بسم اللہ الر حمن الر حیم
عالمی سطح پر قانون سازی کے لیے موثر جدوجہد کی ضرورت
شر ا نگیز ،دل آزار اور گستا خا نہ فلم کے معا ملے میں عا لم اسلا م میں
بیدا ری کی جو لہر اٹھی وہ حو صلہ افزاءبھی ہے اور فکر انگیز بھی.... حوصلہ
افزاءاس لحا ظ سے کہ دینی اقدارو روایا ت،قابل احترام مذہبی شخصیات اور
پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں دنیا بھر کے اہل ایمان
اپنی تمام تر کمز ور یوں اور کو تا ہیو ں کے با وجو د ابھی تک جس حساسیت
اور ایما نی غیر ت کا مظا ہر ہ کر تے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ابھی اس امت کی
خا کستر میں بہت سی چنگا ریا ں باقی ہیں ۔ انہی چنگا ریو ں سے چراغ بھی رو
شن ہو تے ہیں اورانہیں چنگا ریو ں سے الاؤ بھی جل اٹھتے ہیں۔ اس لیے یہ
بیداری ایک لمحہ فکر یہ کی حیثیت بھی رکھتی ہے کیو نکہ کئی جگہو ں پر یہ صو
رتحال دیکھنے میں آ ئی ہے کہ مسلمانوں کے سینو ں میں دبی عشقِ ر سا لت کی
چنگا ریوں سے چر اغ جلنے اور پھر چر اغو ں سے مزید چرا غ جلنے کی بجا ئے
الاؤ سے بڑ ھک اٹھے ہیں ۔ہمیں اس وقت یہ کو شش کر نی ہے کہ ان چنگا ریو ں
سے جو الاؤ بڑ ھکیں ان سے اپنا نقصاں نہ ہو ،اپنی املا ک نذر آ تش نہ ہو ں،
اس دہکتے الاؤ کے شعلے محض و قتی نہ ہو ں بلکہ امت مسلمہ کی اس بیداری کو
ایک مستقل تحریک کی شکل دینے کی ضرورت ہے اور تسلسل کے سا تھ اس فکر کو عا
م کر نے کی ضرورت ہے کہ دنیا مذاہب کے احترام، قا بل احترام ہستیوں کے تقدس
اور مذہبی شعا ئر کے ادب کے حوالے سے سر جوڑ کر بیٹھے اور با قا عدہ طو ر
پر قا نو ن سا زی کی جا ئے اور ایک ایسا حل تلاس کیا جائے ،کوئی ایسا ضابطہ
اور قاعدہ تشکیل دیا جائے کہ انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کے نام پر
کسی کو دنیا کا امن وسکوں خطرے میں ڈالنے اور کروڑوں لوگوں کی دلآزاری کا
ارتکاب کرنے کی جرات نہ ہوسکے ۔
یاد رہے کہ یہ پہلا مو قع ہے جب اہلِ مغر ب اور اہل با طل پسپا ئی اختیا ر
کر نے پر مجبو ر ہو ئے ،دلیل کے میدان میں ان کی شکست و اضح دکھا ئی دے رہی
ہے ایسے میں عوامی سطح پر بھی اور حکو متی سطح پر بھی، ملکی اجتما عا ت و
تقر یبا ت میں بھی اور عالمی فو رمز پر بھی مسلسل یہ آ واز اٹھا نے کی
ضرورت ہے کہ دنیا کے امن و سکو ن کو بچا نے کے لیے اور تہذیبو ں کے تصا دم
کا را ستہ رو کنے کے لیے ایسے قوا نین انتہا ئی ضروری ہیں جن کی وجہ سے قا
بلِ احترام ہستیوں اور مذہبی شعا ئر کو ہد ف تنقید بنا کر دو سروں کے جذبا
ت سے کھیلنے اور گو شہ سکون و عا فیت میں بیٹھے لو گوں کو آ تش فشا ں بنا
دینے کی جسا رت کر نے والو ں کو لگا م دی جا سکے ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ
کچھ عر صے سے پا کستان کا انسدادِ تو ہین ر سالت کا قا نو ن دنیا بھر کے
اہل با طل کی نظروں میں بری طر ح کھٹک رہا ہے۔ وہ مختلف حیلو ں اور بہا نو
ں سے اس قا نون کے خلا ف پر وپیگنڈہ کر تے ہیں ،اس قا نو ن کے غلط استعما ل
کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں اور اس حد تک اس قا نو ن کو آ ڑے ہا تھو ں لیتے ہیں
کہ انسان کو حیرت ہو تی ہے اور دو سری طرف آ زادی اظہا ر رائے کی ما لا اس
تسلسل کے ساتھ جپتے چلے جا تے ہیں کہ”آزادی اظہا رِ رائے“کو ئی آ سما نی
اور الہامی قا نو ن محسوس ہو نے لگتا ہے لیکن حالیہ گستا خانہ فلم ” آ زادی
