہ
رسول اللہﷺکوایذاپہنچاتااورآپ کے خلاف شرارتیں کرتا رہتاتھاجیساکہ صحیح
بخاری میں منقول ہے ۔
سروردوعالم نورمجسم ﷺکعبة اللہ کے پاس نمازادافرمارہے تھے بدبخت عقبہ
بن ابی معیط نے آپکے پیکروپرُنورپراونٹنی کی گندگی ڈال دی کتنی بڑی
توہین تھی آپ کاعرش سے مقدم جسم اوراس وقت آپ مسجدحرام میں اورکعبة
اللہ کی دیوارکے ساتھ کھڑے ہیں پھرحالت نماز میں ہیں اورنمازمیں سب سے
اہم مقام حالت سجدہ میں ہیں ایسے میں جب اتنی بڑی توہین ہوئی تورب
ذوالجلال کاعذا ب کیوں نہ نازل ہوا؟ حالانکہ اللہ رب العزت کامل قدرتوں
والاہے بخاری شریف میں ہے ابوجہل ،عتبہ شیبہ ،امیہ بن خلف وغیرہ یہ
توہین دیکھ کرہنس ہنس کے لیٹ رہے تھے تووہ عذاب الٰہی سے بندرکیوں نہ
بنے ؟جہاں بیٹھے تھے اتنی زمین کیوں نہ دھنسی ؟ان پرآگ کیوں نہ برسی
؟نہ یہ ہے کہ آپ کادرجہ دوسرے انبیاءکرام ؑ سے کم ہے بلکہ آپ تواللہ
تعالیٰ کے سب سے بڑے محبوب ہیں نہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عذاب نازل نہیں
کرسکتاتھااس کے باوجودبھی عذاب نازل نہ کرنااس امرکی طرف متوجہ
کررہاتھا جب پہلی امتوں میں اپنے انبیاءکرامؑ کی توہین لینے کی پوری
صلاحیت نہیں تھی توآگ وغیرہ کے عذاب نے وہ بدلہ لیامگراب وہ امت آچکی
تھی جب عشق رسولﷺ وہ جذبہ وجرات پاچکاتھاجواللہ پاک کی توفیق سے اپنے
محبوب کی توہین کاخودبدلہ لے لے اس لئے ان گستاخوں کوآگ بھیج کے یازمین
دھنساکے نہیں مارابلکہ آپ کے غلاموں کے ہاتھوں عذاب دلوایاتاکہ گستاخوں
کوبھی عذاب ہواورعاشقوں کاسینہ بھی ٹھنڈاہوایک یہ کہ اللہ تعالیٰ خود
عذاب بھیج دے دوسرایہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غلامانِ رسول کے ہاتھوں سے
گستاخوں کوعذاب دلوائے ۔چنانچہ اس امت میں دوسرے دستورکورائج کردیاگیا
ارشادباری تعالیٰ ہے ۔"کیا اس قوم سے نہ لڑوگے جنہوں نے اپنی قسمیں
توڑیں اوررسول کے نکالنے کاارادہ کیاحالانکہ انہیں کہ طرف سے پہل ہوئی
ہے کیاان سے ڈرتے ہوکہ اللہ اس کازیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرواگرایمان
رکھتے ہوتوان سے لڑواللہ تعالیٰ انہیں عذاب دے گاتمہارے ہاتھوں
اورانہیں رسوا کرے گااورتمہیں ان پرمدددے گااورایمان والوں کاجی
ٹھنڈاکرے گا۔(سورة التوبہ آیت 13،14)
حضرت سعدبن ابی وقاص ؓ نے روایت کیاہے عبداللہ بن ابی سرح ان
چارافرادمیں سے تھے جن کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایاتھاوہ جہاں ملیں
ان کوقتل کردوجب وہ توبہ کرنے کے لئے آئے انہیں رسول اللہ کے سامنے پیش
کیاگیاآپ نے تین باران کی طرف سراٹھاکے دیکھااورہربارہی انہیں
ناپسندکیاچوتھی بارآپ نے ان کوقبول کرلیاپھرآپ اپنے اصحابؓ کی طرف
متوجہ ہوئے فرمایاکیاتم میں کوئی رجل رشیدنہیں جویہ دیکھ کرکہ میں نے
اس کی بیعت لینے سے ہاتھ پیچھے کرلیاتھااس کی طرف اٹھتااوراسے قتل
کردیتا(سنن ابی داﺅد)
حضرت عمربن عبدالعزیزفرماتے ہیں"جوشخص آقاﷺکی بارگاہ اقدس میں گستاخی
