پیسہ ہمارا۔۔۔۔۔فیصلہ تمہارا

ہم اس قوم سے قطعاً مختلف نہیں ہیں جس نے بڑے ادب وآداب کوملحوظ خاطررکھتے ہوئے اپنے شہنشاہ سے شہر کے مرکزی دروازے پرتعینات جوتے مارنے والے اہلکاروں کی تعدادبڑھانے کیلئے کہا تھا ۔انہیں توصرف شہرسے باہرجانے اورشہرمیں داخل ہونے پرجوتے مارے جاتے تھے مگرہمیں تو ہرموڑاورہرمرحلے پرجوتے مارے جاتے ہیں اورجوتے مارتے وقت گنتی بھی نہیں کی جاتی ۔حکمرانوں اوران کے حواریوں کاقافلہ جہاں جہاں سے گزرتا ہے وہاں عام گاڑیاں کافی دیرتک روک دی جاتی ہیں اورشہریوں کوجوتے مارے جاتے ہیں۔ جس دورمیںپٹرول پچاس سے تجاوزکیاتھا اس وقت بھی عوام بڑُبڑائے مگرپھرمجبوراً قطاروں میں کھڑے ہوگئے جہاں انہیں جوتے مارے گئے اب پٹرول اورڈیزل کی قیمت فی لٹرایک سوروپے سے تجاوزکرگئی ہے مگرلوگ مہنگائی کاماتم کرنے کے باوجود قطاروں میں کھڑے ہوکرپٹرول خریدنے اوراپنی پیٹھ پرجوتے سہنے پرمجبور ہیں،ہم میں سے کوئی اپنا لائف سٹائل تبدیل کرنے کیلئے تیار نہیں ہے،اگرہم سادگی نہ چھوڑتے تویقینا آسودگی ہم سے ناراض نہ ہوتی ۔الیکشن والے دن بھی عوام دن بھرقطاروں میں کھڑے ہوکر محض پارٹی یابرادری کی بنیادپراپنے پسندیدہ امیدوار کے انتخابی نشان پر مہرثبت کرتے ہیں اورپھرپورے پانچ سال تک ان کے نمائندے انہیں جوتے مارتے اوران کااستحصال کرتے ہیں ۔کسی ہسپتال کی ایمرجنسی یاآﺅٹ ڈوروارڈ میں پرچی بنوانے کیلئے بھی مردوخواتین قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں اوروہاں بھی انہیں جوتے مارے جاتے ہیں جبکہ امریکہ اوربرطانیہ جیسے مہذب ملکوں میں ڈاکٹرسے معائنہ کرانے کیلئے پیشگی ٹیلیفون پروقت بے کیا جاتا ہے ۔بجلی اوردوسرے یوٹیلیٹی بلزکی ادائیگی کیلئے بھی خواتین سمیت ہرعمر کے افراد قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ضعیف عمر کے مردوخواتین پنشن کی وصولی کیلئے بھی ہرطرح کے موسم میں صبح سے شام تک قطاروں میں کھڑے ہوکرشام کومایوس اپنے گھرلوٹ جاتے ہیں اوراگلے روز پھر اسی اذیت اورہزیمت سے گزرنے کیلئے قطار بنالی جاتی ہے۔مگرآج تک چشم فلک نے کسی حکمران ،سیاستدان یاان کے عزیز واقارب کوکسی قطارمیں کھڑے ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ۔عام شہریوں سے جیل کے اندرجاتے وقت موبائل فون لے لیا جاتا جبکہ ان کے ووٹوں سے منتخب ہونیوالے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی موبائل سمیت سپرنٹنڈنٹ جیل کے آفس میں جاتے ہیں اوروہاں بھی انہیں قطار میں نہیں لگناپڑتاجبکہ عام لوگ قطاروں میں کھڑے ہونے اورفیس دینے کے بعدجیل میں اپنے کسی عزیزیادوست سے ملاقات کرپاتے ہیں۔ان قطاروں اورشرمناک نظاروں کے باوجود ہمارے عام لوگ اپنے ووٹوں سے منتخب ہونیوالے حکمرانوں سے صرف جوتے مارنے والے اہلکاروں کی تعدادبڑھانے کی درخواست کرسکتے ہیںتاہم بدقسمتی سے کوئی عام آدمی ارباب اقتدارواختیار سے جوتے مارنے کی وجوہات دریافت نہیں کرتا،کوئی ان کاہاتھ نہیں روکتااورکوئی اس فرسودہ اوربیہودہ نظام کیخلاف مزاحمت یا بغاوت نہیں کرتا ۔قتیل شفائی مرحوم نے اپنے بزدل اورمنافق ہم وطنوں کیلئے کیا خوب کہا ہے،
دنیا میں قتل اس سامنافق نہیں کوئی
جوظلم توسہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

پاکستان میں تعمیروترقی کے منصوبوں کیلئے پیسہ عوام کااستعمال ہوتاہے جبکہ اس کا فیصلہ حکمران کرتے ہیں۔حکمران جہاں چاہیں اورجوچاہیں وہ تعمیر کردیں چاہے لوگ بھوک اوربیماریوں کے نتیجہ میں مررہے ہوں۔انہوں نے ہروہ کام کرناہے جس کاانہیں زیادہ سے زیادہ سیاسی اورمالی فائدہ ہو۔جس قدر بڑاتعمیراتی منصوبہ ہوگا اس قدران کی جیب بھاری ہوگی۔ چاہے عوام کے پیسے سے عوام کا جینا محال ہوجائے،انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔کوئی بھی منصوبہ شروع کرتے وقت عوام سے ان کی رائے تک نہیں لی جاتی ،حکمران عام شہریوں سے ان کی مرضی تک پوچھناگوارہ نہیں کرتے ۔عوام کے پیسوں سے کوئی نوازشریف پارک اورکوئی بینظیر ہسپتال بن جاتا ہے ۔قومی سرمائے سے حکمران اپنے یا اپنے باپ داداکے نام پرقومی ادارے کس طرح بناسکتے ہیں،اگرانہیں شہرت کی بہت بھوک ہے توان اداروں کی تعمیر کیلئے اپناسرمایہ استعمال کیوں نہیں کرتے ۔ہمارے ہاںصوابدیدی فنڈزکازیادہ تراستعمال بھی سیاسی رشوت اوراقرباءپروری کے طورپرکیا جاتا ہے ۔کسی تعمیراتی منصوبے پردس کروڑ روپے خرچ ہوں یاایک سوارب روپیہ صرف ہووہاں حکمرانوں کے نام کی تختی آویزاں کی جاتی ہے جبکہ اپنے خون پسینے کی کمائی سے پیسہ فراہم کرنے والے شہریوں پرالٹااحسان جتایا اوران پرزندگی کاگھیرامزیدتنگ کردیاجاتا ہے ۔

فیروزپورروڈ پرزیرتعمیرریپڈبس سسٹم کے منفی اثرات سے ہمارے معاشرے کاایساکوئی طبقہ نہیں جوبراہ راست متاثرنہ ہوا ہو۔کسی نے اپنے کاروبار کی بقاءاورکچھ شہریوں نے اپنی دکانوں کومسمارہونے سے بچانے،ہیومن رائٹس موومنٹ نے لاہورجنرل ہسپتال کے واحدیوٹرن کی بحالی اورکچھ افرادنے لاہورجنرل ہسپتال کے بالمقابل انڈرپاس بنوانے کیلئے عدالت عالیہ کادروازہ کھٹکھٹایا،کسی کو عدالت سے فوری ریلیف مل گیااورکچھ کیلئے عدالت نے متعلقہ اداروں ایل ڈی اے اورٹیپا کوٹائم فریم دے دیا تاہم ٹیپا،ایل ڈی اے حکام اورسی ٹی اولاہورکیپٹن (ر)سہیل چودھری کی طرف سے عدالت عالیہ کودی جانیوالی تحریری کمٹمنٹ پرعملدرآمد نہیں کیا جارہا ہے جس سے دونوں طرف کی مقامی آبادیوں کے لوگ بیحدپریشان ہیں۔اگرسڑک پوری طرح تعمیرہونے تک لاہورجنرل ہسپتال کاواحدیوٹرن بندنہ کیا جاتا توآج سیّد اکبرعلی شاہ اپنے اہل خانہ کے درمیان ہوتے مگر محض چندمنٹوں کافاصلہ پونے گھنٹے میں طے کرنے سے انہیں بروقت طبی امدادنہ ملی اوران کاانتقال ہوگیا ۔اپنے پیاروں کی موت پرصبرآجاتا ہے مگراس قسم کی حادثاتی اوربے بسی والی موت کاغم کبھی کم نہیں ہوتا۔ابھی کئی مقامات سے سڑک تعمیرکرنے کے بعدتوڑی جارہی ہے ،کیا ہمارامقروض ملک اپنے قیمتی وقت اورپیسے کے ضیاع کامتحمل ہوسکتا ہے۔پیسہ بربادکرنابھی بدترین کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔

عوام نے جس کلاس کواپنا نمائندہ یانجات دہندہ سمجھ لیا ہے ،اس کلاس کے اورعام آدمی کے مفادات میں کوئی مطابقت نہیں۔اس نام نہاداشرافیہ کاعام آدمی کے روزمرہّ کے مسائل سے زندگی بھرکبھی واسطہ نہیں پڑتا۔حکمران نہیں جانتے جب ڈاکٹروں کی ہڑتال کے نتیجہ میں کسی کامعصوم بچہ یاضعیف باپ انتقال کرجائے تواس گھرپرکیا قیامت گزرتی ہے۔حکومت کیاجانے جب سرعام کسی کی جمع پونجی یاکسی کی عصمت لوٹ لی جا ئے توان کی دنیا کس طرح اندھیرہوجاتی ہے۔جب مبینہ طورپرجعلی پولیس مقابلے میں کسی ماں کااکلوتا بیٹا موت کی ابدی نیندسلادیا جائے توان کے آنگن میں موت کس طرح رقص کرتی ہے۔حکمرانوں کوکیا معلوم جب کسی کی زندگی بھر کی کمائی سے خریداگیا پلاٹ کسی قبضہ مافیا کے دسترس میں آجائے تووہ کس طرح دربدربھٹکتے ہیں مگرانہیں بروقت انصاف نہیں ملتا ۔وہ نہیں جانتے جب سروس روڈ پرکئی کئی گھنٹے گاڑیوں کی آمدورفت معطل اورکئی گاڑیوں کاپٹرول یاڈیزل ختم ہونے سے شہریوں پرکیا گزرتی ہے جب ٹریفک جام ہونے کے نتیجہ میں لوگ شاہراﺅں پر روزہ افطار کرتے ہیں توان کادل کس طرح خون کے آنسوروتا ہے ۔کسی عزیز کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجائے اورہسپتال چندقدم کی دوری پرہومگروہ بروقت نہ پہنچ پائے اوراس کاعزیز اس کے ہاتھوں میں تڑپ تڑپ کر دم توڑجائے توپھراس کاجنازہ کس طرح اٹھایا جاتا ہے اوراس مرحوم کی میت اپنے ورثااوردوست احباب سے کیا کیا سوال پوچھتی ہے۔
Saima Shehzadi
About the Author: Saima Shehzadi Read More Articles by Saima Shehzadi: 2 Articles with 2505 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.