میں کسی موضوع پر لکھنے لگوں
تو قلم کبھی نہیں رکتا ۔کبھی بھی لکھنے میں دشواری محسوس نہیں کرتا مگر
بات جب سرکار دوعالمﷺ کی آتی ہے تو قلم فرطِ ادب سے رک جاتا ہے ۔میں
لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ میں اس ہستی کے بارے میں کیا لکھوں؟ جس کی
توصیف خود خالقِ کائینات کرتا ہے۔وہ ہستی جو وجہ تخلیقِ کائینات ہے ۔جو
رازِ کائینات اور جانِ کائینات ہے۔سوچتا ہوں کہ ان کے بارے میں لکھوں
تو کیسے لکھوں ۔ہے عقل کا یہ تقاضہ کہ اس کو ۔۔۔۔حدِ شریعت میں لکھوں
انساں ۔۔۔ یہی ہے فہمِ بشر کا حاصل۔۔۔وہ ایک انساں عضیم انساں ۔۔۔۔۔مگر
یہ عشق تمام چاہے ۔۔۔۔میں اسکو حسنِ تمام لکھوں۔۔۔جنوں یہ کہتا اس سے
بڑھ کر۔۔۔۔عیاں میں رازِ وصال کر دوں ۔۔۔وہ قاب قوسین کی کہانی ۔۔۔بہ
رنگِ مدحت بیان کر دوں ۔۔۔میں ایک ذرہ حقیر ذرہ۔۔۔وہ آسمانوں کا رہنے
والا۔۔۔میں ایک قطرہ مثالِ شبنم۔۔۔۔۔وہ آبشاروں کا سلسلہ ہے۔۔۔وجود
میرا کرن کی صورت۔۔۔۔وہ آفتابِ جہاں نما ہے۔۔۔میں خشت کھیتی ۔۔۔۔وہ ابرِ
نیساں ۔۔۔۔میں تپتا صحرا ۔۔۔۔وہ بہتا دریا ۔میں کور دیدہ۔۔۔۔وہ نور
پیکر۔۔۔۔میں شب گزیدہ ۔۔۔وہ صبحِ روشن۔۔۔میں ایک نقطہ ۔۔۔ وہ دائرہ
ہے۔۔۔میں حرف بن کر بکھر گیا ہوں ۔۔۔وہ کتاب، یقین ِ محکم۔وہی ہے کہ جس
سے۔۔۔ شمس و قمر نے اجالے مانگے ۔۔۔فروغ پایا۔ ۔۔۔۔۔۔ تمام فکرو بیاں
کا حا صل ۔۔۔سرکار کا خود کو غلام کہہ دوں۔
چند بے ضمیر افراد نے سرکارﷺ کی گستاخی پہ مبنی فلم جو بنائی تو تمام
مسلم دنیا میں اسکے خلاف ایک ردِ عمل ہوا جو تا حال جاری ہے ۔تاریخ کا
ایک طالب علم ہونے کے ناطے جہاں تک میں سمجھا ہوںمغرب کی سرپرستی میں
سرکار دو عالم کی شان میں گستاخی کے واقعات اتفاقیہ نہیں ہیں بلکہ یہ
ایک سوچی سمجھی حرکت ہے جس کا مقصد امت مسلمہ میں موجود روح محمدﷺ کی
موجودگی او اسکا تناسب اور حدت جانچ کر مزید لائحہ عمل ترتیب دینا ہے
۔مغرب اسے آزدی اظہار قرار دیتا ہے مگر ہولو کاسٹ پہ وہ کسی کو بولنے
اور لکھنے تک کی اجازت نہیں دیتا ۔فرانس کی عدالت نے ابھی ستمبر کے
تیسرے ہفتے میں ایک فیصلہ دیا ہے کہ کسی شخصیت کے ذاتی معاملات کے
متعلق کچھ لکھنا اور چھاپناجرم ہے اور اسکی اجازت نہیں دی جاسکتی مگر
تاجدارِ کائیناتﷺ جیسی عظیم ہستی کی گستاخی پہ خاموش ہے غلام احمد بلور
کے بیان پر تو ہیلری اور سارا یورپی میڈیا چیختا رہا ۔ تب یہ آزادی
اظہار کہاں گیا تھا ؟۔۔اور یوم عشق رسولﷺ منانے والی حکومت نے فوراََ
اس بیان سے حکومت کی لا تعلقی کا اعلان کر دیا ۔یہاں تک کہ بلور صاحب
کی اپنی پارٹی نے بھی اس بیان کو پارٹی پالیسی کے خلاف قرار دیا
۔۔۔سوال یہ ہے کی اگر اظہار رائے اور آزادی اظہار اتنی ہی بے لگام ہے
تو یہ توہینِ عدالت کا قانون کیا بلا ہے؟ یہ ہتک عزت کا قانون کیا ؟۔
جو پوری دنیا میں نافذالعمل ہے۔اور پاکستان میں تو ایک وزیر اعظم اس
توہین عدالت کے قانون کی وجہ سے گھر چلے گئے۔ اور ہولو کاسٹ پہ تفصیل