کرے اس کاخون حلال اورمباح ہے ۔
الاشباہ والنظائرمیں ہے ۔"کافراگرتوبہ کرے تواس کی توبہ قبول کرلی جائے
لیکن اس کافرکی توبہ قبول نہیں جوآقاﷺکے حضورگستاخیاں کرتاہے ۔
سورة عبس وتولیٰ کاشان نزول مفسرین کرام نے بیان کیاہے کہ آقا
رؤساءقریش کودعوت پہچانے میں مشغول تھے کاملاًان کی طرف متوجہ تھے کہ
اچانک نابیناصحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوب بارگاہ رسالت مآب میں
حاضرہوئے ۔یہ اوّلین مہاجرین میں سے تھے ۔آقا کی خدمت اقدس میں
عموماًحاضرخدمت ہوتے رہتے ۔آقا سے دین کی تعلیمات حاصل کرتے مسائل
دریافت کرتے اورحسب معمول آج بھی آتے ہی سوالات کیے آداب مجلس کاخیال
نہ رکھ سکے آگے بڑھ کرآقا کواپنی طرف متوجہ وراغب کرناچاہاآپ چونکہ اس
وقت ایک اہم امردینی میں مشغو ل ومصروف تھے سومتوجہ نہ ہوئے سلسلہ کلام
جاری رکھا،دوران گفتگوخلل اندازی پرچہرہ اقدس پرکچھ رنج وملال کی کیفیت
ظاہرہوئی ۔اس پرباری تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل کیں جن میں آنحضرت
کواس امرکی تلقین کی گئی وہ ناسمجھ تھااس کی دلجوئی بھی تومقصودتھی
ایسے آثارچہرہ اقدس پرظاہرنہیں ہونے چاہیں تاکہ ایسامخلص وصحابی آپ کی
شفقت ودلجوئی سے محروم نہ ہواب ظاہراًاس آیت کریمہ میں تنبیہہ کی کیفیت
پائی جاتی ہے ۔اس خصوصیت کی وجہ سے ایک منافق کا معمول یہ تھاوہ
ہرنمازمیں یہی سورت پڑھتاتھااوردل میں یہ کیفیت مرادلیتاکہ یہ وہ سورت
ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آقاﷺکوتنبیہہ فرمائی ہے یہاں تک کہ "یہ بات
سیدناعمرفاروقؓ تک پہنچی کہ منافقین میں سے ایک شخص اپنی قوم کی امامت
کراتاہے وہ ہرباجماعت نمازمیں سورة عبس وتولیٰ ہی پڑھتا ہے آپؓ نے اسے
بلابھیجا(بغیرمزیدتحقیق کے)اس کاسرقلم کرودایا۔
ناموس رسالت کاتحفظ اللہ تعالیٰ ،رسول اللہ اوران کے صحابہ کرام علہیم
الرضوان نے کیانیزاس امرپرامت مسلمہ کابھی اجماع ہے ۔گستاخ ِ رسول واجب
القتل ہے اورجرم میں مردوزن ،کافرومشرک ،مسلم ومعاہدنیزمنافق وبددین
برابرہیں ان سے کوئی بھی گستاخی رسول کامرتکب ہوبالاتفاق اسے قتل
کیاجائے اورایسے افرادکے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔آقا کی
تنقیص شان کرنا،ختم نبوت کاانکار،بیت اللہ اورروضہ رسول ﷺکی توقیرنہ
کرنا،اسلامی احکام کاانکارکرنا،قرآن کریم کی بے حرمتی کرنایہ سب
امورگستاخی رسول میں شامل ہیں ۔جس طرح یہ امورحیات رسول میں گستاخی
رسول میں داخل تھے اسی طرح یہ امورآپ کے وصال کے بعدبھی گستاخی رسول
کاموجب ہیں ۔قارئین کرام! معاذاللہ امریکہ کبھی قرآن کے اوراق
جلاکر،کبھی کارٹون بناکراوراب توہین آمیزفلم بناکرآقا کی شان میں
گستاخی کی ہے ۔فلم بنانے والے ایسے لعین شخص کوقتل کردیاجائے ۔عہدرسالت
اورعہدخلافت راشدہ میں گستاخان رسول کواس کثرت سے سزائے موت دی گئی کہ
اب سزاتواترکادرجہ اختیارکرچکی ہے ۔گستاخِ رسول کی اسلام میں سزائے موت
