ڈرون حملوں پر آج تک میڈیا کے
ذریعے احتجاج دیکھا اور پڑھا جارہا تھا۔ کسی سیاسی پارٹی نے ان حملوں کے
خلاف باضابطہ احتجاج نہیں کیا۔ اس حوالے سے اپنے ایک کالم ”ڈرون بمقابلہ
فرعون“ میں بھی لکھ چکا ہوں کہ ڈرون حملے زبانی کلامی احتجاج سے بند نہیں
ہونگے اس کے لیے حکومت کو عملی اقدامات کرنا ہونگے ۔ کسی بھی مذہبی یا سیا
سی جماعت نے میدان میں نکل کر آواز بلند نہیں کی۔ جس طرح لاہور میں سونامی
لا کر عمران خان نے اپنا قد اونچا کیا تھا آج وزیرستان کی دہلیز پر پہنچ کر
ثابت کر دیا کہ وہ ڈرون حملوں کے خلاف ہیں اور وہ اپنے مسلمان بھائیوں پر
ہونے والی زیادتیوں پر خاموش نہیں ر ہ سکتا ۔
اس امن مارچ کے لیے عمران خان کو مختلف طریقوں سے ڈرایا گیامگر یہ ڈر عمران
خان کا جذبہ ختم نہ کرسکا۔ پھر اس کے مارچ کو مختلف جگہ پر روکنے کی دھمکی
بھی دی گئیں۔ عمران خان ایک ضدی پٹھان کی طرح اپنے فیصلے پر قائم رہے اور
پٹھانوں کی روایت برقرار رکھی کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتے۔ شاید حکومت نے یہ
سوچ کر ڈرایا ہوکہ یہ انگریزوں کے ملک میں پلا بڑھا ہے اور ڈر کر گھر بیٹھ
جائے گا مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ اس کی رگوں میں جو خون دوڑ رہا ہے وہ
ایک پٹھا ن کا ہے ۔پٹھان جان تو دے سکتا ہے مگر اپنی زبان سے نہیں پھرتا۔
عمران خان کے کرکٹ کے دور کی وہ بات یاد آگئی جب ایک انٹرویو میں بشن سنگھ
بید ی سے سوال کیا تھا کہ سنا ہے کہ بارہ بجے سردارکا دماغ گھوم جاتا ہے تو
سردار صاحب جب عمران نے آپ کو سٹروک لگائے اس وقت بارہ تو نہیں بجے تھے تو
اس نے ایک بہت اچھا اور مزاحیہ جواب دیا کہ بھائی ہمارا تو ٹائم فکس ہے کہ
بارہ بجے گھوم جاتے ہیں مگر پٹھا نوں کا کیا کریں ان کا دماغ تو کسی بھی
وقت گھوم سکتا ہے۔
عمران خان کی سیاست اپنی جگہ مگر اس نے ایک امن مارچ کرکے انسانیت کی قتل
وغارت کے خلاف دنیا کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ وزیرستان میں کسی کو نہیں معلوم
کہ کس وقت اس پر حملہ ہوسکتا ہے۔ لوگ مسجدوں میں محفوظ ہیں اورنہ ہی اپنے
گھرو ں میں۔ عمران خان نے اپنے ساتھ ہزاروں افراد کو اتنا دلیر کردیا کہ وہ
بلا خوف و خطر اس علاقے میں پہنچ گئے جہاں کسی بھی وقت کچھ ہوسکتا ہے۔ آج
لوگ پرہجوم جگہوں پر جانے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں کوئی دھماکا نہ ہوجائے یا
کوئی خودکش حملہ زندگی کی شمع گل کر دے ۔
پاکستان تحریک انصاف نے آج ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ سب سے بڑھ کر خوشی
کی بات یہ ہے کہ اس امن مارچ میں کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہوا۔ اگر
خدانخواستہ اس امن مارچ میں کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوجاتا تو حکومت کو بولنے
کاموقع مل جاتا کہ ہم نے تو منع کیا تھا کہ یہ امن مارچ نہ کیا جائے۔ مجھے
بے نظیر مرحوم کا وہ جلسہ یاد آرہا ہے جس میں ان کو شہید کیا گیا کیونکہ اس
وقت بھی ان کو جلسہ کرنے سے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ سیکورٹی رسک ہے مگر
انہوں نے وہ جلسہ تو کر لیا مگر اپنی جان کی قربانی دے دی۔
عمران خان جو انقلابی لیڈر بننا چاہتے تھے مگر ان کے مشیروں نے ان کو اس
لائن سے دور کردیا ہے۔ عمران خان نے ڈرون حملوں پر آواز اٹھا کر دنیا میں
ایک بار پاکستان کا سبزہلالی پرچم اونچا کردیا ہے۔ پاکستان میں ڈرون حملوں
کو خو د امریکی میڈیالکھ رہا ہے کہ یہ حملے پاکستان کی رضا مندی سے ہورہے
ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کی خاموشی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ شاید
ایسا ہی ہے۔ پاکستان ایک آزاد ملک ہے مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم یہاں
آزادی سے جی بھی نہیں سکتے ۔ اگر ہماری خود مختاری کی بات ہے تو پھر ہمارے
حکمران ہماری آرمی کو کیوں حکم نہیں دیتے کہ ان ڈرون کو گرادیا جائے جبکہ
ہمارے آرمی چیف نے خود کہا تھاکہ حکومت حکم دے تو آج ان کو گراد یں۔اس سے
ثابت ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
جہاں عمران خان کی اس امن مارچ کی تعریف ہورہی ہوگی ادھر اس کی مخالفت بھی
اتنی زیادہ ہورہی ہوگی کیونکہ تعریف تو عوامی سطح پر ہوگی مگر مخالفت سیاسی
سطح پر ہورہی ہے۔ کوئی اس کو یہودی کا ایجنٹ کہہ رہا ہے تو کوئی ڈرامہ باز۔
یہ سب ایک طرف مگر یہ باتیں کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ اگر یہ یہودیوں
کا ایجنٹ ہے تو تم کونسا یہودیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے جہا د کررہے
ہو۔ تم لوگوں میں سے کونسا لیڈر وزیرستان جاکر ان لوگوں کے سر پر ہاتھ رکھ
کرآیاہے جن کو ناجائز شہید کیا گیا ہے۔ہر چیز میں سیاست اچھی بات نہیں ۔
ڈرون حملے ملکی خودمختاری پرہورہے کسی دہشت گر د پر نہیں۔ اگر وہاں کوئی
دہشت گرد ہے تو پاکستان کو اپنی فورس کے ذریعے ان کا خاتمہ کرانا چاہیے۔ |