تاریخ سے لاعلم پاکستانی قیادت

عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ جمہوری نظام ایک بہترین نظام حکومت ہے کیو نکہ جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جو عوام کے ذریعے اور عوام کے لئے ہی ہو تی ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ہما رے ہا ں جمہو ری حکومت نے عوام کو جمہوریت سے بد ظن اور اور مایوس کر دیا ہے۔وطن عزیز میں حکمران طبقہ نہ تو جمہوری نظام کی روح سے شنا سا ہے اور نہ ہی اپنے آ باوءاجداد کی تعلیمات و عملیات سے واقف ہے۔

بانی پاکستان قا ئد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا ” میں بڑ ھاپے میں اس لئے جد و جہد نہیں کر رہا کہ سر ما یہ دار اور اعلٰی بیو رو کر یسی کو ملک کے وسائل لو ٹنے کا مو قعہ ملے بلکہ میری جد و جہد اس لئے ہے کہ میں غر یبوں، محتا جوں ،بیو اوئں ، یتیمو ں اور محروم ا لوسائل عوام کی مدد کر سکوں،، سردار دو جہاں سرور کا ئنات ﷺ نے اپنا کل ا ثا ثہ اپنے خالق و ما لک او ر رب رحیم کے پا سجانے سے پہلے غریبوں میں تقسیم کر دیا تھا۔حتی کہ آپ کی رحلت کے وقت گھر میں چراغ جلانے کے لئے تیل بھی مو جود نہ تھا۔ آپ کی ازدواج مطہرات اور صحابہ کرام کا بھی معمول تھا کہ گھر آ ئے مہمان کو کھانا کھلائے بغیر جانے نہیں دیتے تھے۔یہاں تک کہ مہمان کو بے خبر رکھنے کے لئےکہ وہ خود کھانا نہیں کھا رہے ہیں،اپنے گھر کا چراغ بجھا دیتے تھے تا کہ وہ بے خوف و خطر پیٹ بھر کر کھانا کھا لیں۔۔

قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے۔”کہ مومن غریبوں اور حاجت مندوں کو اپنی جان پر تر جیح دیتے ہیں خواہ وہ خود تنگ دست ہوں،،حضرت عمر بن عبد العزیز جنہیں پا نچواں خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے،اپنا منصب سنبھا لنے سے پہلے اس قدر ما لدار تھے کہ ان کے خزانوں کی چا بیا ں او نٹوں کی قطار پر لاد کر لے جا ئی جا تی تھیں لیکن منصب سنبھا لنے کے بعد انہو ں نے فقیرانہ زند گی اختیار کر لی،جب سرکاری کام ختم ہو جاتا تھا تو سرکاری لیمپ بجھا دیتے اور تیل جلا کر اس کی روشنی میں ذاتی کام کرتے۔ایک دفعہ کھانے میں ان کی زوجہ محترمہ نے انہیں کچھ میٹھا پیش کیا۔آپ نے پو چھا،یہ کہا ں سے آیا ہے؟ زوجہ محترمہ نے بتایا کہ بیت ا لمال سے روزانہ ملنے والے راشن سے چٹکی چٹکی آ ٹا بچا کر یہ میٹھا بنا یا ہے۔آپ نے اسی وقت حکم دیا کہ کل سے بیت ا لمال سے اتنا راشن کم آیا اور ملا کرے،جتنا آپ نے میٹھا بنا نے پر صرف کیا ہے۔

دور کیوں جا ئیے،مغلیہ خا ندان کے آ خری بڑے حکمران اورنگ زیب عا لمگیر ٹو پیاں سی سی کر اور قرآن مجید کی کتا بت کر کے اپنی ضروریات پو ری کرتے تھے۔ ہمارے اپنے با نی پاکستان حضرت قا ئد ا عظم ایک ایک پائی کا حساب رکھتے تھے۔اور جہاں بھی کو ئی غلطی کرتا یا قائد ا عظم کے اندازے سے ذیادہ خرچ کرتا تا اس کی سخت با ز پرس کرتے۔ان کے سیکر ٹری جناب کے ایچ خو رشید ان کی ہدایات پر سختی سے عمل کرتے۔ایک روز ’ جب قائد ا عظم زیارت میں زیر علاج تھے،خلا ف معمول بڑی رغبت سے کھانا کھایا اور پو چھا یہ کھانا کس نے بنایا؟

آپ کو بتایا گیا کہ فلاں پرانا با ورچی جو آپ کے ذوق اور مزاج کو سمجھتا ہے، اسی نے یہ کھانا بنا یا ہے، قائد اعظم سخت نا راض ہوئے اور پوچھا” کہ آپ نے کس کی اجازت سے اسے کرا چی سے بلایا ہے؟ قا ئد ا عظم کی ہمشیرہ محترمہ فا طمہ جنا ح خا موش رہیں،، آپ نے حکم دیا کہ اس کو واپس بھیجو اور اس کی آمد و رفت پر اٹھنے والے اخراجات میری جیب سے ادا کردو۔قا ئد اعظم کی کس کس ادا کا ذکر کیا جائے۔

ایک دفعہ آپ ڈھاکہ کے انتہا ئی ضروری کام پر جا نا چاہتے تھے۔آپ کو بتایا گیا کہ حکو مت کے پا س جو جہاز ہیں وہ ایک ہی پرواز میں ڈھاکہ نہیں پہنچ سکتے،ایک ہی پرواز میں ڈھاکہ پہنچنے کے لئے دو سرا جہا ز خر ید نا پڑے گا۔قائد اعظم نے کہا” میں اس غریب ملک کا پیسہ نئے جہاز کے انتظام پر خرچ کرنا نہیں چاہتا۔،،قا ئد اعظم ایوان صدر کے اخراجات پر کڑی نظر رکھتے اور کسی کو ان سے تجا وز کی اجا زت نہ دیتے۔فا لتو بتیاں بند کروا دیتے۔اپنے کپڑوں پر اٹھنے والے اخراجا ت کا با قا عدہ حساب رکھتے۔مادر ملت محترمہ فا طمہ جناح کو سختی سے ہدایت تھی کہ اخراجات پر کڑی نظر رکھیں اور جو بھی خلاف ورزی کرے اس کی سخت باز پر س کی جائے۔

اگر مو جودہ حکمرانوں کے اللے تلوں پر نظر دو ڑائی جائے تو حیرانگی ہو تی ہے اور یوں لگتا ہے کہ وہ اپنے آباءاجداد،اسلاف اور بانیءپاکستان کے طور طر یقوں اور معمولات سے با لکل نا بلد ہیں۔وہ تاریخ کا مطالعہ نہیں کرتے۔انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چا ہئے کہ جو حکمران تاریخ سے لا علم ہو تے ہیں ، تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے،وہ نہ صرف خود تباہ ہو جاتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ پو ری قوم کو ڈ بو دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315715 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More