اظہا ر رائے“کے قا نو ن کے غلط استعما ل کی ایک تازہ ترین مگر بد ترین مثال
ہے اور اس قسم کی کئی مثالیں اس سے پہلے بھی مو جو د ہیں۔
حیر ت انگیز امر یہ ہے کہ کچھ عر صہ قبل جب ایک بر طا نو ی شہزادی کی بر
ہنہ تصا ویر ایک فرانسیسی میگزین میں چھپ گئیں تو اس پر ایک طو فا ن بر پا
ہو گیا۔اسی طرح ہو لو کا سٹ کے معا ملے میں کہیں سے کو ئی آ واز اٹھے تو
ہنگا مہ کھڑا ہو جا تا ہے۔شہزادی کی تصویر کاقضیہ ہو یا ہولو کاسٹ کا
تاریخی واقعہ .... اس طر ح کے مو اقع پرمغر ب ” آ زادی اظہا ر رائے“کے
فلسفے کو فر امو ش کر بیٹھتا ہے لیکن بد قسمتی سے پیغمبر اسلا م ﷺ کی بے حر
متی ہو یا قر آ ن کر یم کی تو ہین ،ازواج مطہرات پر انگلی اٹھا نے کا معا
ملہ ہو یا صحا بہ کرام ؓ کے حوالے سے ہر زہ سرائی مغر ب اور اہل با طل کو آ
زادی اظہا ر رائے کاقا نو ن یا د آ جا تا ہے۔ اس لیے ہما ری دانست میں اب
وہ وقت آ گیا ہے کہ دنیا کو عا لمی سطح پر ایسا کو ئی ضا بطہ ،ایسا کو ئی
قا نو ن بنا نا ہی ہو گا جس کے ذریعے آ زادی اظہا ر رائے اور تو ہین میں
تفر یق کی جا سکے ،کو ئی ایسی لکیر کھینچنی ہی ہو گی جو تو ہین اور آزادی
اظہا ر رائے کے ما بین حد فا صل قرار دی جا سکے اور یہ منزل حا صل کر نے کے
لیے با قا عد گی اور مستقل مزاجی سے محنت کر نے کی ضرورت ہے ،عوامی سطح پر
بھی اور حکو متی سطح پر بھی ،ملکی اور بین الا قوامی دائر وں میں مسلسل اس
طرح کے قانو ن کی ضرورت و اہمیت کو اجا گر کر نے کی ضرورت ہے ۔اس فلم کے
بعد صدر پا کستان جناب آصف علی زر داری کی طرف سے اقوام متحدہ جیسے عالمی
فورم پر،وفاقی و زیر داخلہ کی طرف سے سارک ممالک کے وزرائے داخلہ کے اجلا س
میں اور وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ،ڈپٹی و زیر اعظم چودھری پرویز الٰہی
اور چو ہد ری شجا عت حسین جیسے حکومتی زعما ءکی طرف سے اس معاملے میں جس
دلچسپی اور سنجیدگی کا اظہا ر کیا گیا حتی کہ اے این پی جیسی سیکو لر جما
عت کے رہنما غلا م احمد بلو ر کی طرف سے ملعون گستاخ کے قتل پر انعام کا
اعلان ثابت کرتا ہے کہ اس معاملے میں ہر سطح اور ہر طبقے میں خا صی فکر
مندی اور سنجید گی پا ئی جا تی ہے۔ اس لیے اس حو الے سے کو ئی حکمت عملی و
ضع کر نے کی ضرورت ہے ۔
اس کے لیے
٭.... ایک تو قومی مجلس مشا ورت طرز کی فکر ی اور مشا ورتی نشستوں کا تسلسل
کے ساتھ اہتما م وانعقاد ضرو ری ہے جس میں اربا بِ علم و دانش اور مختلف
شعبہ ہائے زند گی کی سر کر دہ شخصیا ت اس معا ملے میں منصو بہ بندی کر یں
اور غو ر و خو ض کے بعد کو ئی لا ئحہ عمل ترتیب دیں۔
٭....او آ ئی سی کا اجلا س بلا یا جا ئے اور اس معا ملے میں پو ری امت
مسلمہ کو ایک نکتے اور ایک مو قف پر اکٹھا کر نے کی کو شش کی جا ئے ۔
٭....اسلام آ با د میں دنیا کے جن جن ممالک کے سفا رتخانے ہیں ان کے
سفراءکا ایک سیمینا ر منعقد کر وایا جا ئے اور ان کے سا منے اس صو رتحا ل
کی نز اکت و سنگینی کو اجاگر کیا جائے اور اس کے حوالے سے مسلما نو ں کے
جذبا ت و احسا سات سے انہیں آگاہ کرکے اپنے اپنے ملکوں کو رپورٹیں بھیجنے
کا کہا جا ئے ۔
٭....اسلا م آ با د ،لند ن اور مکہ مکر مہ میں ایسی عا لمی سطح کی کا نفر
نسز کا انعقا د کر وایا جا ئے جس میں دنیابھر کے صلح جُو، انصا ف پسند اور
امن دوست زعما ءکو مد عو کر کے اس حوالے سے عالمی سطح پر قا نو ن سا زی کی
ضرورت کا احساس دلا یا جا ئے ۔ |