سے بات کرنا تو درکنار صرف اسکے انکار پر آدھے سے زیادہ یورپ میں سزا
مقرر ہے۔یہ دو رنگی کیوں ؟شائد اس وجہ سے کہ مسلمان لیڈر اور قوم دونوں
ہی اپنی غیرت کھو بیٹھے ہیں۔ غیرت کردار سے پھوٹتی ہے۔اور کردار کب کا
مر چکا ہے۔حکومت پاکستان نے گستاخی رسول کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے
یومِ عشقِ رسول منانے کا اعالان کیا مگر ۔۔۔۔۔۔ یہ ساری سیاسی قیادت
نجانے کہاں کمبل اوڑھ کے سوتی رہی ؟نہ حزبِ اقتدار کہیں سڑکوں پہ
احتجاج کرتی نظر آئی اور نہ ہی حزب اختلاف۔یہ دونوں ہی اس بات پر متفق
ہیں کہ امریکہ ناراض نہ ہو جائے میں سوچتا ہوں کہ قیامت کے دن یہ شفاعت
کے لئے بھی کیا امریکہ کے پاس ہی جائیں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ´۔ میں یہ بھی
سوچتا ہوں کہ اگر بی بی شہید اور شیر پاکستان کی شان میں کوئی اسطحرح
کی گستاخی کرتا تو ان نام نہاد لیڈروں کے چمچے کڑچھے پھر بھی چپ چاپ
اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے؟ ہر گز نہیں بلکہ یہ ہر کونے کھدرے سے
ٹر ٹر کرتے باہر آجاتے اور آسمان سر پہ اٹھا لیتے۔پورے ملک میں اک آگ
لگا دیتے ۔اب جب سرکار کی عزت اور ناموس کی بات تھی تو چھٹی کا اعلان
کرکے خود نجانے کہاں چلے گئے اور عوام کو جلاﺅ گھیراﺅ کے لیے چھوڑ دیا
۔جنہیں ان نام نہاد لیڈروں نے پینسٹھ سالوں میں احتجاج کرنے کا سلیقہ
بھی نہیں سکھایا ۔کسی نے احتجاج کرنے کا طریقہ سیکھنا ہو تو ڈاکٹر
طاہرالقادری کے پیرو کاروں کے احتجاج کو دیکھ لے۔ انہوں نے جب بھی
احتجاج کیا ہے کبھی ایک شیشہ بھی نہیں ٹوٹا۔رحمان ملک بھی ان کی تعریف
کر رہے تھے مگر اپنے کار کنوں تہذیب سکھانے پہ تیار نہیں ۔
کچھ لوگ جو خود کو بڑا دانشور سمجھتے ہیں ٹی وی پہ درس دے رہے تھے کہ
اس موضوع پہ احتجاج نہیں کرنا چاہئے۔اور میں سوچ رہا تھا کہ اگ اس
موضوع پہ احتجاج نہیں کرنا تو پھر ہمیں مومن تو دور کی بات ہے انسان
بھی نہیں کہلانا چاہئے ۔ ہاں البتہ پر امن احتجاج کی کوشش کرنی چاہئے
اگرچہ یہ بات بھی درست ہے سرکارﷺ کی گستاخی ایک ایسا فعل ہے جس پر
انسان کے کیا خدا کے جذبات بھی قابو نہیں رہتے ۔ یہ نام نہاد دانشور
بڑی بڑی کتابیں تو بہت پڑھتے ہیں کبھی قرآن کو بھی پڑھ لیا کریں۔کیا
کوئی تصور کر سکتا ہے کہ خالقِ کائینات جو انسانیت کو اعلیٰ اخلاق کا
درس دینے والا ہے کسی کو گالی دے گا ؟مگر قرآن میں خالقِ کائینات نے
ایک مقام پر گالی دی ہے اور وہ گستاخِ رسول کو دی ہے ۔جب سرکارﷺ کی
بارگاہ میں ایک شخص نے گستاخی کی تو خالقِ کائینات کا جلال جوش میں
آگیا اور اس گستاخ کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ جھوٹا ہے ۔
وہ فلاں ہے وہ فلاں ہے ۔۔۔۔اور وہ حرام کے نطفے سے پیدا ہواہے یعنی
حرامزادہ ہے ۔قرآن کی اس نص کی روشنی میں میرا یہ پختہ ایمان ہے کہ
سرکار دو عالم ﷺکا گستاخ جو چاہے بنتا پھرے اس کی رگوں میں حلال کا خون
نہیں ہو سکتا ۔ایسا شخص دھرتی اور انسانیت دونوں پر بوجھ ہے جس کا قلع
قمع جلد از جلد ضروری ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تاجدارِ کائینات اور دیگر انبیا کی گستاخی کے
باب اور اسباب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا جائے ۔اس کے لئے محض
قراردادوں کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔سب سے پہلے تمام
مسلم ممالک اپنے اپنے آئین میں گستاخی رسول ﷺاور دیگر انبیا کی گستاخی
کو فکری دہشت گردی قرار دیں اور اس کا ارتکاب کرنے والے کو دہشت گرد
قرار دیں جس کی سزا موت ہو۔اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے ممالک اس
جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص کو عالمی اسلامی عدالت ( مسلم ممالک ملکر
ایک عالمی اسلامی عدالت بھی بنائیں )کے حوالے کرنے کے پابند ہوں ۔ اس
مسئلہ کو عالمی عدالت میں اٹھایا جائے اور ثابت کیا جائے کہ گستاخی
رسول ﷺفکری دہشت گردی ہے اور عالمی امن کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس
کیس کو موثر انداز میں پیش کیا جائے ۔ مسلم دنیا کے چوٹی کے سکالرز پہ
مشتمل ایک پینل تشکیل دیا جائے جو عالمی عدالت میں اس کیس پر اپنا
کردار ادا کرے ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اس سلسلہ میں اپنی خدمات پیش
کرنے کی پیش کش کی ہے۔ ان سے بھی اس پر بات کی جائے کہ وہ بھی عصرِ
حاضر کے جید اسلامی سکالر ہیں جنہوں نے عشقِ رسول کی ترویج کے لئے بہت
کام کیا ہے۔تمام مسلم ممالک ملکر اقوام متحدہ کا ہنگامی اجلاس بلائیں
اور آزادی اظہار کی بین الاقوامی تعریف کروائیں ۔اس کی کچھ حدود و قیود
طے کی جائیں ۔اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے قانون سازی کی جائے جس
کے مطابق انبیا کی توہین کرنا جرم اور دہشت گردی قرار دیا جائے جس کے
سزا موت ہو۔اور اگر اقوام متحدہ نہ مانے تو تمام مسلم ممالک اقوام
متحدہ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیں۔
اور سب سے اہم بات کہ مسلم ممالک بالعموم اور پاکستان باالخصوص اقتصادی
اور فنی طور پر ترقی کریں ۔ اقوام عالم کے برابر آئیں تاکہ ان کی عزت
اور احترام بحال ہو۔ وہ بات کریں تو اقوامِ عالم اسکو اہمیت دیں ۔بھیک
مانگنا چھوڑ دیں۔عشقِ رسول کو اپنا ضا بطہ حیات اور اپنی زندگیوں کا جز
بنا لیں ۔صرف ایک دن یوم ِ عشق رسول منانے کا مطلب کیا ہے؟ عشق رسول کو
اپنے اپنے معاشروں میں ایک زندہ و جاوید نظام کی صورت میں نافذ کریں ۔
اور عوام اسی کی بنیاد پر اپنے حکمرانوں کا انتخاب کریں ۔کہ جو مسلام
حکمران سرکار دو عالم سے محبت نہیں کرتا وہ اسکی امت سے کیا محبت کرے
گا اور اسکی خدمت کے لئے کیا کرے گا؟ امت مسلمہ کا ہر ہر فرد اقوام
عالم پہ یہ بات بھی واضح کر دے کہ
دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
ان سب کو مانتا ہوں مگر مصطفےٰ کے بعد |