سے کم ترکوئی اورسزانہیں ۔جب گستاخِ رسول کاجرم مضبوط دلائل سے ثابت
ہوجائے توسزائے موت ہرحال میں نافذ کی جائے کسی حکومت ،ریاست ،پارلیمنٹ
،صدر،وزیراعظم حتیٰ کہ پوری امت کوبھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ یہ
سزامعاف کردے کیونکہ ایساکرنے سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے
جوناقابل معافی جرم ہے ۔ایسے لعین شخص کوسزادینے میں دیرنہ کی جائے
بلکہ سزادیکرکیفرکردارتک پہنچادیاجائے۔مسلم ریاستوں ،ریاستوں کے
سربراہوں ، علمائے کرام ،پیران عظام محقیقین دانشوروں کی یہ اجتماعی
ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے وسائل برﺅے کارلائیں جن کی موجودگی میں اہانت
رسول ، قرآن حکیم کی بے حرمتی اوراسلامی مقدسات وشعائرپربڑھتے ہوئے
منفی رحجانات کااستیصال کیاجاسکے ۔عام مسلمانوں میں اسلامی امورکے
احترام کاشعورپیداکرنے کی بھی اشدضرورت ہے جس کے لئے محراب
ومنبر،خانقاہیں میڈیاوغیرہ اہم کرداراداکریں ۔
معززقارئین کرام!آقائے دوجہاں سرورکون ومکانﷺکی طرف سے دشمنوں کومعاف
کرنے سے ہمارے لئے سنت یہ ثابت ہوئی کہ ہم اپنے ذاتی دشمنوں کومعاف
کرناسیکھیں ۔بزعم خویش دانشوروں نے قوم کوالٹامطلب سکھاناشروع
کردیا۔جولوگ نرمی اورمعافی کی باتیں کررہے ہیں ۔ سنت یہ ہے کہ یہ اپنے
دشمنوں کومعاف کریں یہ اپنے دشمنوں سے توانتقام لیتے ہیں اورانہیںمعاف
نہیںکرتے مگررسول اللہﷺکے دشمنوں کے بارے میں معافی کے علمبرداربنے
ہوئے ہیں۔ہرانسان اپناحق تومعاف کرنے کااختیاررکھتاہے پردوسرے انسان
کاحق معاف کرنے کااختیار نہیں رکھتا۔آقا نے جہاں کچھ گستاخوں کومعاف
کیاوہاں کچھ گستاخوں کوقتل کرنے کابھی حکم دیاہے جوصحاح ستہ میں
موجودہے ۔ایک بڑے گستاخ عقبہ بن ابی معیط کوتواپنے ہاتھوں سے قتل
کیااورابن خطل کوکعبہ کے پردوں سے نکلواکرمقام ابراہیم اورزمزم کے
درمیان حرم میں باندھ کرقتل کروایا۔یادرہے آپﷺکامعاف کرنااورگستاخوں
کوقتل کروانادونوں ادائیں ہی جہان کے لئے رحمت ہیں ۔
خلیفہ ہارون الرشیدنے حضرت امام مالک ؒ سے مسئلہ پوچھاگستاخ ِ رسول کی
سزاکیاکوڑے سے مارناکافی نہیں اس پرحضرت امام مالکؒ نے فرمایااے
امیرالمومنین!گستاخ رسول گستاخی کے بعدبھی زندہ رہے توپھرامت کوزندہ
رہنے کاحق نہیں رسول اللہ کے گستاخ کوفی الفورگرفتارکرکے قتل کردیا
جائے۔
امام قسطلانی ؒ لکھتے ہیں "آپﷺکے وصال کے بعدآپﷺکی امت کویہ حق نہیں ہے
کہ آپﷺکے حق کوساقط کرے یعنی معاف کرے کیونکہ آپﷺکی طرف سے اس بارے میں
کوئی اجازت موجودنہیں ہے ۔(مواہب اللدنیہ ج۲)
امام زرقانی ؒ لکھتے ہیں "اب گستاخ رسول کے لئے صرف قتل ہے معافی نہیں
ہے کیونکہ رسول اللہﷺکے وصال کے بعدآپﷺکی طرف سے معاف کرنے پرہم مطلع
نہیں کرسکتے ۔(زرقانی علی المواہب اللدنیہ)
اللہ رب العزت ہم سب کو آقائے دوجہاںسرورکون ومکاں ﷺکی سچی اورپکی
غلامی نصیب فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین |